کالمز

اکنامک کویڈور اور جی بی کی صوبائی حکومت

 تحریر: دردانہ شیر

ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے بعض اہم رہنماوں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے لئے اندورن خانہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت سے رابطے شروع کر دیئے ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے سابق صدر اور گلگت بلتستان کی اہم سیاسی شخصیت جسٹس (ر) سید جعفر شاہ نے چند دن قبل اسلام آباد میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ملاقات کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لیا ہے جس سے خطے کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے افراداس سے گلگت بلتستان میں پی پی پی کو سیاسی میدان میں ایک بہت بڑا نقصان قرار دے رہے ہیں اور ائندہ چند روز میں نہ صرف پی پی بککہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اہم سیاسی شخصیات کی بھی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا قوی امکان ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کی سیاست میں 2016کا سال اہم سیاسی تبدیلوں کا سال قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا چونکہ اگر دیکھا جائے تو گلگت بلتستان کے عوام نے پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کو آزما چکے ہیں اب شاید خطے کے عوام ایک اور جماعت پاکستان تحریک انصاف کو انے والے الیکشن میں موقع دینا چاہتے ہوں۔  اس وجہ سے گلگت بلتستان کے اہم سیاسی جماعتوں کے سرکردہ لیڈر اندورن خانہ پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے لئے تیار کھڑے ہیں اور کسی بھی وقت یہ قائدین تحریک انصاف میں شمولیت اختیارکر سکتے ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے گلگت بلتستان کو جب 2009میں صوبائی سیٹ اپ دیا تو عوام نے اس پیکیج پر خوشی کا اظہار کیااور پاکستان پیپلزپارٹی نے گلگت بلتستان کے صوبائی الیکشن میں کامیابی حاصل کی اس دوران خطے کے عوام کی پاکستان پیپلز پارٹی سے بڑی امیدیں وابسط تھی مگر پاکستان پیپلز پارٹی کی گلگت بلتستان میں جب صوبائی حکومت بنی تو عوام کی نظریں پی پی کی طرف لگی تھی کہ شاید پی پی کی حکومت جو خود کو غریب عوام کی جماعت کے دعوے کرتی ہے کے دور میں علاقے میں ترقیاتی کاموں کا سیلاب ائے گا مگر پی پی کے پانچ سالہ دور میں اگر دیکھا جائے تو کوئی ایسا ترقیاتی منصوبہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا جس کی تعریف کی جائے علاقے کی تعمیر وترقی کے لئے جو چھوٹے موٹے کام ہوئے بھی تو جون کے مہینے میں خطے کے ٹھیکدار برادری کے کروڑوں روپے کے چیک بونس ہوگئے جو شاید گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہو کہ سرکاری محکموں کی طرف سے جاری کردہ چیک بونس ہو اور ٹھکیدارحضرات تعمیراتی منصوبوں کے پیسوں کی بجائے خالی چیک واپس ان کی جیبوں میں چلے گئے ہواچیک بونس ہونے سے علاقے کے ہزاروں مزدوروں کو ان کی مزدوری رقم نہیں ملی اور ترقیاتی منصوبے جمود کا شکار ہوگئے یہ وہ دور تھا کہ جب مزدور کو مزدوری کی رقم نہیں ملی تو غریب عوام کی جماعت کہنے والی پی پی کی جماعت کا زوال شروع ہوگیا اور جب 2015کو گلگت بلتستان کے صوبائی انتخابات ہوگئے تو عوام نے اپنی بھر پور حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے گلگت بلتستان سے پی پی کو مسترد کر دیا۔ صوبائی حکومت کی24نشتوں میں سے پی پی صرف ایک نشست بچانے میں کامیاب ہوگئی یہ سب کچھ کیوں ہو ا اس کا ذکر اوپرآیا ہے۔

چونکہ اب لوگوں کو جھوٹے خواب دیکھاکر ووٹ حاصل کرنے کا دور گزر چکا ہے جتنے سیاست دان خود کو ہوشیار سمجھتے ہیں اس بھی زیادہ شعور اب عوام میں آگیا ہے 2015کے الیکشن میں جب عوام نے پی پی کو مسترد کرکے جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بھاری اکثریت سے کامیاب کیا چونکہ وفاق میں پاکستان مسلم لیگ کی حکومت ہے اور گلگت بلتستان میں بھی (ن) لیگ کی حکومت ہوگی تو گلگت بلتستان کا یہ خطہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا مگر ایک سال کی اگر موجودہ گلگت بلتستان کی کاکردگی کو دیکھا جائے تو کوئی ایسا انقلاب نہیں لایا گیا جس کی تعریف کی جائے گزشتہ ایک سال سے ہر دوسرے روز گلگت سکردو روڈ کی تعمیر کی خبریں آرہی ہیں، لیکن تاحال اس روڈ کی تعمیر تو دور کی بات ٹینڈر تک نہیں ہواہے۔ گلگت سکردو روڈ اتنا خستہ حال ہوچکا ہے کہ اس روڈ پر سفر کرنا ایک عزاب سے کم نہیں ہے دوسری طرف گلگت چترال روڈ کو ایکسپریس روڈ بنانے کے بلند وبانگ دعوے کئے گئے مگر یہ بھی صرف اور صرف دعوے ہی نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح استور روڈ کو مظفرآباد تک ملانے کی بھی بڑی باتیں ہوئی ہیں۔ مظفر اباد تک روڈ کی تعمیر تو دور کی بات ہے استور روڈ کی تعمیر اور مناسب دیکھ بال نہ ہونے کے باعث یہ روڈ بھی آثار قدیمہ کا منظر پیش کر رہا ہے۔

گلگت بلتستان کی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ان کی کارکردگی اور پی پی کی گزشتہ حکومت کی کاکردگی میں کوئی خاص فرق نظر نہیں اتا گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کے پاس اب سب سے اچھا موقع سی پیک کی شکل میں سامنے اگیا ہے اگر پاک چائینہ اکنامک کویڈور کے اس اہم اور تاریخی منصوبے میں گلگت بلتستان کے حکمرانوں نے ملک کے دیگر صوبوں کی طرح اپنا پورا حصہ حاصل کیا تو گلگت بلتستان کا یہ خطہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے اور خطے کی خستہ حال سٹرکیں بہتر ہوسکتی ہے گلگت چترال ایکسپریس وے ،شونٹرمظفراباد شاہراہ اور گلگت سکردور روڈ کی تعمیر ہوسکتی ہے اگر اس اہم موقع سے بھی فائدہ نہ اٹھایا تو گلگت بلتستان کے ائندہ ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن)کی حشر بھی پیپلز پارٹی سے بھی بدتر ہونے کا امکان ہے اور اس کا سب سے زیادہ فائد ہ شاید پاکستان تحریک انصاف کو حاصل ہو۔ایسی سوچ سے پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنماوں نے اندورن خانہ تحریک انصاف سے رابطے تیز کر دئیے ہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button