کالمز

گلگت بلتستان میں بارشوں کی تباہ کاری کا منظر

زندہ قومیں ماضی کے تلخ تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترمستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہیں لیکن پاکستان جیسے ملک میں حکمران یا تو اس منطق سے ناآشنا ہیں یا جان بوجھ کر اسے نظرانداز کیا جاتا ہے۔تب ہی تویہ ملک آفت درآفت کی لپیٹ میں آرہا ہے اور حکمران صرف دکھ اور افسوس پر اکتفا کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔قدرتی آفات مثلاً بارشیں،سیلاب،طوفان،زلزلے اورسونامی وغیرہ سے ویسے تو دینا کا کوئی بھی ملک محفوظ نہیں لیکن یہ آفات ان ممالک کے شہریوں کی معمولات زندگی میں کسی قسم کی بھی رکاوٹ کا باعث نہیں بنتیں ۔جبکہ پاکستان کے تقریباًٍ ہر حصے میں اکثر بارش ہی کے نتیجے میں پورا نظام درہم برہم ہوکررہ جاتا ہے۔یہی کچھ حالیہ بارشوں سے گلگت بلتستان،آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا کے کچھ علاقوں میں سامنے آیاہے‘جس کے مطابق یکم اپریل سے شروع ہونے والی ان بارشوں سے مجموعی طورپر ایک سو کے قریب لوگ جاں بحق اوردرجنوں زخمی ہوئے جبکہ بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کے رہائشی مکانات،سڑکوں،پلوں اور انفرائسٹیکچر کو نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔گلگت بلتستان میں ان بارشوں کی وجہ سے انسانی آبادی کو جونقصان ہواوہ تو اپنی جگہ ناقابل بیان ہے ‘مگر مجموعی طورپرعوام جس کرب صورتحال سے دوچار ہیں وہ گلگت اور راولپنڈی کے درمیان شاہراہ قراقرم کی طویل بندش سے اشیائے ضروریہ کی قلت کی شکل میں ہے جوکہ دن بدن سنگین سے سنگین ترہوتی جارہی ہے ‘کیونکہ گلگت بلتستان کے عوام کی روزمرہ زندگی کا دارومدار صرف اور صرف شاہراہ قراقرم پر ہے۔ یہ شاہراہ جس طرح پاکستان اور چین کے مابین دیرینہ دوستی کو بحال رکھنے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اسی طرح گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی ضروری اشیاء کی ترسیل میں بھی اسی قدراہمت کا حامل ہے۔ اس کا اندازہ گلگت بلتستان میں پیدا ہونے والی موجودہ بحرانی کیفیت سے لگانا قدرے آسان ہے۔وہ اس لئے کہ یکم اپریل سے شروع ہونے والی طوفانی بارشوں کے بعد سے اب تک دو ہفتے کا عرصہ گزر نے کے بعد بھی علاقے میں گندم،آٹا،اشیائے خوردونی،پیٹرولیم مصنوعات اور دیگر بنیادی اشیاء کی سخت قلت ہے،لوگ گندم کے دانے دانے اور ایک گھوند آٹا کے حصول کے لئے دربدرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں بلکہ متعدد گھروں میں تو فاقے کی نوبت آپہنچی ہے اور زندہ رہنے کی خاطر لوگ چاولوں پر گزارہ کررہے ہیں۔پورے علاقے میں پیٹرول اور ڈیزل نایاب ہونے کے سبب اس وقت عملاً پہیہ جام ہوچکا ہے۔راولپنڈی اور گلگت کے مابین زمینی سفر کرنے والے ہزاروں مسافر راستے میں جگہ جگہ سڑک بلاک ہونے کی وجہ سے پھنس کررہ گئے ہیں۔ملک کے دیگر علاقوں میں زیرتعلیم طلبا ء وطالبات،ملازمت پیشہ افراد،بیمار،مریض اور عام شہری اس صورتحال کے سبب سخت کوب اور زہنی ازیتوں کا شکار ہیں۔بارشوں کی وجہ سے بے گھر ہونے والے افراد کو سرچھپانے کے لئے خیمے تک میسر نہیں ہیں،ہوٹلز،دکانیں،تندور،سبزی خانے،پولٹری فارمز اور فلور ملز کو تالے لگ چکے ہیں،پیٹرول پمپ سوکھ گئے ہیں اور صورتحال گھمبیر ہوچکی ہے۔یہ تھا شاہراہ قراقرم کی بندش سے پیدا ہونے والی صورتحال کا احوال۔یہاں سے آگے صوبائی حکومت کی لاپرواہی اور ناقص منصوبہ بندی کے سبب عوام کو درپیش مشکلات کا تذکرہ ہوجائے۔ وہ کچھ یوں کہ اول تو بارش زلزلے یا سونامی کی طرح کی کوئی آسمانی آفت نہیں کہ جو یکایک ٹوٹ پڑے اور ا نظام کو اس قدر درہم برہم کرے کہ جس کے منفی نتائج اور عواقب سے بچنے کا اہتمام ہی محال ہو۔بارشوں کے حوالے سے پیشن گوئی کا ایک قابل اعتماد نظام ہمارے ملک میں موجود ہے اور ہرلمحے محکمہ موسمیات والے ہمیں اپنی ان پیشن گوئی کے حوالے سے میڈیا کے تواسط سے اطلاع دیتے رہتے ہیں جوکہ چنددہائی قبل تک صرف ایک تصور سمجھی جاتی تھی۔ اس کے
