کالمز

زلزلہ متاثرین کی فریاد

شاعر نے کہا تھا

دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں راستے بنالیے

مالاکنڈ ،ہزارہ ،فاٹا اور دیگر علاقوں کے متاثرین زلزلہ کے چوتھے روز بھی امداد کے منتظر ہیں مقامی رضا کار ،غیر سرکاری تنظیمیں متاثرین کی مدد کررہی ہیں سرکاری مشینری کو حرکت میں آنے کے لئے وقت درکار ہے وزیراعظم ،وزیراعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام کے دورے کے بعد سرکاری مشینری حرکت میںآئے گی 26 اکتوبر کو 8.1 کی شدت کا زلزلہ آیا تو اس زلزلہ سے اُن اضلاع میں زیادہ نقصانات ہوئے جنکی بلندی 6000 فٹ سے اوپر ہے شانگلہ ،سوات ، دیر ،باجوڑ ،چترال اور مانسہر ہ کے بالائی علاقے اس میں شامل ہیں ان علاقوں میں درجہ حرات دن کو 4 سے 10 سنٹی گریڈ تک ہوتا ہے اور رات کو منفی 2 ڈگری تک نیچے گر جاتاہے مکانات تباہ ہونے کے بعد زندہ بچ جانے والے لوگ کھلے آسمان کے نیچے پڑ ے ہوئے ہیںآٹا، چینی ،دال ،دودھ اور پانی وافر مقدار میں گھروں کے اندر بھی دستیاب ہے سرکاری گوداموں میں بھی دستیاب ہے حکومت اور این جی اوز کی طرف سے 5 کلوآٹا، 5 کلوچینی ،2 کلودال اور منرل واٹر کی12 بوتلیں شانگلہ ،دیر اور چترال کے متاثرین کو فراہم کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا اس پیکچ کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو زلزلہ زدہ علاقوں کے جعرافیہ کا پتہ نہیں سماجی او رمعاشرتی حالات کا پتہ نہیں مسائل کا پتہ نہیں حکومت تُکا لگا رہی ہے این جے اوز کی تکا لگا رہی ہیں۔

