کالمز

اجتماعی رویے میں تبدیلی کی ضرورت

 شکیل احمد

قلم اٹھاتے ہی علاقے کی مسائل اور ان کے آہ و بکا ذہن میں لمبی قطاریں باندھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور ان مسائل کا خاتمہ کہیں ممکن ہے۔مگران مشکلات کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے حقائق اور سوالات بھی ہیں۔جن سے آنکھیں چرانا توآسان ہوتاہے مگر ضمیرکو مطمعن کرنا کٹھن محسوس ہوتا ہے۔ البتہ یہ بات قابل تسلیم ہے کہ عوام کی بنیادی ضروریات اور جان و مال کے تحفظ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ اورساتھ ساتھ بحیثیت عام شہری ہم صاحب اقتدر سے انصاف اور حقوق کے حصول کے لئے آواز بلند کرنا عوام کا بنیادی حق ہے۔ مگر حکومت اور صاحب اقتدار پر انگلی اٹھانے سے پہلے کچھ مدت کے لئے اپنے معاشرے میں رونما ہونے والے خامیوں پر نظر د وڑایں تومعلوم ہوتا ہے کہ ہم ان مسائل کو پس پشت ڈا ل رہا ہے۔جو کہ ہمارے اندر موجود لا شعوری اور احساس ذمہ داری کی کمی کو واضح کرتی ہے۔مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ ہم اپنے معاشرتی بگاڑ کا قصور وار کسی اور کو نہیں ٹھہراسکتے۔اور ہمیں آنے والی برُ ائیوں اور امتحانات کی ذمہ داری زمانے کو ٹھہرنے کی بجائے ہمیں خود ان سے نمٹنے اور شعو ر بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ کوئی بھی معاشرہ اپنی ترقی خواہ وہ معاشی ہو یا معاشرتی اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک اس معاشرے کے لوگوں کے ذہن حالات کے ساتھ ساتھ نہیں بدلتا۔ہمارا علاقہ پسماندہ ہونے کے باوجود آغیار کی کلچر کو اپنانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتا ۔در اصل ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم ان ترقی یافتہ ممالک کے برُائیوں کو اپنا نے کے بجائے ان کی ترقی کا راز معلوم کر لیتے۔ اور ان کی علمی، اور معاشرتی میدان میں خوشحالی کے ہنرکو ہم عیاں کر دیتے۔ تاکہ ہم اپنے معاشرے کو حقیقی معنوں میں ماڈرن بنا سکے۔مگر ہم ایسا کرنے کے بجائے ایک طرف اپنے پسماندگی کا رونہ روتے ہیں تو دوسری طرف مغربی کلچر کولعن طعن کرتے ہوئے بھی انہی کا طرز لباس،رہن سہن اپنانے میں مگن رہتاہے ۔اور یوں اپنے آپ کو تباہی کے دہانے دھکیل رہے ہوتے ہیں۔ ہم جن معاشروں کا ذ کرکر رہے ہیں ان میں موجود صفات کو ہم مطالعہ تک نہیں کرتے ۔ ہم صرف ان کی بری عادتوں کو اپنا شیوا بنا رہے ہیں۔ صرف طرز لباس بدلنے سے ماڈرن نہیں بنتا ہمیں دوسری صفات پر بھی عمل پیرا ہونا ہوگا۔جن معاشروں کی نقش قدم پے چلنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں وہ ہر میدان میں بازی لے گئے ہیں ۔ ان معاشروں میں بہتر نظام تعلیم ، عدل وانصاف اور بنیادی انسانی ضروریات میسر ہیں ۔وہ کاروبارمیں جھوٹ نہیں بولتے ،دھوکہ نہیں دیتے اور معاشرتی اقداراور قانون کی پاسداری کو وہ اپنا فرض سمجھا جاتا ہے ۔ان معاشروں میں قانون کی بالا دستی ہوتی ہے کوئی بے گناہ کو سزا نہیں ہوتا اور کوئی مجرم قانون کے شکنجے سے بچ نہیں پاتا۔ جدید تعلیمی میدان میں آگے بڑھ کر نت نئی ٹیکنالوجی ایجاد کرنے کو وہ اپنا مقصد سمجھتے ہیں مگر آفسوس بحیثیت مسلمان ہم اپنے تعلیمات پر عمل پیرا نہیں مگر آغیار ان تعلیمات سے ضرور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ہم اپنی تعلیمات کو اپنے روز مرہ زندگی اور معاشرے پر اطلاق کرنے سے قاصر ہیں اور غیروں کی ہر برُ ی عادتوں کو ہم فخر سے اپناتے ہیں۔ ہر بے حیائی اورغیر اخلاقی امرکو جدید یت سے تشبیح دیتے ہیں۔اگر لباس کی بات کریں تو بازاروں اور مارکیٹوں سے ملکی اور علاقائی لباس ناپیدہو چکی ہیں ۔ نئی نسل کی خواہش اور مارکیٹ کی طلب کو ملحوض خاطر رکھتے ہوئے چھوٹے بڑے تاجر تنگ،چست اور نازک کپڑوں سے بازار سجا ئے رکھتے ہیں۔اور مغربی طرز کے لباس کو فیشن بنا کر تقویت دینے میں سردھڑ کی بازی لگاتے ہیں۔ مگر اس بات سے ضرور آگاہ رہنا چاہیے کہ اپنے کلچر کی دھجیاں اُڑاکر ہم کچھ کٹے لباس پہنے اور اخلاقی اقدار کو پامال کرنے سے ہم ان معاشروں کے صف میں شامل نہیں ہوسکتے۔اگر بدلنا ہے تو پہلے اپنے طرز فکراور نظام کو بدلنا ہوگا۔ہمیں بہتر تعلیمی نظام ، عدل وانصاف اور قانون کی پاسداری کے اصولوں کو اپنانا ہوگا۔تب کہیں ہم ماڈرن معاشرے کا خواب دیکھ سکیں گے۔ اپنے آپ کو ماڈرن زندگی گزارنے کی خوش فہمی میں مبتلا رکھنے کے بجائے ان کی اچھی خوبیوں کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے۔نہیں تو ایسی خوش فہمیاں اندر سے کھوکھلا کرنے کے سوا کچھ نہیں دیتا۔ اس بات کی فکر کبھی نہیں کی کہ معاشرے کو جدیدیت کی طرف لے جانے اور دور حاضر کے امتحانوں سے نمٹنے کے لئے مثبت سوچ اور بہتر تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔مگر قسمت کی ستم ضریفی ہے کہ ہمارے معاشرے کو تعلیم اور تربیت ساتھ ساتھ نصیب نہیں ہو ا۔ کہیں تعلیم کا فقدان رہا تو کہیں تربیت نصیب نہیں ہوئی۔ جس دور میں جدید ٹیکنالوجی اور کمیونیکشن کی سہولیات گھر گھر پہنچا مگر ان ٹیکنالوجیزکا نہ کل تک کسی نے سنا تھا اور نہ ان کے فائدہ اور نقصان کے بارے میں کسی کو علم تھا ۔ معاشرہ نشو ونما کے مراحل طے کر رہا تھا ۔ تعلیمی اور فکری لحاظ سے بالغ نہ ہو نے کی وجہ سے ہمارے معاشرتی اقدار اور رہن سہن کے درمیان خلیج پیدا ہو گیا۔خصوصا عر ض گلگت بلتستان ہمیشہ سے تعلیمی میدان میں جہاں حکومتی نظروں سے اوجھل رہی ہے اور ترقی کی رفتار سست روی کا شکار رہی ہے وہیں لوگوں کے طرز زندگی اورعقل و شعور میں بھی دھیرے دھیرے پختگی آ رہی تھی ۔مگر ان قلیل مدت میںآنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے پرانے معاشرے کا نقشہ یکدم بدل کررکھ دیا اس تناؤ کی وجہ سے معاشرہ اپنی پختگی تک پہنچنے کے بجائے بھوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا۔جس سے بہت سارے معاشرتی بیماریاں اور جرائم جنم لینا شروع ہو گئے ۔مگر ان جرائم کا سد باب کر نا اس دور میں ناگزیرامر بن چکا ہے۔لوگوں کے دلوں میں نفرتوں کی آگ بڑھکنے لگا ،ہر کوئی نفع اور نقصان تلاش کرنے اور دوسروں کی معصومیت اور سادگی سے ناجائز فائدہ ا ٹھا نے میں مگن نظر آتا ہے۔ہمارا کاروباری نظام اُس جیسا نہیں رہا جو آج سے چندسالوں پہلے ہوا کرتا تھا ۔ اخوت اور بھائی چارگی کی فضا قائم رکھنے سے قاصر ہے اعتماد کی فضا مانند پڑنا شروع ہوا۔یہاں تک کی والدین کوبچے کی تربیت کرنا پہلے سے کہیں زیادہ مشکل امر بن گیا ہے ۔پہلے زمانے میں بچے جب گھر سے سکول چلے جاتے تھے تو والدین کے لئے کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی مگر آج ہر موڑ پے گڑا بنا ہوا ہے ۔ ذرا بھی توجہ ہٹنے سے بڑے صدمے سے دوچار ہو سکتا ہے۔جن کو معاشرے کے مستقبل کا معمار تصور کرتا ہے وہ معاشرے کے لئے عذاب بننے کا خدشہ پیدا ہو تا ہے۔آخر ان اُبھرتی ہوئی خامیوں کو دور کرنے میں ہمارا معاشرہ بے بس کیوں ہے ؟ گہرائی میں جانے کی اشد ضرورت ہے۔ مسائل اور مطالبات کے چکر میں رہنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ان معاشرتی برائیوں کو بھی ملحوض خاطر رکھنا ہوگا۔کیونکہ ہمیں وسائل کے ساتھ ساتھ ا چھے معاشرے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔تاکہ ان وسائل سے ایک فلاحی معاشرے کا قیام ممکن ہو جس میں ہر فرد کو بلاامتیاز مساوی حقوق کا حصول ہواور اس کے نتیجے میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button