باوجود صوبائی حکومت،انتظامیہ یا قدرتی آفات سے نمٹنے کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں نے ان بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی ممکنہ تباہی سے بروقت نمٹنے کے لئے حکمت عملی مرتب نہیں کی تو اسے صوبائی حکومت کی کمزوری اور ناقص منصوبہ بندی ہی کہا جاسکتا ہے۔یہی حال پاکستان پیپلزپارٹی کی سابق صوبائی حکومت کا بھی تھا اور انہیں اس کا انجام بھی مل گیا۔ ان کے دور میں سانحہ عطاآباد،2010اور2011میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد مجھ جیسے ناقدین یہ کہہ کر اس وقت کی صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنارہے تھے کہ سارے آن پڑھ اور جاہل لوگوں پر مشتمل برائے نام حکومت اس طرح کی آفات سے نمٹنے کی کیا خاک منصوبہ بندی کرسکتی ہے۔ اور حقیقت بھی یہی کچھ تھا کہ انہی لوگوں نے مشکل گھڑی میں امداد کی بجائے عطاآباد کے غریب متاثرین پر گولیاں برساکر جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جبکہ مون سون کی بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد کے نام پر آنے والی خطیر رقوم پر اپنے ہاتھ صاف کرلئے‘نہیں تو آج ہی اس دور میں امداد کے نام پر صوبائی حکومت کو موصولہ رقوم کا آڈٹ کرائے جائے توسب کچھ خودبخود دودھ کا دودھ ،پانی کا پانی ہوجائیگا۔اس سب سے بڑھ کر وطن کارڈ اور بینظیر انکم سپورٹ کے نام پر سابق حکومت نے جو گند پھیلائی وہ تو ایک علیحدہ کہانی ہی ہے۔ تاہم گزشتہ برس صوبے میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت اقتدار میں آئی تو عوام کی یہ تواقعات تھیں کہ اس حکومت میں تو کوئی حافظ قرآن ہے،کوئی ڈاکٹر ہے،کوئی قانون دان ہے،کوئی ماہرمعاشیات،سماجیات وغیرہ۔۔وغیرہ‘ اب تو یہ لوگ اپنی عقل ودانش اور منظم حکمت عملی سے گلگت بلتستان جیسے غریب اور پسماندہ علاقے میں دودھ کی نہرے بچادیں گے‘ مگرعین وقت پرحکومتی کارکردگی عوام کی ان تواقعات کے برعکس ثابت ہوئی اور یوں پاکستان مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت اپنے ایک سال سے بھی کم عرصے میں پہلی مرتبہ پیدا ہونے والی اس بحرانی صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب نہیں رہی۔وہ اس بابت کہ بارشوں کے نتیجے میں نلتر پاور ہاوس میں خرابی کے سبب صوبائی دارالخلافہ گلگت سمیت سے متعدد علاقوں میں بجلی کی ترسیل منقطع ہوکررہ گئی،ایک ہفتے تک لوگوں کو پینے کے لئے صاف پانی کی سہولت میسر نہیں رہی،خوراک وغیرہ کی صورتحال کا تو اوپر کے سطور میں ہی تذکرہ کیا جاچکا ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت کے پاس عوام کی مشکلات میں کمی لانے کے لئے متبادل سہولیات نہیں رہیں توانہوں نے پریس بریفنگ اور اخباری بیانات پر ہی اکتفا کیا۔ یہ ذمہ داری حکومت وزراء اور معاونین خصوصی نے وزیراعلیٰ کی صوبے میں عدم موجودگی کے باوجود نہایت احسن طریقے سے نبھائی اور مسائل میں گیرے ہوئے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ گویا گلگت بلتستان میں بارشیں ہی نہ ہوئی ہوں۔تاہم ایسی صورتحال میں یہ سب باتیں اور داعوے اس وقت تک فضول سمجھے جاسکتے ہیں جب تک کہ حکومت کے پاس مصیبت کی اس گھڑی میں عوام کو دینے کے لئے کسی بھی چیز کا زخیرہ نہ پڑا ہو۔ صدقے جاؤں قدرتی آفات سے نمٹنے کے اس صوبائی ادارے (جی بی ڈی ایم اے)پر جو بارشوں کے نتیجے میں سارا نظام درہم برہم ہونے کے بعد ٹینڈر نوٹس جاری کرتا ہو کہ ادارہ ہذا کو ٹینٹ،ترپال وغیرہ درکارہیں۔ اگریہ ٹینڈر ایک ماہ قبل جاری کیا جاتا تو ہوسکتا تھا کہ ابھی تک عوام کو ہونے والے نقصانات کا ازالہ بھی کیا جاچکا ہوتا۔ بہرحال’’ گزشتہ را صلواۃ آئندہ را احتیاط‘‘ کے مصداق صوبائی حکومت کو موجودہ صورتحال سے ایک تلخ تجربہ حاصل ہونا چاہیے اور آئندہ کے لئے ایسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی سطح پرآٹا،پیٹرولیم مصنوعات اور دیگر بنیادی ضروری اشیاء کا وافر مقدارمیں زخیرہ کرنا چاہیے۔ساتھ ہی ساتھ قدرتی آفات سے نمٹنے والے سرکاری وغیرسرکاری اداروں کو بھرپور
وسائل فراہم کرکے ان کے تواسط سے پورے گلگت بلتستان سطح پر قدرتی آفات کے ممکنہ خطرات کی نشاندہی، گھروں،مکانات اورانفرائسٹیکچرکی تعمیراور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے حوالے مقامی کمیونٹی کے استعدادکار کو بڑھانے کے سلسلے میں ایک جامع پالیسی ترتیب دیکر اس پر فوری طور پر عملی کام کا آغازکرنا چایئے‘ورنہ گلگت بلتستان کسی بھی وقت اس قسم کے آفات کے خطرات سے خالی نہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button