تحریر: جاوید حیات
ایک سفر ایک قدم سے شروع ہوتا ہے اور بہت دور چلا جاتا ہے ۔اور اکثر ایک دور میں بدل جاتا ہے ۔ایسے سفر کا پہلا قدم بھی مشکل ہے اور اس قدم کی رفتار کو برقرار رکھنا بھی مشکل ہے ۔چترال جیسے پسماندہ علاقے میں ایک قدم پا پیدل رکھا جاتا ہے ایک بانکا مسافر اکیلا اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے ۔اور قصد کرتا ہے کہ وہ رکے گا نہیں ۔وہ گلی گلی جاتا ہے قریہ قریہ جاتا ہے ۔اور علامہ اقبال اوپن یونیو رسٹی کا تعارف سب تک پہنچاتا ہے ۔گھر بیٹھے تعلیم اور ڈگری لینے کا خواب نما پیام ہے ۔پیام کا پہنچنا تھا کہ گھر گھر یہ چراغ جلتا ہے ۔اور آج چترال کا ہر فرد اس سے بھر پور فائدہ حاصل کر رہا ہے ۔مقبول الہی صاحب کے لگائے ہوئے اس پودے کی مسلسل آبیاری ہو رہی ہے ۔جب یہ ایک کرائے کے کمرے میں کام کر رہا تھا تو ایک نوجوان حاجی یار خان ان کی مدد کو آبیٹھے اور آج جبکہ یہ ایک کیمپس نما دفتر بن گیا ہے تب بھی حاجی یار صاحب کی خوشبو اس آفس میں پھیلتی رہی ہے ۔اگر ایک بندہ کام کو ا پنا مقصد بنا کے اس میں خلوص کا رنگ بھرتے رہے تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔دفتر میں حیدر بھائی کی آمد ہوئی پھر شفقت اللہ،سراج الحق،امین اللہ ، ضیا حیات، عبد السلام شمس الہی آئے۔۔ شروع کے وہ ٹیوٹر قابل صد احترام ہیں جنہوں نے یونیو رسٹی کے لئے مفت کام کئے۔مجھے یاد ہے کہ ہم کسی پروگرام کا بل تک نہیں بناتے تھے دوڑتے رہتے پروگرام ترتیب دیتے رہتے ۔اور یونیورسٹی کی سرگرمیوں میں جان ڈالتے رہتے۔رفیع اللہ صاحب کی آمد یونیورسٹی میں بطور اے ار ڈی مارچ ۲۰۰۷کو ہوئی ۔وہ ایک متحرک شخصیت ہیں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا ۔یونیورسٹی کی ہر سرگرمی کی زاتی طور پر نگرانی کرتا رہا ۔۔ان کی فغالیت ہر لمحہ بولتی رہی۔ اور یونیورسٹی کو ایک فغال آفیسر مل گیا ۔۔دفتر کا سارا عملہ اس تعریف کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس قوم کی بھرپور خدمت کی ۔یونیورسٹی کے اس سفر میں میر کارواں اور کارواں کے دوسرے افراد سب بے لوث خدمت کرتے رہے ۔اس کارواں کو میر کارواں دو ملے ۔۔کارواں کے افراد اس بات کے لئے داد کے مستحق ہیں کہ وہ یونیورسٹی کے سنئیر ٹیوٹرز کی خدمات ،ان کی محنت ،ان کی قابلیت اور سٹوڈنٹس کا ان سے اطمنان کو ہمیشہ مد نظر رکھتے ہیں ۔۔رفیع اللہ صاحب کا سفر خوشگوار سہی مگر ان کا عزم و ہمت دیدنی ہے ۔صبح دفتر جاتے ہیں مگر شام کو گھر لوٹنے کی بجائے ورک شاب سنٹرز پہنچتے ہیں ۔سر گرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں ۔اور رات گئے گھر لوٹتے ہیں ۔دفتر میں انھوں نے یس سر، نو سر کے فقرے ڈلیٹ کر دئے ہیں ۔وہ اپنا ڈرافٹ ہاتھ میں لے کے اپنے سٹاف کے پاس خود جاتے ہیں ۔ان کو کام کرنے کی تاکید کرتے ہیں حالانکہ یہ گھنٹی بجانے کا زمانہ ہے ۔انٹر کام ، ایس ایم ایس کا دور ہے ۔آفیسر کی کرسی بہت بھاری ہو گئی ہے ۔اس میں بیٹھنے والے کو ہر پل اپنی بھاری پن کا احساس ہوتا ہے ۔رفیع اللہ صاحب کی یہ صفت ہے کہ وہ اپنے اور دوسروں کے درمیان فاصلہ نہیں رکھتے ۔زبا ن کا تند ابھی برس پڑا دوسرے لمحے مزاج کے بادل چھٹے اور مطلع صاف ہوا۔اس کے کارواں کے ساتھیوں کو اس کی یہ ادا بہت بھاتی ہے ۔۔اور کہتے ہیں کہ تم کو آتا ہے پیار پہ غصہ ہم کو غصے سے پیار آتا ہے ۔۔۔جتنا غصے میں تم بھڑکتے ہو تم پہ اتنا نکھر آتا ہے ۔۔۔۔رفیع صاحب کی جوان قیادت ہے ۔۔وہ یونیورسٹی کے ہر کام کو سٹیریم لائن کرنے کی بہت کوشش کرتے ہیں ۔ شکایات کا ازالہ، کوتاہئیوں کی تلافی اور بڑی بات یہ کہ خدمات کے اعتراف میں دو قدم آگے ہیں ۔وہ یونیورسٹی کے سینئر ٹیوٹرز کی خدمات کے معترف ہیں ۔ان کو ورک شاب ،فائیل اور امتحانی ڈیوٹیوں میں ترجیحی بنیاد پہ رکھتے ہیں ۔رفیع صاحب یاروں کے یار ہیں بھولے بھالے ہیں ۔تھپ چار پہ مرمٹنے والے حیات ساز ہیں ۔ان کو بہلایا جاسکتا ہے مگر مچلتاخود ہے ۔اس کو کام سے کام ہوتا ہے اس لئے وقت کے پابندہیں ۔آپ بطور اے ار ڈی چترال میں سات سال تک کام کرتے رہے پھر کوہا ٹ ریجن کو ٹرانسفر کئے گئے۔یہ نیا سٹیشن تھا ۔کام کی ابتدا تھی سٹاف کم تھے۔مسائل زیادہ تھے۔انھوں نے اس کو چیلنج کے طور پر قبول کیا۔اور اٹھارہ مہینے تک دن رات کام کرکے وہاں پر اوپن یونیورسٹی کا چراغ جلایا۔اب مقبول صاحب پنشن پہ گئے تو آپ کو پھر چترال ٹرانسفر کیا گیا۔۔امید ہے کہ اوپن یونیورسٹی کی خدمات چترال کیلئے اس طرح رہیں گی۔اور یہ پرعزم کارواں اس طرح قوم کی خدمت کرتا رہے گا۔۔