کالمز

آئی لو مم

آج مئی کا دوسرا اتوار  ہے ۔پتہ لگا کہ  کہ  یہ ماں کا  عالمی دن ہے تفصیل جاننے کی کوشش کی تو جو معلومات حاصل ہوئیں  اسکے مطابق   اس دن کو منانے کا آغاز1870ء میں ہوا جب کہ جولیا وارڈ نامی ایک عورت نے اپنی ماں کی یاد میں اس دن کو منایا، جولیا وارڈ اپنے عہد کی معروف شاعرہ اور سوشل ورکر تھی۔اس کے بعد 1877ء میں امریکہ میں پہلی دفعہ یومِ مادر منایا گیا۔1970ء میں امریکی ریاست فلاڈیفیا میں اینا ایم جاروس نامی اسکول ٹیچر نے باقاعدہ طور پر اس دن کو منانے کی رسم جاری کی اور یہ دن منانے کی قومی سطح پر تحریک چلائی۔ اس تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے امریکی صدر وڈ رولسن نے ماؤں کے احترام میں مئی کے دوسرے اتوار کو قومی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا، تب سے یہ دن ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ یوں رفتہ رفتہ یہ روایت دنیا بھر میں پھیلتی چلی گئی اور اس تاریخ میں عالمی طور پر یومِ مادر منایا جانے لگا۔تفصیلات تو اور   بھی بہت ساری   ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا  کچھ رسمیں نبھا لینے سے ہم اپنی ذمے داریوں سے سبک دوش ہو جائیں گے، جب کہ ایسا ہرگز ممکن نہیں اور عقل کے بھی خلاف ہے۔مغربی ممالک میں اس دن کے منانے کی بات تو سمجھ آتی ہے لیکن بحثیت مسلمان  پاکستان یا کسی بھی اسلامی ملک میں  اس دن کی اہمیت اور منانے کی منطق آج تک سمجھ نہ آئی۔یہ دن تو مغرب والے اس لئے مناتے ہیں کہ وہ  اپنے بوڑھے والدین کو گھر کی بجائے اولڈ ایج ہوم میں رکھتے ہیں، اس دن وہاں جا کر اپنی ماں سے ملاقات کرتے اور ان کو سرخ پھولوں کے تحفے پیش کرتے ہیں اور جن لوگوں کی مائیں اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہوں، وہ سفید پھولوں کے ساتھ اپنی ماں کی قبروں پر جاکر گلدستے سجاتے ہیں۔خدا کا شکر ہے ہم مسلمان ہیں اور مشرق میں  رہتے ہیں   اور یہاں کی رویات کے مطابق  رشتوں کی لاج کسی حد تک باقی ہے۔لیکن اس بات کا کیا کیا جا سکتا ہے کہ  ہمارے ذہنوں میں مغرب پرستی اس زور سے حاوی ہو رہی ہے کہ   چپ چاپ  حقیقت جانے بغیر اپنی روایات ،  محبت بھرے جذبات اور اقدار  کاخود ہی اپنے ہاتھوں  گلا گھونٹ کر اسے دفن کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ماں ایک ایسا لفظ ہے جس کی لبوں سے ادا ہوتا ہے اسے اس نام میں سکون ملتا ہے  اس پر مزید تحقیق کی جائے تو اس میں  مذہب  کا عنصر زیادہ نمایاں لگتا ہے۔ماں سے محبت کے اظہار کے لئے کسی مصنوعی چیز کا سہارا نہیں چاہئے بلکہ ماں اور اولاد کے رشتےکا تعلق اور  استواری  بے لوثی و اخلاص  کی  مرہون منت ہے۔  جہاں یہ خلوص اور  بے لوثی ختم ہوئی وہاں  محبت  کے بجائے سفاکی شروع ہو جاتی ہے۔کیا آپ یہ پسند کرینگے کہ آپ کے والدین  آپ سے ہٹ کر اولڈ ایج ہوم میں زندگی گزاریں؟ ۔۔کیا آپ یہ پسند کرینگے کہ صرف سال  کا ایک دن اپنے والدین سے ملیں ؟۔سچا مسلمان اور صلح اولاد  کبھی بھی ایسا نہیں چاہئیگی۔ ماں جو تکلیفیں اٹھاتی ہے اس سے سبھی واقف ہیں یہاں ان کو دھرانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور نہ ہی قرانی حوالہ جات یا حدیث بیان کر کے  اپنے آپ   کو عالم و فاضل  ثابت کرنا چاہتا ہوں۔یاد رکھیں والدین کی خدمت  جسے   جہاد سے بھی افضل قرار دیا گیا ہو اور ماں  کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے تو   یہ  کیسے ممکن ہے کہ ان کا     حق  ادا ہو سکے۔ماں   کا حق  ادا ہو ہی نہیں سکتا۔  بس صرف اتنا کہنا ہے کہ  اپنے والدین  اگر زندہ ہیں یا ان میں سے کوئی بھی بقید حیات ہے تو خدا را ان کی خدمت کے لئے  کسی ایک دن کو مقرر نہ کیجئے ۔ بلکہ اسی طرح ان کی خدمت اور دعائوں میں یاد کیجئے ۔جس طرح انہوں نے آپ کی پرورش  کی۔ ایک واقعہ  درج  کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ  معلوم ہو سکے کہ مدر ڈے میں آئی لو مم  لکھ کر یا آئی ڈی بنا کر ہم  ماں کی کون سے خدمت بجا لا رہے ہیں   ۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اس نے کہا ۔ اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں نے اپنی ماں کو یمن سے اپنی پیٹھ پر لاد کر حج کرایا ہے اسے اپنی پیٹھ پر بیت اﷲ کا طواف کرایا صفا و مروہ کی سعی کی ، عرفات گیا پھر اسی حالت میں مزدلفہ آیا اور منیٰ میں کنکریاں ماریں وہ نہایت بوڑھی ہے ذرا بھی حرکت نہیں کرسکتی میں نے یہ سارے کام اپنی پیٹھ پر لئے ہوئے انجام دیئے ہیں تو کیا میں نے اس کا حق ادا کردیا ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ نہیں اس کا حق اد انہیں ہوا ۔ اس آدمی نے پوچھا ۔ کیوں ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ا سلئے کہ اس نے تمہارے بچپن میں تمہارے لئے ساری مصیبتیں جھیلیں ا س تمنا کے ساتھ کہ تم زندہ رہو اور تم نے جو کچھ ا سکے ساتھ کیا اس حال میں ہے کہ تم ا س کے مرنے کی تمنا رکھتے ہو ۔

ایک مدت سے میری ماں سوئی نہیں تابش

میں نے ایک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button