کالمز

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کا اسپیشل(معذور) صوبہ۔۔!

مسئلہ کشمیر سے جڑی گلگت بلتستان کی آئینی و قانونی حیثیت گلگت بلتستان کے عوام ، نام نہاد صوبائی حکومت سمیت پاکستان کی وفاقی حکومت کے لیے دردِ سر بن چکا ہے، پاکستان کے حکمران اور گلگت بلتستان کے مقامی حکمران طبقے کی طرف سے اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرنے کے باوجود بھی کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی وقت یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ گلگت بلتستان کی آئینی و قانونی حیثیت کیا ہے؟؟ او ر ہر طبقہ فکر کے لیے اس مسئلے کا قابل قبول حل کیا ہے؟؟ ایساہی ایک لاحاصل مگر اہم بحث حالیہ دنوں وقت نیوز کے پروگرام اپنا اپنا گریبان کے میزبان مطیع اللہ جان اور پاکستان مسلم لیگ ن گلگت بلتستان کے صدر و وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن کے درمیان اس وقت شروع ہوگئی جب مطیع اللہ جان نے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے سوال کیا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کا گلگت بلتستان کی آئینی و قانونی حیثیت کے حوالے سے لائحہ عمل کیا ہے؟

یوں تو وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حفیظ الرحمٰن قابل سیاستدان ہے لیکن اس سوال نے وزیراعلیٰ صاحب کو تذ بذب کا شکار کردیا۔ وزیر اعلیٰ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں مسئلہ کشمیر کی نزاکتوں کا احساس ہے ، گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے، اس لئے ہم چاہتے ہے کہ پاکستان گلگت بلتستان کو اسپیشل صوبہ بنائے تاکہ مسئلہ کشمیر کو نقصان نہ پہنچے ۔ بالکل اسی طرح لاہور میں ایک نجی محفل سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حفیظ الرحمٰن نے مسئلہ کشمیر میں شراکت دار ہونے پر فخر محسوس کیا۔

قارئین کرام!

گلگت بلتستان کے عوام گزشتہ 68سالوں سے اہم جغرافیائی اہمیت اور قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود بھی آج بغیر آئین کے دنیا کی آخری کالونی کا منظر پیش کر رہا ہے ، ستم ظریفی دیکھئے کہ یکم نومبر 1947کو اپنی مدد آپ کے تحت ڈوگروں اور سکھوں سے آزادی حاصل کرنے بعد ایک خودمختار ریاست کی بنیاد رکھنے کے باوجود اپنی آزادی کی حفاظت نہیں کر سکے اور اسلامی جذبے کے تحت پاکستان سے مدد طلب کرنے کی جرم میں یہ آزاد ریاست پاکستانی مسلمان حکمرانوں کی مہربانی سے آج کرہ ارض پر متنازعہ خطہ کہلاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ اس وقت تک متنازعہ رہے گا جب تک کشمیرکا مسئلہ حل نہیں ہوجاتا، مسئلہ کشمیر کی آڑ میں نام نہاد کشمیری قوم پرستوں نے پاکستان کے حکمرانوں سے مل کر گلگت بلتستان کے عوام کو استحصال کا شکار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑا۔ 28اپریل 1949ء کو نام نہاد کشمیری لیڈرز سر دار عالم، سر دار ابراہیم نے پاکستان کے وزیر بے محکمہ مشتاق گورمانی کے ساتھ کراچی کے بند کمرے میں معاہدہ کرکے گلگت بلتستان کی غلامی و محکومی کو طول دی ، اور اس کے علاوہ جب بھی گلگت بلتستان کے عوام نے اپنی آئینی و قانونی حیثیت کی تعین کے لئے آواز اٹھائی ان کشمیری نمائندوں نے ان کی راہ میں روڑے اٹکائے۔

