کالمز

ڈاکٹروں کی ہڑتال کے ممکنہ نتائج

چیف سیکریٹری گلگت بلتستان محمد یونس ڈاگا نے اپنی جانب سے مطالبات حل کرنے کی یقین دہانی کرا کے علاقہ بھر میں دو ہفتوں سے جاری ڈاکٹروں کی ہڑتال ایک ماہ کے لئے موخر تو کر ا دی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو بھی وفاق میں اپنے سیاسی حریفوں سے ڈاکٹروں کے مطالبات منظور کرا نے میں کامیاب حاصل ہو گی۔ اس کا جواب اگر ہاں میں ملتا ہے تو پھر ان ملازمین کے مطالبات بھی حل ہونے چاہیے جو گزشتہ کئی سالوں سے مختلف سرکاری محکموں میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور ڈاکٹروں کی موجودہ تنخواہوں سے کئی گنا کم تنخواہ پر اپنا گزربسر کر رہے ہیں یا وہ لوگ جو سوشل ایکشن پروگرام یا نیشنل ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے سکولوں میں ایک عام مزدور کی ماہانہ اجرت سے بھی کم تنخواہوں پر علاقے کے غریب اور نادار بچوں اور بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں مصروف ہیں ۔نہیں اگر جواب نفی میں ملتا ہے تو پھر ایک ماہ بعد یہ مسیحا دوبارہ اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال اور احتجاج کی راہ اختیار کر جائیں گے جس کا خیمازہ غریب اور محکوم عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا اور نہ جانے محض چند پیسوں کے لئے کی جانے والی ہڑتال کے باعث مزید کتنی انسانی جانیں ضائع ہوجائیں گی۔ کیونکہ ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث سرکاری ہسپتالوں کے او پی ڈی اور پرائیویٹ کلینک کے بند ہو جانے سے غریب عوام کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اورجو قیمتی انسانی جانوں کے ضائع ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں اس سے آپ سب سے اچھی طرح آگاہ ہیں ۔اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ خدشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ خدا نخواستہ وفاقی حکومت کی طرف سے ڈاکٹروں کے مطالبات کے حوالے سے کوئی مثبت پیش رفت نہ ہونے کی صورت میں ڈاکٹروں کی ہڑتال پھر سے شروع ہوگی جس کا نقصان غریب عوام کو ہی برداشت کرنا پڑے گی اور حکمران اس وقت بھی مذاکرات کیلئے منت سماجت کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا تماشا دیکھتے رہیں گے یوں یہ مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کر جائیگا ۔

بہر کیف مجھے ڈاکٹروں کے مطالبات حل ہونے کی کوئی امید اس لئے نظر نہیں آرہی ہے کہ ان کو وفاقی پیکج دینے کا اعلان پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کیا گیا تھا اس لئے شاید یہ بھی اس دور کے ان اعلانات کی طر ح اعلان ہی کی حد تک ہی رہ گیا ہوجو سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے گلگت بلتستان کے دورے کے موقع پر کئے تھے یا ان کی ایماء پر مقامی حکومت کی جانب سے کیا گیا تھا ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سال 2012 میں ہمارے صوبائی وزیر تعلیم نے اس وقت کی وفاقی حکومت کے وزیر تعلیم و تربیت شیخ وقاص اکرم سے ملاقات کے بعد گلگت بلتستان میں نیشنل ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے سکولوں کے چودہ سو سے زائد اساتذہ کو ملازمتوں کی مستقلی کے ساتھ ساتھ اگلے ماہ سے انہیں معقول تنخواہیں بھی ادا کرنے کی نوید سنا دی تھی لیکن بدقسمتی سے دو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اس پر کوئی عملدرآمد نہ ہوسکا ۔اسی طرح 2009کے قانون ساز اسمبلی کے انتخابی کمپین کے سلسلے میں لالک جان اسٹیڈیم جوٹیال گلگت میں ایک پرہجوم عوامی اجتماع سے اپنے خطاب میں یوسف رضاگیلانی نے جو اعلانات کئے تھے وہ بھی آج تک محض اعلانات کی حد تک رہ گئے جبکہ آصف زرداری کے سکردو کے دورے کے موقع پر کئے جانے والے اور راجہ رینٹل کے قانون ساز اسمبلی اور گلگت بلتستان کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کئے جانے والے اعلانات بھی جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ ہمارے اپنے حکمرانوں نے بھی وفاق میں اپنی جماعت کی حکومت کے بل بوتے پر اپنے اس چار سالہ دور حکومت میں جھوٹے اعلانات کے حوالے سے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ انہوں نے بے شمار چھوٹے موٹے اعلانات کے علاوہ پورے اضلاع بنانے تک کہہ ڈالا جو شائد ان کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں۔ بعد ازاں جب وفاق کی طرف سے ان اعلانات پر کوئی عملدرآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آیا تو شرمندگی سے بچنے کے لئے سابق چیف سکریٹری پر متعلقہ فائلیں غائب کرانے کا الزام عائد کرکے خود کوبے قصور قراردیا۔ حالانکہ میری اطلاع کے مطابق شگراور کھرمنگ کو اضلاع بنانے کی فائل جب صوبائی حکومت کی طرف سے وفاق کو بجھوائی گئی تو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی پرنسپل سکریٹری نے یہ کہہ کر مسترد کردی کہ آبادی کے تناسب سے گلگت بلتستان کے موجودہ سات اضلاع ہی بہت زیادہ ہیں۔ خیر ہم اپنے اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں کہ اگر صوبائی حکومت اور چیف سیکریٹری ڈاکٹروں کے مطالبات کو عملی جامع پہنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ایک خوش آئند اقدام ضرور ہوگا ساتھ ہی ساتھ اس اقدام سے دیگر سرکاری ملازمین کو بھی ڈنکے کے چوٹ پہ حکومت کو اپنے مطالبات منوانے کا راستہ مل جائے گا جس کے تحت کوئی پانی اور بجلی بند کرینگے توکوئی تعلیمی اداروں کی تالہ بندی کرینگے،کوئی گندم اور آٹے کی سپلائی روک دینگے توکوئی علاقے کی سیاحت،ثقافت اورکھیلوں کا فروغ ترک کرینگے،کوئی ہنگامی صورتحال میں رسکیو اور طبی امداد سے انکار کرینگے تو کوئی امن وامان کی زمہ داریاں سنبھالنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرینگے،کوئی ذمینوں کی ناپ تول کاکام چھوڈ دینگے تو کوئی سرکاری فائلوں پر دستخط سے گریزاں ہونگے ، کوئی ٹائر جلاکر سڑکیں بند کرینگے تو کوئی حکومت کے خلاف فلک شگاف نعرے بلند کرینگے اور یوں سرکاری ملازمین کے لئے اپنے جائزوناجائز مطالبات منوانے کے حوالے سے یہ ایک نئی روایت قائم ہو جائیں گی جس سے ان ملازمین کوتو فائدہ حاصل ہوگا مگرمذکورہ بالا اقدامات کے اٹھائے جانے کے نتیجے میں نقصان غریب عوام کا ہی ہوگا جوکہ ہم سب کے لئے سوالیہ نشان ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button