اقتصادی راہداری اور لاعلم لکھاری
پچھلے دنوں کسی لکھاری کا ایک کالم سوشل میڈیا کی وساطت سے پڑھنے کا موقع ملا موصوف کالم نگار اپنے نام کے ساتھ مولانا بھی استعمال کرتے ہیں جب انکا فیس بُک پروفائل وزٹ کیا تو معلوم ہوا کہ موصوف لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ جہادی تنظیم کے امیر بھی ہیں۔لیکن مجھے کوئی سروکار نہیں کون کیا ہے کیونکہ ہر انسان کو اظہارے رائے کا حق حاصل ہے مگر اتنا ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ ہم جو لکھ رہے ہیں وہ قیاس پر مبنی نہ ہو کسی قوم یا علاقے کی دل آذاری کا سبب نہ بنے۔مولاناامیر حمزہ نام کے ایک نام دنیا نیوز میں شائع اُس کالم کو جب پڑا تو محسوس ہوا کہ جس طرح ہمارے لیڈران جلسے جلوسوں اور تقاریر میں پاکستانیت کااظہار کرتے ہیں بلکل اسی طرح موصوف کے اندر پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے یہی تو وجہ ہے کہ اُنہیں پاک چین راہداری کے حوالے سے فکر لاحق ہے جس کی بنیاد پر انہوں نے اس اہم پروجیکٹ کو ناکام بنانے والے کا نام لیکرمحب وطن ہونے کا عملی ثبوت پیش کیا۔اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مولوی صاحب کی نشاندہی پر گلگت بلتستان کے اُس باشندے کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے کڑی سزا دیں تاکہ پاک چین راہداری کامیابی کے ساتھ منطقی انجام تک پونچ سکے۔
موصوف اپنے کالم میں گلگت بلتستان کے بارے میں بھی کافی فکرمند لگتا تھا اور ہونگے بھی کیوں نہیں کیونکہ کارگل جنگ میں این ایل آئی کے جوانوں نے ایسے جہادیوں کو موت کے منہ سے نکال کر اپنے بلوں تک پونچایا تھا اور دوسری بات کیونکہ اس راہداری کا مرکزی دروازہ ہی گلگت بلتستان ہے اور اس پروجیکٹ نے خطے کے 600کلومیٹر حدود کراس کرنے کے بعد پاکستانی کے آئینی حدود میں داخل ہونا ہے ایسے میں پریشانی ہر محب وطن کو لاحق ہوتی ہے اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ گلگت بلتستان بھلے ہی ڈوب جائے ٹوٹ پھوٹ جائے اس راہدداری کو سلامتی کے ساتھ پنجاب میں داخل ہونا ہی تو محب وطن ہونے کی علامتوں میں سے ایک خاص علامت ہے۔موصوف لکھتے ہیں کہ ملک دشمنوں نے اس وقت ملک کو دو کناروں کو پکڑ رکھا ایک بلوچستان اور دوسرا گلگت بلتستان یعنی پنجاب میں موجود کلعدم دہشت گرد جماعتیں جو مذہبی اور مسکی اختلاف کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کرتے ہیں وہ لوگ شائد محب وطن کہلاتے ہیں اسی لئے تو پنجاب میں بہت سے دہشت گرد عناصر کو حکومتی پشت پناہی حاصل ہے اور سندھ یا کے پی کے تو ہے ہی محب وطن لوگوںکی سرزمین یہاں تو پاکستان کے خلاف کو نعرہ ہی نہیں لگتا کوئی دہشت گرد گروہ وہاں سرگرم ہی نہیں۔
ایک بلوچستان اور گلگت بلتستان جہاں سے پورا پاکستان سیراب ہو تے ہیں مگر ان علاقوں کے باشندے آج بھی بنیادی انسانی حقوق کی بھیگ مانگ رہے ہیں اور غدار بھی کہلاتے ہیں،یہاں غلطی کس کی ہے موصوف لکھنے سے قاصر ہے لیکن انکو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر ریاست اپنی ذمہ داریاں پورا کرنے میں ناکام ہوجائے تو آپ جیسے لوگوں کو لیڈر اور دانشوربننے کا موقع ملتا ہے۔