دیامر کے پانچ سالہ احمد کی کہانی آجکل زبان زد عام ہے اور اکیسویں صدی کے اس جدید دو ر میں جنا ت سے منسوب اس کہانی نے میڈیا اور باشعور لوگوں کو حیر ت زدہ کر دیا ہے ۔
کہا نی کچھ یوں ہے کہ احمدعید سے چند روز قبل چشمے سے پانی لانے کی غرض سے گیا تھا اور اسی دوران وہ لاپتہ ہوگیا ۔ ان کے ماں باپ نے مقامی عاملوں سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ انہیں جنات اٹھا کر لے گئے ہیں عاملوں کی کوششوں کے با وجود بچہ جنات کے چنگل سے زندہ سلامت بازیاب نہ ہو سکے اور ٹھیک گیارہ دنوں کے بعد ان کی لاش جنگل سے ملی ۔ ان کی لاش تشدد زدہ تھی اور جسم کے کئی اعضاء کٹے ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو نہایت ہی بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوئی۔ عاملوں کا کہنا تھا کہ جنات چونکہ غیر مسلم تھے اس لئے وہ عملیات سے قابو نہیں ہو سکے اور انہوں نے بضد ہو کر بچے کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ مقامی عاملوں کی حد تک بات رہتی تو ٹھیک تھی مگر صوبائی وزیر خوراک جانباز خا ن اور جمعیت علماء اسلام گلگت بلتستان کے صوبائی امیر مولانا سرور شاہ نے بھی انتہائی وثوق کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ واقعہ جنات کی ہی کار ستانی ہے اس لئے پولیس اس واقع کے حوالے سے بے بس ہے۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے واقع کا نوٹس لیا ہے جبکہ ڈی آئی جی اور ایس ایس پی دیامر نے بھی واقع کی تحقیقات کی غرض سے بچے کی قبر کشائی کے بعد نمونے لےئے ہیں تاکہ فرانزک رپورٹ کی روشنی میں واقع کی تحقیقات کی جا سکیں۔
مقامی اور قومی میڈیا واقع پر تبصرہ کر رہا ہے اور زیادہ تر لوگوں کا مطالبہ ہے کہ اس واقعہ کی تحقیقات کرائی جائے۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ بچے کے والد ین نے نہ تو ایف آئی آر کے لئے درخواست دی ہے اور نہ ہی یہ ماننے کے لئے تیار ہیں کہ ان کا بچہ جنات کے علاوہ کسی نے قتل کیا ہے۔ والدین پولیس کی کارروائی کو غیر ضروری سمجھتے ہیں جس کا اظہار ان کے اس عمل سے ہوتا ہے کہ انہوں نے بچہ کے لاپتہ ہونے کی اطلاع پولیس کو دینے کی بجائے عاملوں سے رجوع کیا۔
آج کے دور میں جنات کے حوالے سے کہانیاں صرف کتابوں میں ملتی ہیں حقیقت میں جنات سے واسطہ کسی کا نہیں پڑتا ہے ۔ماورائے عقل چیزیں دور جدید میں مفقود ہو گئی ہیں کیونکہ سائنسی نقطہ نظر سے تحقیق سے ہر شے کی ماہیت واضع ہو جاتی ہے اور تحقیق کے بغیر کسی بات پر یقین کرنے کی معمانعت نہ صرف سائنس کر تی ہے بلکہ اسلام میں بھی بارہا اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کسی معاملے میں رائے قائم کرنے سے پہلے اس پر پوری تحقیق کرو۔ تحقیق کے لئے ادارے موجود ہیں جن کے پاس اس کام کے لئے ماہرین اور ساز وسامان موجود ہیں۔ مگر آج بھی سادہ لوح اور ان پڑھ لوگوں کی جہالت سے فائدہ اٹھا کر ایسے واقعات میں جرائم پیشہ افراد جرم کو جنات سے منسوب کرتے ہیں تاکہ اس میں تحقیق کی گنجائش کم رہے اور کہانی کو ماورائے عقل قرار دیکر اس کو دفنایا جائے۔
یہ واقعہ گلگت میں پیش آنے والے ان تین واقعات سے ملتا جلتا ہے جن میں گذشتہ برس معصوم حسنین کا جنسی زیادتی کے بعد قتل اور اس سے قبل امپھری اور کشروٹ کے مقام پر معصوم بچوں کو جنسی زیادتی کے بعدبے دردی سے قتل کیا گیا اور ان کی لاشیں پھینک دی گئیں۔ ایسا ہی ایک واقع گزشتہ دنوں یسین میں بھی پیش آیا تھا جس میں چھ سالہ بچے کوجنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ دیامر کی جن زمہ دار شخصیات نے اس واقع کو جنات کی کارستانی قرار دیا ہے ان کا فرض تھا کہ وہ اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے کیونکہ تحقیق کے بغیر اس بات کو تسلیم کرنا ہرذی شعور کے لئے ناممکن ہے کہ یہ واقع جنات کا فعل ہے۔
اس وقت حکومت، میڈیا اور سول سائٹی یک آواز ہے اور واقعے کیتحقیقات کا مطالبہ ہورہا ہے ایسے میں دیامر کے زمہ دار افراد کا فرض ہے کہ وہ بھی اس واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کریں۔ کیونکہ اگر آج ایسے واقعات کو جنات سے منسوب کر کے چھوڈ دیا گیا تو کل کلاں ہر مجرم اپنے جرم کو چھپانے کے لئے ایسے جرم کرنے کے بعد ان کو جنات سے منسوب کرے گاجس سے جرائم پیشہ افراد کو شہ ملے گی۔ بقول بچے کے والدین اور مقامی افراد اگر یہ واقع جنات کی کار ستانی ہے تو وہ بھی تحقیق کے بعد ہی ثابت ہو گا وگرنہ اس وقت یہ بات کہنا دراصل جرم کو چھپانے کے مترادف ہے۔ جنات کو بے نقاب کرنا بھی لازمی ہے ورنہ کل کو یہ جنات مزید معصوم بچوں کی جان لے سکتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ اور پولیس افسران کی طرف سے تحقیقات کے احکامات کی روشنی میں قبر کشائی اور تحقیق کا آغاز خوش آئند ہے اس کو سراہا جانا چاہیے اور ساتھ میں یہ توقع بھی رکھنا چاہیے کہ اس واقع کے اصل محرکات کو جلد از جلد بے نقاب کیا جائے گا۔ تفتیش کا آغاز اس شخص سے کیا جائے جس نے معصوم بچے کی گمشدگی کے بعد ان کے والدین کو تھانے میں اظلاع دینے کی بجائے عاملوں کے پاس جانے کا مشورہ دیا ۔