کالمز

لبرل یا کنزرویٹو: فیصلہ آپ کا

نعمان حسین

کچھ روز قبل جب میں نے فیس بک کھولاتو معمول سے ذیادہ نوٹیفکیشن آئے ہوے تھے۔ کافی حیرت سے میں نے نوٹیفکیشن کھولےتو گلگت کی خواتین کی فٹبال ٹیم کے کھلاڈیوں کی تصویروں پر لوگوں کے تبصرے تھے جو کہ انہوں نے حالیہ قومی سطح کے کھیلوں کے دوران بنائے تھے۔ تھوڑی دیر تبصروں پر نظر دوڑائی توتبصرےدر اصل ان کھلاڈیوں کے  فٹبال کی وردی یعنی شارٹس پہننے کے حوالے سے تھے. ایک بات واضح تھی کہ فیس بک فلاسفروں کا ایک گروہ لبرل یعنی آزاد خیال تھا جبکہ دوسرا کنزرویٹو یعنی قدامت پسند۔ ان تبصروں نے مجھے اس مباحثے کی یاد دلائی جو کہ ترکی، بنگلادیش، بھارت وغیرہ جیسے کئی ممالک میں مذہنی انتہا پسند اور سیکلر گروہوں کے درمیان یوتی ہیں۔

ان  تصویروں پر تبصرے میرے نزدیک اسی کنزرویٹو اور لبرل سوچ کی جنگ کا ایک سلسلہ تھا۔ یہ سلسلہ دور حاضر کی کوئی نئی رجحان نہیں اور نہ ہی یہ محض ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ(صدارتی امیدوار) اس کی زندہ مثال ہیں۔ ان کے مطابق امریکہ کی اپنی پہچان ہے اور امریکہ کی زمین، زخائر اور پالیسیاں صرف امریکہ کے لوگوں کے لئے ہونی چاہیں۔ اور مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دے کر پابندیاں لگانے کا موقف  ٹرمپ  کی اسی قدامت پسند سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ جبکہ  امریکہ کے  آزاد خیال  لوگ اس سوچ اور موقف کی نفی کرتے ہیں اور رنگ نسل مزہب اور شہریت سے بالاتر ہو کر انسانی حقوق کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں۔

کنزرویٹوز کے نزدیک مزہب، ثقافت، قومیت، رنگ اور نسل انسانوں سے زیادہ اہم ہوتی ہیں جبکہ لبرلز کے نزدیک ایک انسان سب سے اہم ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مزہب، ملک، ثقافت، رنگ اور نسل سے ہو۔ لبرلز کسی بھی انسان کے انفرادی آزادی کے حق میں ہوتے ہیں اور ان کے مطابق کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے کوئی بھی عقیدے پر عمل کر سکتا ہے،جو لباس پہننا چاہے پہن سکتا ہے، اپنی مرضی سے زندگی کے تمام فیصلے کر سکتا ہے اور دوسروں پہ تنقید کا مکمل حق رکھتا ہے۔

اس کے برعکس کنزرویٹوذ کے نزدیک ایک انسان آزاد نہیں ہے بلکہ اس کے زندگی کا طرز عمل طے پایا گیا ہے اور اس کو مزہب، ثقافت، قوم اور خاندان کے طے شدہ اقدار کے تحت زندگی گزارنا ہے۔ اگر کوئی شخص ان اقدار کے بر خلاف اپنی مرضی سے کوئی عمل یا فیصلہ کرتا ہے تو وہ اقدار کی عزت کی پامالی کا مرتکب ہوتا ہے۔

ایک عام انسان  زندگی کے کچھ پہلوں میں لبرل سوچ رکھتا ہے جبکہ کچھ میں کنزرویٹو۔ یہ سوچ اس کے رہن سہن، تعلیم عقیدہ، معاشی حالات اور دیگر کئی وجوہات پے منحصر ہوتا ہیں۔ اس کے علاوہ ہر مزہب کے ماننے والے کچھ لوگ کنزرویٹو اور کچھ لبرل سوچ رکھنے والےہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں مزہبی سوچ رکھنے والوں  کو رائٹ ونگ کرزرویٹو قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اپنے مزہب کو حرف آ خر سمجھ کر باقی عقائد کو رد کرے  وہ کنزرویٹو کے زمرے میں آتا ہے۔

اکیسویں صدی میں مواصلات کے نظام میں بہتری کی وجہ سے پوری دنیا ایک گاوں کی مانند ہو گئی ہے جس میں ہر مزہب رنگ نسل ثقافت اور عقائد کے لوگ رہ رہے ہیں۔ ان حالات میں کسی ایک طرح کے گزر بسر کو سب کے لئے یکساں گرداننا کسی بھی شخص کے انفرادی آزادی کو سلف کرنے کے مترادف ہے۔

ان حالات میں ایک انسان کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ایک لبرل کی طرح سارے لوگوں کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دے اور خود بھی آزادی سے زندگی بسر کرے یا ایک کنزرویٹو کی طرح لوگوں کو عقائد، ثقافت  اور اس طرز زندگی پر عمل کرنے کی تلقین کرتا رہے جس پر اس کے والدین نے عمل کیا اور وہ خود بھی عمل کرتا ہو۔ مگر یہ بات یاد رہے کہ  ٹرمپ جیسے کنزرویٹو شاید امریکہ کے ایک خاص طبقے کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں مگر امریکہ اور پوری دنیا کے لئے ایک خطرے سے کم نہیں ہیں۔ اور ہاں ایک سوال اپنے آپ سے بھی کرنا ہوگا کہ کیا ہم کسی علاقے یا گھرکےڈونلڈ  ٹرمپ  تو نہیں۔

نعمان حسین کا تعلق پبلک ہیلتھ ریسرچ کے شعبے سے ہے اور ایک پرائیویٹ ادارے میں تدریس سے وابستہ ہیں۔ کائنات کی تاریخ اور تہذیب کی سماجی ارتقا میں دلچسپی رکھتے ہیں

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button