کالمز

ہیئے بے قرار میون ۔۔۔۔ اثر وقار تاج

بر ملا اظہار : فدا علی شاہ غذریؔ

زیست کو کہاں دوام ہے، انسا ن تو شجر کے سا ئے میں سستا تے مسا فر کی طرح ہے جو کسی بھی لمحے اُٹھ کر اپنا ادھورہ سفر جاری رکھتا ہے۔ دنیا زندگی کے لئے ایک را ستے کی ما نند ہے جس پر چل کر مسا فر منزل کی جانب نکل پڑ تا ہے۔۔۔۔ اقبال نے زندگی کو بر ق کی ایک چمک سے تشبیح دیا ہے ۔۔۔کسی نے ہتھیلی میں تھوڑی مٹی رکھ کر پھو نک دیا تھا کہ زندگی اس عمل کی ایک مثل ہے۔۔۔ ایک صا حب علم نے زیست کو خندہ گل کہا ہے کہ یہ بس کھلتے ہی مر جا جا تی ہے۔۔ ایک شا عر نے زندگی کو فقط اک ر نگ کا نام دیا ہے ۔۔۔ یہ زیست کس طرح بجلی کی ایک چمک، ہتھیلی سے اُڑ کر ہوا میں بکھرتی مٹی اور چند لمحوں کے مہمان خندہ گل ہے اور اک رنگ ہے اس کا مشا ہدہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں کر تے رہتے ہیں،زندگی کی داستانیں جتنی جلدی یاد رہتی اُتنی ہی جلدی یا داشت کی دنیا میں ہستی سے نیستی کی طرف محو سفر ہو جا تی ہیں۔۔۔ کا ئنات کی ہر ذی حیات زیست کے چند سا عتوں میں مقید ہیں اور قران مجید کے سورہ رحمن میں باری تعالیٰ نے ان چند سا عتوں پر مشتمل ہر شے کو فا نی اور صرف اپنی ذات اقدس کو با قی قرار دیا ہے۔۔۔ زندگی بار بار ہمیں یاد دلاتی ہے کہ وہ کتنی بے وقعت او ر بے اثبات ہے اور اسی زیست نے ہی ہمیں دائمی فرا ق کی قطار میں کھڑا کر کے یکے بعد دیگرے ایسے رخصت کر رہی ہے جیسے کو ئی پر ندہ اپنے بچوں کو گھو نسلے سے نکال کر پہلی پرواز پر بھیج رہا ہو ۔۔۔اس متنا ہی دنیا کی محدود زندگی نے ہمیں اتنا حیران و ششدر کرر کھی ہے کہ کبھی کبھی ہم یہ سمجھنے سے بھی قا صر رہتے ہیں کہ دو گز زمین یہاں گزر نے والی زندگی کی آخری منزل ہے یا پھر ابدی اور دائمی زندگی کی پہلی ۔۔۔ مگر یہ طے ہے کہ زندگی خود کسی سفر کے لئے بحثیت راستہ جہاں نہا یت حسین اور دلکش ہے وہاں کھٹن اور دشوار گزاری میں بھی اپنی کو ئی ثا نی نہیں رکھتی ۔

