سیاحتکالمز

سدپارہ جھیل

تحریر: ہدایت اللہ اختر

سکردو کو دیکھے ہوئے بڑا عرصہ بیت گیا تھا۔دل چاہ رہا تھا کہ ایک بار پھر سکردو ہو آئوں۔ سکردو سے میری وابستگی  کئی حوالوں سے تو نہیں  البتہ لڑکپن اور  ملازمتی حوالے سے میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ میں نے سکردو دیکھا ہوا ہے۔کیا واقعی میں نے سکردو دیکھا ہے۔لڑکپن میں گذرے ہوئے تین سال  کی یادیں تو  آج بھی اسی طرح تازہ ہیں جیسے وہ کل ہی کی بات ہو ۔پھر ملازمت کے چار سال۔ کونسا ایسا گائوں ہوگا   جسے میں نے نہ دیکھا ہو  کیونکہ ملازمت کا شعبہ ہی ایسا ملا تھا ۔اور جب  دل میں خیال آیا کہ سکردو ہو کے آنا چاہئے تو پھر ایک احساس دل میں ابھرا ۔میں نے سکردو دیکھا ہی کب ہے  سکردو کو جس رنگ روپ میں دیکھنا چاہئے تھا    وہ نظر تو نہ میری لڑکپن میں تھی اور نہ ہی  دوران ملازمت میں  اس نظر کو کام میں لا سکا ۔اپنی ملازمت  کے دوران استعمال میں آنے والی ایک ڈائری کو جب اٹھا کے دیکھا تو روایتی    دفتری امور کا ذکر زیادہ  اور دیگر باتیں  بہت کم  مجھے پڑھنے کو ملیں ۔شکر ہے کچھ نہ کچھ تو  نوے کی دھائی  کی باتیں درج ہیں ۔جس سے  سکردو   کے اس وقت اور آج کے  اتار چڑھائو کا اندازہ  ہو ہی جاتا ہے۔ان یادشتوں سے اگر ایک ضخیم کتاب    تیار ہونا ممکن نہیں تو کم از کم  سو سے زیادہ صفحوں کا کتابچہ ضرور بن سکتا ہے۔ اس سے آپ یہ  بھی نہ سمجھیں کہ  سکردو سے متعلق میں کوئی کتاب یا  کتابچہ تیار کرنے جا رہا ہوں۔یہ تو میں ان الفاظ  کو دہرا  رہا ہوں جو میں نے    حال ہی میں سکردو سد پارہ جھیل کو دیکھنے کے بعد اپنی ڈائری کے ایک ورق میں رقم کئے تھے۔

ارے کہاں ہے وہ سد پارہ جھیل جسے میں نے لڑکپن میں دیکھا تھا؟ ارے کیا ہوا  اس کے جمال   کو  ؟اوہ  جھیل کا   جزیرہ  بھی تو نظر نہیں آرہا  اور یہ کیا  نہ ہی حسن سدپارے کا ہٹس اور نہ ہی پاکستان ٹورزم   کی عمارت  جسے  میں نے دوران ملازمت سکردو سے دیو سائی  جاتے ہوئے اور سدپارہ جھیل میں  فیشنگ کا شوق پورا کرتے ہوئے دیکھا تھا  ۔سدپارہ جھیل کے درمیان جزیرے  تک پہنچنے کے لئے  کشتی  کی سواری اور اس جزیرے کی سیر کو میں کیسے بھول سکتا ہوں  یہ جزیرہ تو اس جھیل کا جھومر تھا ۔اب یہ جھومر کہاں ۔ہاں یاد آیا  یہاں کے مقامی لوگ اس جزیرے  کے وجود  میں آنے اور سد پارہ جھیل سے متعلق   ایک دیو مالائی  قصہ بھی تو بیان کرتے ہیں ۔نہیں معلوم آپ کو۔ چلیں جی ہم بتا دیتے ہیں ۔ سدپارہ بلتی زبان کا لفظ ہے  اور اس کے معانی سات دروازوں  کے بنتے ہیں  کہانی کچھ یوں ہے کہ جس جگہ جھیل ہے  صدیوں پہلے یہاں ایک گائوں ہوا کرتا تھا ۔کہا یہ جاتا ہے کہ  اس گائوں  میں کہیں سے ایک بزرگ  فقیر  کے بھیس میں   یہاں کے مکینوں کو آزمانے وارد ہوا  اور لوگوں سے کھانے پینے  کی استدعا کی اس  بزرگ  کو گائوں کے لوگوں نے نظر انداز کیا  اسکی کوئی مدد نہیں کی سوائے  ایک بڑھیا  کے  جس نے اس بزرگ کی خوب سیوا کی۔لوگوں کے اس روئیے  کو دیکھ کر  بزرگ ناراض ہوئے  اس نے بڑھیا کے حق میں دعا اور   دیگر مکینوں  کو بدعا دی  جس کے نتیجے میں راتوں رات گائوں الٹ گیا اور اس کی جگہ پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے گائوں ایک جھیل میں تبدیل ہوا البتہ حیرت کی بات یہ ہوئی کہ  جس جگہ اس بڑھیا کا  گھر تھا جس نے بزرگ کی خدمت اور اسے کھانا کھلایا تھا  ان کا گھر صحیح سلامت  رہا اوروہ   ایک جزیرہ  بن  گیا ۔ کہانی کی دلچسپی اپنی جگہ اور اس کی صداقت کہاں تک ہے  اس بارے  بلتستان کے لکھاری  اور محقق بہتر بتا سکتے ہیں   ۔

