چترال

ڈپٹی کمشنر چترال کی زیر نگرانی تمام محکموں کے سربراہان کا سرحدی علاقے ارندو میں کھلی کچہری

چترال(گل حماد فاروقی)  ڈپٹی کمشنر چترال محمد شعیب جدون کی زیر نگرانی تمام سرکاری محکموں کے سربراہان نے چترال کے  پاک افغان سرحد پر واقع نہایت پسماندہ علاقہ ارندو میں کھلی کچہری کا انقعاد کیا۔کھلی کچہری کے دوران عوام نے شکایات کے انبار لگادئے۔ یہ علاقہ ماضی میں نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے وہاں شرح خواندگی افسوسناک حد تک کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ارندو جاتے ہوئے دامیل کے لوگوں نے شکایت کی کہ دریائے چترال کے اُس پار ان کے گھر آباد ہیں مگر دریا پر پیدل پُل کو حتم کیا گیا جس کی وجہ سے یہ لوگ نہایت دور علاقے سے سفر کرکے اپنے منزل مقصود کو پہنچ جاتے ہیں

SONY DSCلوگوں نے مطالبہ کیا کہ وہاں کم از کم ایک چئیر لفٹ کا بندوبست کیا جائے۔ عوام نے یہ بھی شکایت کی کہ یہاں کے لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور ان کے خواتین مٹکوں میں دریا کا گندہ پانی لانے پر مجبور ہیں جو پینے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ 

یہاں تعمیر شدہ سول ڈسپنسری میں عرصہ دراز سے عملہ نہیں ہے جس کی وجہ سے مریضوں کو دور دراز ہسپتالوں کو جانا پڑتا ہے۔ 

ڈپٹی کمشنر نے عوا م کو یقین دہانی کرائی عنقریب ویلج کونسل(دیہی تنظیمات) کیلئے انتحابات کے ذریعے موزوں افراد کو منتحب کیا جائے گا جن کے پاس ہسپتال، سکول وغیرہ کے لیے فنڈز میسر ہونگے. انہو ں نے عوام پر زور دیا کہ وہ ایسے افراد کا انتحاب کرے جو نہایت ایماندار ہو اور حلوص نیت کے ساتھ ان کی خدمت کرسکے۔ 

چترال سے منتحب رکن قومی اسمبلی شہزادہ افتحار الدین نے یقین دہانی کرائی کہ وہ یہاں کے عوام کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اس موقع پر چترال سکاؤٹس ونگ کمانڈر لفٹنٹ کرنل نوید الرحمان بھی موجود تھے۔

سب سے بڑا اجتماع ارندو خاص میں منقعد ہوا تھا جہاں دور درا ز سے آئے ہوئے لوگوں نے شرکت کی تاہم بعض عمائدین نے شکایت کی کہ افغانستا ن کی جانب سے ان کے راستے میں فائرنگ کی وجہ سے اکثر لوگ کھلی کچہری میں شرکت نہ کرسکے۔ 

کھلی کچہری میں عوام نے پبلک ہیلتھ انجنیرنگ، محکمہ تعلیم، محکمہ خوراک، محکمہ صحت، سی اینڈ ڈبلیو، چند غیر سرکاری اداروں کے حلاف شکایت کی انہوں نے کہا کہ لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود بھی یہاں کے لوگ پینے کی پانی سے محروم ہیں۔ جبکہ کچھ عرصہ پہلے آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے تحت ایک پن بجلی گھر تعمیر کی جارہی تھی، مگرمشینری پہنچنے کے باوجود اس منصوبے پر کام بند کیا گیا ہے اور لوگ بجلی کی نعمت سے محروم ہیں۔ جبکہ ہسپتال میں صرف ایک ڈکٹر اور ایک لیڈی ہیلتھ وزٹر تعینات ہے. 

انہوں نے شکایت کی کہ لنگور بٹ میں ایک سکول چار ماہ تک بند رہا اور اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے تھے جبکہ اکثر سکولوں میں اساتذہ آتے ہی نہیں ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے طلباء تعلیم میں نہایت پیچھے رہ گئے۔ 

اس علاقے میں لڑکیوں کیلئے ایک مڈل سکول کی عمارت کافی عرصہ پہلے تعمیر ہوچکی ہے مگر ابھی اس میں عملہ تعینات نہیں کیا گیا اور یہاں کی بچیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ چترال اور دیگر اضلاع میں جاکر تعلیم حاصل کرکے آتے ہیں مگر ان کو مناسب ملازمت نہیں ملتی جس کی وجہ سے اکثر لوگ پڑوسی ملک افغانستان جاکر روزگار تلاش کرتے ہیں مگر ان کو ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے تنگ کیے جاتے ہیں۔ 

عوام نے ڈپٹی کمشنر کو بتایا کہ ارندو جنگلات کا گڑھ ہے مگریہاں سے دیار کی قیمتی لکڑی غیر قانونی طور پر افغانستان اسمگل کی جاتی ہے۔ جبکہ بے دریغ کٹائی سے جنگلات ختم ہورہے ہیں۔

بعض پرائمری سکولوں میں پانچ سو تک بچے زیر تعلیم ہیں مگر ان کیلئے صرف چار کلاس روم ہیں جو ناکافی ہیں۔ عوام نے مطالبہ کیا کہ سڑک کی تعمیر میں ان کی زمین لی گئی جس کا ان کو معاوضہ نہیں ملا۔ ڈپٹی کمشنر نے تمام لائن ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈز کو ہدایت کی کہ یہاں کے لوگ تعلیم میں بہت پیچھے ہیں اور دیگر علاقوں کے لوگوں سے مقابلہ نہیں کرسکتے لہذا ان کو کسی بھی محکمے میں بھرتی کے دوران ترجیح دی جائے اور ان کو فوقیت کے بنیاد پر بھرتی کی جائے۔ 

کھلی کچہری میں تمام محکموں کے سربراہان اور نمائندوں نے شرکت کرکے عوام کی شکایات سنی۔ عوام نے ضلعی انتظامیہ کہ اس اقدام کو نہایت سراہا کہ اس دور دراز علاقے میں کھلی کچہری منعقد کرکے ان کی شکایات سنے۔ حقدار لوگوں میں امدادی سامان بھی تقسیم کیا گیا جو خیمہ، کمبل، چٹائی ، خوردنی اشیا پر مشتمل تھی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button