گلگت بلتستان کے نامور ادیب و شاعر ظفر وقار تاج کے ننھے فر زند اثر وقار تاج نے زندگی کے رنگ بے اثبا ت کو جہاں عیاں کر کے سب کو اُداس چھوڑ کرچلے گئے وہاں ہمارے پیارے عبدالخالق تاج صاحب اور اُن کے اہل و عیال پر قیامت کی گھڑی گرا دی۔ اثر تاج زیست کے اس سفر میں ابھی رخت سفر با ند ھے ہی تھے کہ سفر اپنے اختتام کو پہنچا، اُداس لمحوں کی لہر یں تاج خاندان میں ان کی بیماری کے ساتھ ہی نمو دار ہو ئیں تھیں لیکن عید سے پہلے ہی ان لہروں نے طو فان کی صورت اختیار کر گئیں اور ان کے پیارے اثر تاج اللہ کو پیا رے ہو گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری عید کی خو شیاں بھی ننھا اثر ساتھ لے کر چلا گیا اور یوں عید بھی اُ داسی کی نذر ہو گئی ، گلگت بلتستان سمیت اہل چترال بھی ان کی جدا ئی پر اُداس ہو ئے اور تاج صاحب کی دلجو ئی اور تعزیت کے لئے’’ قلم قبیلہ ‘‘ گلگت آیا اور شریک غم ہو ئے۔ اُداس کیوں نہ ہو تے، تاج صاحب اور ان کے فر زند ظفر وقار جہاں گلگت بلتستان کی ادبی اُفق کے چاند سو رج ہیں وہاں وہ چترال اور گلگت کے ما بین ثقا فتی تعلق کے سفراء بھی ہیں جو ہمیشہ ادب و ثقا فت کی خد مت میں لگن کے ساتھ مگن ہیں اور ہم جیسے لو گ اُ ن سے رو شنی لے کر گمنام اندھیروں میں سفر کر تے ہیں۔۔ گلگت بلتستان کی محبت کی سر زمین کو عشروں پہلے کسی بد خواہ کی بری نظر پڑی تھی اور یہی پر بھا ئی کے ہا تھوں بھا ئی کا خون ہوا، رشتوں کی مضبو ط بندھن کا نچ کی چو ڑیوں کی طرح چکنا چور ہو کر بکھر گیا، مضبو ط سے مضبو ط تر قریبی رشتے بھی مسلکی خول چڑھا کر دست و گر یباں ہو گئے لیکن تا ج صاحب اور اُن کے رفقا ء گلگت بلتستان کی محبت کے ورثے کو بچا تے رہے اور ہنوز وہ کسی بھی تعصب اور نفرت کے علمبر داروں سے دور تک واسطہ نہیں رکھتے اور ان ہی لو گوں میں ’’ اصل گلگت بلتستان‘‘ زندہ ہے ۔ ہمارے ادبا اور شعرا کی تعصب اور نفرت سے پاک سوچ آہستہ آہستہ عام لو گوں کی دلوں میں جگہ بنا رہی ہے وہ دن دور نہیں کہ یہ سوچ ۲ ملین لو گوں کی زندگیوں کا حصہ بن جا ئیگی اور پھر سے ہم بھا ئی بھا ئی بن کر سر زمین گلگت بلتستان میں محبتوں کی نغمیں سن کر اور گا کر گزا ریں گے اور اُ سی دن یہاں کی ہر وادی ’’مہ گلیتو ہا نوس‘‘ کی صداوں سے گو نج اُٹھے گی، غیروں اور بد خواہوں کی آنکھ لڑ ائی بھی ہچکو لے کھا کر بند ہو گی اور اُن کی لگا ئی ہو ئی آگ بھی بجھ جا ئے گی۔ مجھے یقین محکم ہے کہ’’ قائم و قدیم دَبون‘‘ اُس دن ظفر وقار تا ج کی دعا قبول فر ما ئے گا اور اُن کی دعا کے بدلے اُ ن کے پیا رے اثر تاج جیسے لاکھوں بچے اپنے عزیزوں کو زندہ دیکھ کر خوش ہو نگے اور ان کا لکھا ہوا دعا ئیہ نغمہ گا ئیں گے۔۔۔۔

ظفر وقار تاج صاحب بھی اپنے اعظیم باپ کی طرح گلگت بلتستان کے چپہ چپہ رہنے والے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی ہے، اُ ن کی شینا سمیت دیگر زبانوں میں قدیم اور پرا نے دھنوں کو زندہ رکھنے کے لئے گران قدر خد مات ہیں۔ اُن کے قلم سے نکلنے والے شینا زبان کا ہر حرف نئی نسل کے نو جوانوں کے لئے نیا ہے کیونکہ ہم لوگ بلا سو چے سمجھے دوسرے زبانوں کے الفاظ بڑے فخر کے ساتھ معمول کے بول چال کا حصہ بنا تے جا رہے ہیں جس کا نہایت ہی برا اثر ہماری زبانوں پر پڑ رہا ہے ۔ گلگت بلتستان میں اس وقت ایک درجن کے لگ بھگ مقا می بو لیاں ہیں لیکن آمیزش کی لعنت سے کو ئی ایک بھی خا لی نہیں ۔آمیزش کا یہ طو فان تمام بو لیوں کی مستقبل کے لئے نا صرف خطرے کی گھنٹی بجا چکا ہے بلکہ موت کی نو ید بھی سنا تا ہے، اسی اثنا تاج صاحب کے فر زند شینا زبان کی تحفظ کا بھیڑا اُٹھا کر گلگت بلتستان کے ادب و ثقا فت پر احسان کیا ہے۔ مجھے قوی اُمید ہے کہ ان کا دیکھا دیکھی ہر علا قے سے اپنی ما دری زبانوں کی تحفظ کے لئے نو جوان آگے آئیں گے اور یوں ایک نیا سفر ایک نئی جہت کیساتھ شروع ہو گا، جس کا آغاز تا ج صاحب کے خاندان سے ہوا ہے۔ شینا زبان کے لئے گران قدر خد مات گلگت کے تمام شعرا اور اُدباء نے دی ہیں جن میں نما یاں پرو فیسر عثمان، پرو فیسر آمین ضیاء اور جمشید خان دکھی صاحب جیسے اعلیٰ صفات کے لوگ شا مل ہیں لیکن وقت کی ضرو رت ہے کہ ان سب شعرا اور ادبا ء کو کسی ایک نکتے پر متفق ہو کر شینا رسم الخط کے لئے کو ئی نما ئندہ کمیٹی تشکیل دے جو ایک اعظیم اوریاد گار کاوش کو عملی جامہ پہنا سکے ورنہ یہ سہرا بھی کسی دن ظفر وقار تاج کے حصے میں آئیگا کیو نکہ ظفر صاحب کا قلم شعر نہیں ہیرے اُگل رہا ہے۔