حکومت اگر کچھ کر نا چاہتی ہے تو کرنے کے کام فوری طو ر پر یہ ہیں نمبر ایک: سرکاری گوداموں سے متاثرین کو 100 کلوگرام گندم مفت فراہم کیا جائے مکانات کی تعمیر نو کے لئے کلی نقصان کے 10 لاکھ روپے اور جزوی نقصان کے 5 لاکھ روپے فوری طور پر فراہم کئے جائیں متاثرین کو کمبل ،رضائی اور لکڑی وغیر ہ کے لئے فوری طو ر پر 2 لاکھ روپے فی گھرانہ تقسیم کئے جائیں انفراسٹرکچر کی فوری بحالی کے لئے زلزلہ کے متاثرین کے لیے مختص فنڈغیر متعلقہ ادارہ این ڈی ایم اے کو دینے کی جگہ براہ راست ضلعی حکومت کے متعلقہ محکموں کو دے دئیے جائیں تاکہ ایک ماہ کے اندر انفراسٹرکچر کی بحالی کا کام مکمل ہوسکے دومثالیں یہاں نقل کر نا زیادہ مناسب ہوگا جولائی 2015 ؁ء میں سیلاب نے تباہی مچائی حکومت نے وسائل این ڈی ایم اے کو دے دئیے 3 ماہ گذر گئے سیلاب کے متاثرین کی بحالی کا کام ابھی شروع نہیں ہوا وہ لوگ اب تک کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہیں ان کو 5 کلو آٹا ،5 کلوچینی ، 2 کلو دال ، دو پاؤ چائے اور 6 بوتل منرل واٹر دے کر ٹر خا دیا گیا تھا اب تک وہ لوگ سرکاری امداد کے انتظار میں ہیں یہ این ڈی ایم اے نے اندر سرخ فیتے کی ستمگری کا نمونہ ہے این ڈی ایم اے کے دفتر سے متاثرین کی امداد کے لئے ایک روپیہ لانا جوتے شیر لانے کے برابر ہے اس پر فارسی ضرب المثل صادق آتی ہے کوہ کندن وکاہ برآمدن اس کا سلیس اردو ترجمعہ ہے پہاڑکھودنا اور تنکا برآمد ہونا اس کے مقابلے میں 1992 ؁ء کی اعلیٰ مثال موجود ہے اس سال بارشوں سے فصلوں کو نقصان پہنچا اور چراگاہوں میں ما ل مویشی ہلاک ہوئے خیبر پختونخوا میں میر ا فضل خان وزیر اعلیٰ تھے وفاق میں میاں محمد نواز شریف وزیراعظم تھے دونوں کو دورہ کرنے ،ہیلی کاپٹر اڑانے اور متاثرین سے خطاب کر نے کی ضرورت پیش نہیں آئی 2 کنال پر گندم کے لئے 10 ہزار روپے ،بکری کے لئے 6 ہزار روپے ، بکرے اوردبنے کے لئے 8 ہزار روپے ،گائے کے لئے 20 ہزار روپے اور بیل کے لئے 30 ہزار روپے کا معاوضہ اسسٹنٹ کمشنروں کے ذریعے ان کے گھروں پر تقسیم کروایا گیا لوگوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ حکومت کی طرف سے امداد اتنی جلد ی اور اتنی مقدار میں مل جاسکتی ہے حکومت مصیبت زدہ لوگوں کی ایسی مدد بھی کرسکتی ہے 2010 کے سیلاب میں بینکوں کے اے ٹی ایم کارڈ کی مدد سے 3 سال بعد متاثرہ لوگوں کو امداد مل گئی کارڈ ہاتھ میں لیکر 3 سالوں تک متاثرین کو بازاروں میں خوار وزار پھر نا پڑا یہ بہت ناکام تجربہ تھا متاثرین اس تجربے میں بہت ذلیل وخوار ہوئے وہ 100 کلومیٹر یا 200 کلومیٹر دور سے بازار آجاتے تو اے ٹی ایم کی مشین کہتی تھی کہ اکاونٹ میں پیشہ نہیں ہے 3 ماہ بعد آتے تو مشین یہی جواب دیتی ، 6 ما ہ بعد آتے تو مشین کا ایسا ہی جواب ہوتا تھا زلزلہ کو چار رو ز ہوگئے ٹی وی چینیلوں پر اور اخبارات میں سیاستدانوں اور حکمرانوں کی طرف سے وعظ سنائے جارہے ہیں کہ مکان جدید طریقے سے بناؤ یورپ اور جاچان کے طرز پرمکانات کی تعمیر کرو، قوانین میںیوں ترامیم ہونگی اور حکومت متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑے گی یہ سب مستقبل کی باتیں ہیں مصیبت زدہ لوگ وعظ ونصیحت سننے اور مستقبل کے لئے قانون سازی سے زیادہ اس انتظار میں ہے کہ ان کے دوکمروں کا مکان کسی طرح دوبارہ تعمیر ہوجائے ان کے بچوں کوکسی طرح چھت میسر آئے ان 4 دنوں میں کسی نے اس حقیقت کی طرف اشارہ نہیں کیا کہ خیبرپختونخوا میں لوکل گورنمنٹ سسٹم موجود ہے ناظمین کاانتخاب ہوچکا ہے ویلج کونسل اور نیبر ہُد کونسل کی سطح پر منتخب لوگ موجو د ہیں اُن کو اختیارات اور فنڈ دے دئیے جائیں تومقامی انتظامیہ کی مدد سے یہ منتخب لو گ متاثرین کی بہترین خدمت کرسکتے ہیں لیکن حکومت جان بوجھ کر اس کا ذکر نہیں کرتی وفاقی حکومت این ڈی ایم اے کا نام لیتی ہے جو کہیں بھی موجود نہیں جس کا تجربہ کشمیر ،بالاکوٹ میں ناکام ہوچکا ہے این ڈی ایم اے کی مثال فراز کی خیال کی بارش جیسی ہے.

ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز

کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button