اچھا بات یہاں ختم نہیں ہوتی موصوف مزیدلکھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے کچھ لوگ باہر کی دنیا میں گلگت بلتستان کو متازعہ بنا کر پیش کرتے ہیں ارے محترم مولوی صاحب وفاق پاکستان کا بھی یہی کہنا ہے کہ گلگت بلتستان آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں یوں اگر اس بات کو ہمارے علاقے کا کوئی شخص کسی عالمی پلیٹ فارم پر کہیں تو غداری کاسندجاری کرنے کا حق آپ کو کس نے دیا؟۔عجیب بات ہے کہ باہر کی دنیا میں جاکر اگر گلگت بلتستان کی حقوق کیلئے اگر کوئی آواز بلند کریں تو یہ غداری اور ہمارے حکمران سرکاری خرچے پر دشمن ملک میں جاکر ذاتی کاروباری معاملات طے کریں تو پروٹوکول آخر ماجرا کیا ہے؟۔گلگت بلتستان کے عوام اور یہاں کے قومی رہنما کسی بھی طرح اس راہداری کے خلاف نہیں بلکہ نواز حکومت کی پالیسوں کے خلاف ضرور ہیں کیونکہ اس اہم منصوبے کا سب سے اہم اسٹیک ہولڈر گلگت بلتستان کو ہونا چاہئے تھا لیکن اب تک سرکاری سطح پر گلگت بلتستان کی شراکت داری کے حوالے سے کوئی خبر نہیں ،کیا یہ ناانصافی نہیں؟
اقتصادی راہداری کے حوالے سے کوئی مٹینگ ہوتی ہے یا کہیں سرکاری سطح پر وزیراعظم کو بریفنگ دی جاتی ہے تو گلگت بلتستان کے کسی لیڈر کو خبر بھی نہیں ہوتا لہذا ایک متازعہ خطے کا باشندہ ہونے کے ناطے ہم سب کا حق ہے کہ اپنے حقوق کیلئے ہر پلیٹ فارم پراپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں ۔کاش سلیم صافی کے علاوہ کسی اور پاکستانی کالم نگار ،میڈیا پرسن کو یہ توفیق ہوتا کہ گلگت بلتستان کے عوام سے پوچھیں کہ یہاں کے عوام اس حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں لیکن افسوس آج الیکشن کے نام پر ہمارے عوام کو نعروں میں الجھایا ہوا ہے اور ہمارے خطے کو ہماری مرضی کے خلاف پڑوسیوں کے کھیت سیراب کرنے کیلئے استعمال کرنے کی تیاریاں آخری مرحلے میں ہیں ۔ لہذا ایسے لوگوں کو چاہئے کہ پہلے گلگت بلتستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں پاکستان کے لئے دی جانی والی ہماری قربانیوں پر روشنی ڈالیں تاکہ اُنہیں معلوم ہوجائے کہ اصل محب وطن گلگت بلتستان کے عوام ہیں یا آئینی طور پر ایک آذاد خود مختار ملک کا باشندہ ہوکر اپنے وطن کے خلاف سازش کرنے والے سیاست دان ،جہادی تنظیمیں یا میڈیا کے لوگ۔ اچھا ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ جس انداز میں اُنہوں نے گلگت بلتستان کے مسالک کا ذکر کیا اُس سے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف گلگت بلتستان کے بارے میں کتنا باخبر ہے، لہذا ہمارے یوتھ کو چاہئے کہ ایسے من گھرٹ کالم لکھنے والوں کو بھر پور جواب دیں تاکہ مستقبل میں کوئی ایرے غیرے لوگ ہمارے خطے کے بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے احتیاط بھرتیں۔آخر میں یہی کہوں گا کہ کاش پاکستان کے عوام اپنے وطن سے صرف گلگت بلتستان کے عوام کی طرح محبت کرتے جو کچھ نہ ملنے کے باوجود پچھلے آٹھاسٹھ سالوں سے پاکستانیت کا نعرہ لگارہے ہیں ۔مگر افسوس پاکستانیوں کی ایک مزاج ہے کہ یہ قوم اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے دوسروں کی آنگن پر ضرور نظر رکھتے ہیں یہی تو وجہ ہے یہاں پر غداری اور کفرکے فتوی ہر وقت ہول سیل میں دستیاب ہو تے ہیں۔ اللہ ہم سب کو آئین اور قانون کے مطابق مادر وطن کی حقو ق کیلئے آواز بلند کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