میری دعا ہے کہ اثر تا ج کا غم جو کہ بہت بڑا صدمہ ہے ہمارے اس اعظیم شا عر کے اعصاب پر اثر انداز نہ ہو سکے اور وہ اللہ کے حبیب کا اصل غلام بن کر یہ صد مہ حبیب خدا کی طرح سہہ سکے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم نے اپنے پیارے بیٹوں عبد اللہ ابن محمد ، قا سم ابن محمد اور ابرا ہیم ابن محمدکی جد ائی کا غم جس ہمت و بہا دری کے ساتھ بر داشت کر کے عالم انسا نیت کے لئے ایک اعلیٰ مثال قائم کرچکے ہیں۔۔ تا ریخ گواہ ہے کہ جب اٹھا رہ ماہ کی قلیل عمر میں ابر ا ہیم ابن محمد کا آخری وقت قریب پہنچا تو حضرت ما ریہ القبتیہ ؑ نے ایک صحا بی کیساتھ حضور ؐ کو پیغام بھیجی کہ آپ ؐ تشریف لا ئیں۔۔ جب آنحضور ؐ کو خبر پہنچی تو آپ ؐ کو یہ گمان گزرا کہ آپ کے گھٹنے سہا رے کے قا بل نہیں رہے ہیں ،آپ ؐ نے حضرت عبد الر حمن بن عوف کو اشارہ کیا کہ آپ ؐ کو سہا را دیا جا ئے، اُ ن کے سہا رے پر حضور ؐ کھڑے ہو ئے اورجب حضرت ما ریہ ؑ کے حجرے میں آ گئے اور ننھے ابر اہیم کو ماں کی گود میں مر تے دیکھا تو پدرانہ شفقت اور محبت سے بے قا بو ہو ئے اور اپنے ننھے فر شتے کو اپنے گود میں اُٹھا کر مخا طب ہو ئے’’ اے ابرا ہیم !! ہم خدا کی مر ضی کے خلاف نہیں ہو سکتے‘‘ آ نسو جا ری ہو ئے اور اللہ کا حبیب خا موشی سے آشک بہا تے رہے ۔۔ جب اپنے ہا تھوں سے لخت جگر کو لحد میں اُتار ا تو فر ما نے لگے کہ’’ آنکھیں آنسو بھیجتی ہیں ، دل ما تم کر تا ہے لیکن ہم اللہ کی مر ضی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے سوائے اُس کے جو ہمارے آقا کو خوش کر تا ہے، فر ما یا اے ابرا ہیم ! ہم آپ کی جدا ئی پر بہت سو گوار ہیں‘‘ جب اللہ کے حبیب پر لخت جگر کی جدا ئی آسان نہیں گزر ی تو اُن کے ایک غلام کے لئے یہ لمحہ ہر گز آسان نہیں لیکن آقا کی محبت اور غلامی ہی راہ نجات ہے اور اُن کی محبت جس دل میں ہو وہ دل دنیا کے مسا ئل و مصا ئب کے آ گے سنگ خشت بن جا تا ہے ۔۔

ظفر صاحب !! ’’ تھیئے ہیئے بے قرار میون‘‘ ( اثر وقار تاج) کو سکون کا سا گر مل گیا ہے وہ اللہ تعا لیٰ کی بے پنا ہ سا گرِ رحمت میں غر یق رحمت ہو چکا ہے۔۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ اپنے حبیب کے واسطے آپ اور آپ کے اہل و عیال کو صبرو جمیل عطا فر ما ئے۔۔( آمین)

یار زندہ صحبت با قی!!

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button