اب رہی بات جھیل  کے درمیان  جزیرہ   زیر زمیں جانے کی  تو اس بارے دیو مالائی کہانی یہ ہے  کہ سد پارہ ڈیم بن جانے کے بعد راتوں رات یہ جزیرہ  زیر زمین چلایا گیا اور پانی کی سطح بلند ہوگئ ہے ۔جی ہاں اب سد پارہ جھیل میں  ایک ڈیم بن چکا ہے  جس سے سکردو  شہر  کی پانی اور بجلی کی ضروریات  پوری ہو جاتی ہیں ۔ حسن سدپارہ اور پاکستان ٹورزم کی  قیام گاہیں  قدرتی آفات کی نذر ہو چکی ہیں ۔ جھیل کی خوبصورتی تو اب بھی ہے لیکن ڈیم  بننے کے بعد   سیاحت کے شوقین حضرات   سد پارہ جھیل     کا نظارہ  اور تھوڑی دیر سستانے کی کی جگہ سے محروم ہوگئے ہیں ۔پرائویٹ سطح پر جھیل کے بائیں طرف دیو سائی روڈ کے دھانے میں  ایک چھوٹا سا ہٹس  اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ دائیں طرف کا  حصہ  جہاں پی ٹی ڈی سی کا موٹل  ہے اسے بھی عدالتی  فیصلے کا انتظار ہے  شائد  ہی یہ موٹل چالو ہوسکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ   جھیل  کے دائیں طرف کا حصہ سیاحوں کے لئے   اجازت نامہ چاہتا ہے کیونکہ یہاں ڈیم کی انتظامیہ  کا کنٹرول ہے۔ایک وہ وقت تھا کہ جھیل کے چاروں اطراف میں  فیشنگ راڈ لئے   ٹورسٹ  اور مقامی لوگوں کی اچھی خاصی تعداد ہوا کرتی تھی  لیکن اب کی دفعہ  جب تک ہم فیملی ممبر گھنٹوں وہاں رہے لیکن وہ نظارہ اور  سیاحوں کا رش دیکھنے کو نہیں ملا۔

صورت حال جو بھی ہے  اس کو بالائے طاق رکھ کر  اس کو ایک اچھے حوالے سے دیکھا جائے تو  حسین بلتستان  میں موجود یہ خوبصورت جھیل  جسے دنیا سدپارہ جھیل کے نام سے جانتی ہے  سحر طاری کرنے والی جھیل ہے جو سطح سمندر سے آٹھ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے  اس جھیل  کے دو تین  اطراف سنگلاخ چٹانیں ہیں۔ سرما میں ان پہاڑوں پر برف پڑتی ہے  اور  موسم گرما آتے ہی  ان پہاڑوں  سے پگھلنے والی برف اور  چند فاصلے پر موجود دیو سائی نیشنل پارک  سے نکلنے والے قدرتی ندی نالوں کا پانی بھی بہتا ہوا اس میں آگرتا ہے۔سکردو آنے والے سیاح سدپارہ جھیل کو دیکھے بغیر کیسے جا سکتے ہیں  اور وہ سیاح جو دیو سائی  جانا چاہتے ہیں ان کے لئے سب سے قریب اور آسان راستہ  بھی تو سدپارہ جھیل سے ہوکر ہی گزرتا ہے۔کاش حکومت  اپنی ذمہ داری کا احساس کرتی تو شائد آج کے دور میں  کوئی بھی سیاح  اپنی چھٹیاں گزارنے یورپ اور دیگر ممالک کا رخ کبھی نہ کرتا

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button