حسن صباح اورحشیش
ایران کے شہر قم میں پیدا ہونے والا حسن صباح تاریخ کا سب سے طلسماتی کردار ہے، مختلف تاریخی حوالوں میں اسے ایک انتہا پسند ،دہشتگرد اور سازشی آدمی کے طورپر پیش کیا گیا ہے جو مخالفیں کی سرکوبی کے لئے ہرجائز وناجائز طریقوں کو بروئے کارلاتے تھے حسن کے متعلق یہ افسانہ مشہور ہے کہ وہ الموت کے اپنے زیرِ نگین قلعہ میں ایک جنت تعمیر کررکھی تھی،اپنی شاطر فدائیوں کے ذریعے لوگوں کو حشیش پلاکر اغوا کرکے اسی جنت میں لے جاتے وہاں خوبرو لڑکیاں موجودہوتی تھی باغ کے اندر دودھ، شہداور شراب کی نہریں بھی بہہ رہی تھی ،الغرض ایک مکمل جنت بنایا گیا تھااغوأ ہونے والے آدمی کو چند دن وہاں ٹہرا کر دوبارہ حشیش پلانے کے بعد مدہوش کی حالت میں باہر لایا جاتا اور ان کے سامنے یہ آپشن رکھی جاتی، کہ اگر انہوں نے فلان شخص کوقتل کر دیا تو دوبارہ اسی جنت میں جاسکتے ہے یوں جنت دکھاکر اور حشیش جسے بھنگ یا چرس کہتے ہیں پلا کر مخالفین کا قتل عام کیاگیا۔
کوئی بھی تاریخی روایت نقل کرتے ہوئے ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس کا تعلق ارضی حقائق سے ہو نہ کہ افسانوی داستانوں سے ۔ حشیش ایک اعصاب شکن اور کمزور کر دینے والی شے ہیں اسکے استعمال سے انسان بہادر نہیں بلکہ بزدل اورکاہل ہوجاتا ہے ۔’’حشیش ایک مسکنِ اعصاب ہے وہ ایسی چیز نہیں جو کسی کو فداکاری اور جان بازی پر مائل کر سکے بلکہ اس کے برعکس وہ آدمی کو کمزور کرتی ہے اور آہستہ آہستہ اس کی قوت ارادی کو سلب کر لیتی ہے ‘‘۔(حسن صباح ،کریم کشاور صفحہ 170,171،حسن بن صباح،جون ایلیاصفحہ 30)۔حشیش پلانے اورجنت کے متعلق افسانوں کا موجد مارکوپولو ہے انہوں نے اپنا سفر نامہ 1298ء یعنی الموت کی تباہی کے 42سال بعد لکھاالبتہ جدید محققین نے اس سفر نامے اورمارکوپو لو کے چین تک کے سفرکوبھی مختلف حوالوں سے چیلنج کیاہے.
مشہور مغربی محقق پیٹر ویلی جنہوں نے 1959ء سے لیکر 2005ء یعنی 46سال تک ایران ،شام ، ہنزہ اور بدخشان کے اسماعیلی کمیونٹی بالخصوص وہاں کے قلعوں پر ریسرچ کی ان ساڑھے چاردھائیوں کے دوران ماہرین کی ٹیم کے ہمراہ آٹھ نومرتبہ ایران، پانچ مرتبہ شام، ایک مرتبہ ہنزہ اور بدخشان کا دورہ کیا اپنے کتا بEagle\’s Nest میں فرنس ووڈکی کتاب Did Marco Polo go to China?کاحوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں ’’دراصل مارکوپولو چین نہیں گیابلکہ انہوں نے قسطنطنیہ اوربحیرۂ اسودسے آگے مزید مشرق کا سفر نہیں کیا مارکوپولو کے خیالی افسانوں کا اصل ماخذ ان کے والد اور چچا کی روایات ہے جنہوں نے شائد چین کا سفر کیا ہو ‘‘ (Eagle\’s Nest، پیٹر ویلی صفحہ xv ، Did Marco Polo go to China?فرینس ووڈ) ۔’’ حسن ناقابل فراموش شخصیت ہے سیاست اور ملٹری اسٹریٹجی میں ان کو کمال مہارت حاصل تھا اپنے کرشماتی پرسنالٹی کی وجہ سے اپنے پیروکاروں کی غیر مشروط حمایت اور محبت حاصل کی تھی سلجوقوں کے مقابلے میں زندگی اور موت کی جنگ میں ان(اپنے پیروکاروں)کومتحرک کیا اور انہیں نئی زندگی دی‘‘ (E.Nویلی35)۔ ’’اس نے انہیں شراب نوشی اور دوسرے غیر شرعی کامو ں کا ارتکاب کرنے سے منع کر رکھا تھا‘‘(E.N ،ویلی 35، تاریخ جہانکشا جلدسوم 210، حسن بن صباح ،جون ایلیا 8 ، جامع التوریخ 43، تاریخ گزیدہ531، حسن صباح ،کریم کشاورز218)۔’’اس نے اپنے ایک بیٹے محمد کو شراب نوشی اور دوسرے بیٹے حسین کو قتل کے الزام میں موت کی سزا دی تھی‘‘ (تاریخ جہانکشا جلد سوم 209,210، جامع التوریخ 42، روضتہ الصفا جلد4صفحہ 76، تاریخ گزیدہ صفحہ 521میں لکھا گیا ہے کہ حسین کو یہ سزا زنا کے الزام میں دی گئی تھی ، حسن بن صباح ،جون ایلیاصفحہ 8) ۔’’اس نے اپنے ایک عزیز فدائی کو قلعہ الموت سے نکلوادیا تھا کہ اس نے بانسری بجائی تھی‘‘ (حسن بن صباح 8، تاریخ جہانکشا جلد سوم210، جامع التواریخ 43)۔ ’’انہوں نے اپنی بیوی اور بیٹی کوالموت سے دور ’گردکوہ‘ کے قلعے میں بھیج دیا جہاں وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرکے روزی کماتی رہی ‘‘۔ (E.Nویلی 35،تاریخ جہانکشاجلدسوم 211، جامع التواریخ 43، حسن بن صباح ،جون 8)۔
الموت میں موجود جنت اور حشیش پلانے کے حوالے سے بھی کئی روایات ایسی ہے جوکہ حقیقت سے دوربنی بنائی افسانوں سے بڑھ کر کچھ نہیںیہ افسانوی داستانیں مارکوپولو کے ذہن کی پیداوار ہے ’’مارکوپولو نے یہ داستان دوسروں سے سن رکھی تھی کوئی شبہ نہیں کہ ہلاکو خان ، اسکے سرکردہ لوگ،لشکری ، خدمتگار اور عامل مثلاََ عطاملک جوینی اورخواجہ نصیر الدین طوسی بھی اس قصے سے باخبرتھے لیکن انہوں نے قلعہ الموت ،لمسر، میمون دز اور درہ رودبار کے دوسرے قلعوں کی تسخیر کے بعد اس باغِ جنت کو تلاش کرنے کی کوئی معمولی سی کوشش بھی نہیں کی عطاملک جوینی جس نے باطینیوں (نزاری اسماعیلیوں کو باطینی کے نام سے یاد کیا جاتاہے ) کی عداوت کے باب میں ہمیشہ لغو سے کام لیا ہے اور ان کے بارے میں ضرر رسان باتین ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی تاریخ جہانکشا میں جمع کی ہیں وہ اس باغ جنت اور حشیش کا اشارۃََ بھی ذکر نہیں کرتا ،سلجوقی دور کے نامور مورخین جیسے ظہیر الدین نیشاپوری صاحب سلجوق نامہ ،راوندی مولف راحتہ الصدور اور دوسرے اہل قلم جنہوں نے فدائیوں کو ملاغنہ کہہ کر یاد کیا ہے انہوں نے بھی اس باغ جنت وغیرہ کے سلسلے میں ایک حرف تک نہیں لکھا ہے اور فدائیوں پر ایسی کوئی تہمت نہیں لگائی ۔ ابن جوزی جو باطینیوں کا شدید ترین دشمن تھا اس کی تحریروں میں بھی حشیش سے متعلق ایک حرف تک نہیں لکھا‘‘(حسن صباح ،کریم کشاورصفحہ 170، حسن بن صباح جون ایلیا صفحہ 29,30)۔ ایک اور تاریخی غلطی جسے جدید دور کے دانشور بھی عموماََ استعمال کرتے ہیں یہ کہ حسن صباح، نظام الملک اور عمر خیام ہم جماعت تھے جو امام موافق کے شاگرد رہے، حالانکہ نظام الملک کی پیدائش 1017ء یا 1019ء کے درمیان ہوئی اسکے مقابلے میں حسن صباح کی پیدائش 1037ء سے 1047ء کے درمیان ہوئی(ویکی پیڈیا فری انساکلوپیڈیا، حسن بن صباح، جون ایلیا صفحہ48)،جبکہ پیٹر ویلی نے حسن کی تاریخ پیدائش 1055ء لکھا ہے۔ عمروں کے اتنے فرق کے ساتھ ہم جماعت ہونا ممکن نہیں۔
’’اس من گھڑٹ کہانی پر بحث کرنا بھی فضول ہے کیونکہ ماڈرن اسکالرنے تحقیق کے بعد اس کہانی کو انتہائی سادہ وجوہ کے باعث غلط ثابت کیا ہے کہ حسن نظام الملک سے تیس سال بڑاتھا عمروں کے اس فرق کے باؤجود ان دونوں کا کلاس فیلو ہونا ممکن ہی نہیں نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت ملا ہے کہ حسن نے کبھی نشاپور میں وقت گزارا ہویا ان کا عمر خیام سے کبھی رابطہ ہواہو‘‘ (E.N،پیٹرویلی ) ۔ نظام الملک کے اساتذہ کے حوالے سے تاریخی داستاویزات موجود ہے ’’نظام الملک کی تعلیم اور اساتذہ تعلیم کا ذکر تاریخوں میں محفوظ ہے مگر ان میں امام موفق کا نام کسی نے نہیں لیا ہے ‘‘(خیام، سید سلیمان ندوی صفحہ 28،حسن بن صباح ،جون ایلیا صفحہ52) ۔ ان سارے تاریخی حقائق سے ظاہر ہورہا ہے کہ حسن بن صباح کے متعلق جتنے افسانے تراشے گئے ہیں وہ مخالفین کے ذہنوں کی پیداوار ہے اسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ایران اور شام کے وسیع وعریض خطے پر 170سال تک جاری رہنے والی نزاری اسماعیلیوں کی حکومت اور حسن بن صباح پر جدید دور میں بے انتہا تحقیقات ہوئی جس کے بعد پرانے خیالی روایات دم توڑ چکی ہے موجودہ دور کے نامور ایرانی مورخ ڈاکٹر فرہاد دفتری لکھتے ہیں کہ ’’سیاسی اور دفاعی پالیسی مرتب کرنے میں حسن صباح کو ناقابل فراموش صلاحیتیں حاصل تھی ‘‘(فرہاد دفتری، دی اسماعیلیز 366،E.Nویلی 36)۔ ’’حسن بالکل ہی مختلف اندازکے مالک انسان تھے جو زبردست محب وطن اور انتہائی قوم پرست تھے جنہوں نے اپنے مادری وطن فارس پر بیرونی قابض قوتوں (سلجوقی ترک تھے )کے خلاف لڑا‘‘ (Minasian, Shah Diz of Ismaili Fame, P13,62)۔قلعہ المو ت پر نزاری اسماعیلیوں نے تقریباََ170سال(1090ء سے لیکر1256) تک حکومت کی لیکن اس دوران کبھی بھی الموت کے حکمرانوں کے درمیان منصب وعہدے کے لئے چپقلش نہ ہوئی بلکہ انتقال اقتدار انتہائی پر امن انداز سے اور اہلیت کی بنیاد پر ہوتی رہی حسن اپنے بعد اپنے کسی بیٹے یا رشتہ دار کو اپنا جانشین نہیں بنایا بلکہ الموت سے بہت دور قلعہ لمسر کے سربراہ کیا بزرگ امید کو بلا کر اقتدار ان کے حوالے کر دی ، کیا قدیم تاریخ بلکہ جدید تاریخ میں ایک بادشاہ کی موت کے بعد حکومت کی منتقلی اس قدرپر امن اور خالص اہلیت وصلاحیتوں کی بنیاد پر ہوتا ہے؟