مسلط حکمرانوں کی طرف سے ڈھائے گئے ظلم و ستم او ر گزشتہ ایک دھائی سے گلگت بلتستان کی آئینی و قانونی حیثیت بارے عوام کو بے وقوف بنانے کے عمل نے گلگت بلتستان کے عوام کو بے چینی میں مبتلا کر ہی دیا ہے لیکن عوام کی آئینی و قانونی استحصال ا و ر محرومی میں گلگت بلتستان کے مقامی وفاق پرست رہنماؤں نے بھی اپنے آقاؤں کے ہاتھ مضبوط کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑا، جس کی واضح مثال حفیظ الرحمٰن کی وقت نیوز کو انٹرویو اور لاہور میں وہ تقریر ہے جس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کے شراکت دار ہونے پر فخر محسوس کرنا ہے، راقم کو ایسا محسوس ہورہا تھا جیسا کہ کشمیر کا وزیر اعلیٰ انٹرویو دے رہا ہے ، اسی اثنا میرے زہن میں ایک دم تین باتیں نمایاں ہوگئی ۔ پہلی بات یہ کہ حفیظ الرحمٰن صاحب کا تعلق جس پارٹی ہے اور جس پارٹی کے رحم و کرم پر وہ وزیر اعلیٰ کے اہم عہدے پر فائز ہے ، اس پارٹی کے قائد کے آباؤ اجداد کشمیر سے migrated ہے اس لیے وہ ان کی خوشامدی میں مسئلہ کشمیر کے شراکت داری پر فخر محسوس کررہے ہوں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حفیظ الرحمٰن صاحب کے اپنے آباؤ اجداد بھی کشمیرسے migrated ہیں اس بنیاد پر بھی کشمیر کی مٹی سے محبت ان کے خون میں شامل ہوگی اور اسی لیے وہ مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچانے کے بجائے گلگت بلتستان کے سادہ لوح عوام جنہوں نے ان کو منتخب کیا ہے ان کو نقصان پہنچانے کو ترجیح دے رہے ہوں گے ۔ اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر پر گلگت بلتستان کے 20لاکھ سادہ لوح عوام کو قربان کرنے کی تیسری بنیادی وجہ مذہبی جنونیت بھی ہوسکتی ہے کیونکہ یہ بات روز اول سے عیاں ہے کہ پاکستان کے زیر سایہ جانے کے بعد گلگت بلتستان کے عوام فرقہ واریت میں اس حد تک مبتلا ہوچکے ہیں کہ متعدد بار اس کھیل میں سینکڑوں جانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ، کئی عورتیں بیوہ ہوگئی، کئی بچے یتیم ہوئے اور یہ وباء اب بھی پھیلی ہوئی ہے،ا ور بدقسمتی سے ہم مسئلہ کشمیر سمیت پر مسئلے کو فرقے کے عینک پہن کر دیکھتے ہیں، اس لیے گلگت بلتستان کے سنی طبقہ فکر کے لوگ اور مذہبی جماعتیں خود کو کشمیر کے ساتھ نتھی کرتے ہوئے کشمیر میں شامل ہونے میں اپنی بقا سمجھتے ہیں جبکہ شیعہ طبقہ فکر کے لوگ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں ، اسی مذہبی جنونیت نے گلگت بلتستان کی عظیم قوم کواس حد تک ٹکڑوں میں منقسم کردیا ہے کہ یہاں کے عوام اپنی مستقبل کو بھی فرقے کے چشمے پہن کر دیکھتے ہیں ، حکمرانوں کا یہ رویہ گلگت بلتستان کے عوام کو بے چینی اور بے یقینی میں مبتلا کرتے ہوئے ان کی محرومیوں میں اضافہ کرتاہے، وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمٰن صاحب کو چاہئے تھا کہ وہ اس موقع پر کسی مسلک یا کسی وفاق پرست پارٹی کا نمائندہ ہونے کے بجائے گلگت بلتستان کے ان عوام الناس کا نمائندہ بن کر بات کریں جنہوں نے اس کو ووٹ دے کر اپنا نمائندہ منتخب کیا اور وزیر اعلیٰ کے اس اہن عہدے پر انہی عوام کی وجہ سے براجمان ہے۔ حفیظ صاحب پاکستان کی ایک وفاقی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، اس کو چاہئے تھا کہ وہ کشمیر کی فکر کرنے کے بجائے گلگت بلتستان کے عوام کی فکر کریں جو 68سالوں سے سیاسی ، آئینی ، قانونی اور بنیادی مسائل سے دوچار ہیں، پاکستان کی وفاقی جماعت سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی گلگت بلتستان کو پاکستان کی آئین میں شامل کرتے ہوئے مکمل آئینی صونہ بنانے کا مطالبہ اور اس پر عملدرامد کرانے کے بجائے اسپیشل صوبہ نئے بوتل میں پرانی شراب کے مصداق ہی ہوگا، اس قسم کے کھوکھلے نعروں سے عوام کو مزید بے و قوم بنانے کا دور گزر چکا ہے ، 2009میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے صوبے کا ڈرامہ رچایا تھا جس سے پردہ بہت جلد چاک ہوگیا بالکل اسی طرح گلگت بلتستان کو مکمل طور پاکستان میں شامل کئے بغیر کوئی بھی اسپیشل صوبہ اسپیشل یعنی معذور صوبہ ہی بنایا جاسکتا ہے تاکہ عوام کو بے وقوف بنایا جاسکے۔

ا س کے علاوہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے یہ بھی کہا کہ گلگت بلتستان کی آئینی و قانونی حیثیت کے حوالے سے دو قسم کے رائے پائے جاتے ہیں ایک وہ لوگ ہیں جو کشمیر میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ جو پاکستان میں شمولیت کے خواہاں ہیں ، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی یہ بات حقیقت کے بالکل برعکس ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں دو رائے نہیں بلکہ تین رائے پائے جاتے ہیں، ایک وہ لوگ جو پاکستان میں شامل ہوناچاہتے ہیں، دوسرا طبقہ وہ جو خود کو کشمیری سمجھتے ہیں اور یہاں پر تیسری اہم رائے رکھنے والے طبقے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کی رائے پہلے دو رائے رکھنے والوں سے بالکل مختلف ہے، تیسر ا طبقہ فکر نہ کشمیر کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کا پانچواں صوبے کی حمایت کرتے ہیں بلکہ ان کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان ہر طرح سے ایک آزاد خودمختار ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھر سکتا ہے، اور وہ تما م لوازمات پر پوری طرح اترتا ہے جو ایک آزاد ریاست کے لئے ضروری ہے، یہ لوگ مختلف آزادی پسند اور ترقی پسند تحریکوں کے ذریعے جدوجہد میں کوشاں ہیں اور گلگت بلتستان کے باشعور طلباء و

طالبات اور یوتھ ان کے نطریات سے متفق ہوکر ان کی تحریکوں کو مضبوطی سے ہمکنار کررہے اور ان کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے ، خطے کی آئینی حیثیت کے حوالے سے ان کی قربانیوں کو جھٹلا نہیں جاسکتا ۔ اس لیے گلگت بلتستان کے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ گلگت بلتستان کے حوالے سے ان کے نظریات جو حقیقت پر مبنی ہی ، کو بھی اہمیت دیں کیونکہ ان کو بھی اس خطے پر اتنا حق حاصل ہے جتنا باقی دونوں طبقہ فکر کے لوگوں کو حاصل ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button