حمزہ گلگتی
دسمبر ہر بار ہمیں زخم دے جاتا ہے ۔جب بھی پیچھے کی طرف مڑکر دیکھتے ہیں توواقعات کا ایک اندوہناک تسلسل دسمبر کے ساتھ جڑی نظر آتی ہیں۔جب بھی دسمبرآیا، کوئی نہ کوئی تکلیف دہ واقعہ اپنے دامن میں لئے ہما را استقبال کیا۔پچھلے زخم ابھی مندمل نہیں ہو پاتے ہیں کہ کوئی نیا گھاؤ روح تک کو گھائل کر کے نکل جاتا ہے۔کبھی کسی نے ان زخموں پر پھاہا نہیں رکھا۔پہلے سے زیادہ چوٹ ،پہلے سے شدید گھاؤ۔پہلے کہا جاتا تھا کہ یہ قوم کچھ عرصہ بعد ا یسے بڑے واقعات کو بھول جاتی ہے مگر اب میرا نہیں خیال کہ یہ نسل ایسے زخموں کو بھول جائے۔بفرضِ محال !پھر بھی اگر ہم اپنے ماضی کے ساتھ جڑے ایسے واقعات کو بھول کر کسی اچھے اور پائیدار منصوبہ بندی سے دور رہے تو یہ عمل ہمیں ناکام قوموں کی صف میں لا کھڑا کردے گا۔نہ صرف کرب کے ان لمحات کو مستقبل میں بھول نہ جانا ہی کافی نہیں بلکہ ان سے سبق سیکھ کر ایسے واقعات کے تدارک کے لئے سب کو مل کر آگے بڑھنا از حد ضروری ہے۔
اسی دسمبرمیں ہمارا ایک بازو ٹوٹا تھا۔یہ بازو کس نے توڑا کیسے توڑا سب سامنے آچکے ہیں۔جتنے غیروں کی سازشیں تھیں اس سے کہیں بڑھ کر اپنوں کی غفلت، انانیت پرستی اور دوسروں کے سامنے جھکے جانے کا ہاتھ تھا۔ایک آزاد قوم کے راہنما جب کسی غیر کے سامنے یوں بچھ جاتے ہیں اور قوم کی غیرت و حمیت کا جنازہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں تویہ سوچ کے ہی بڑی تکلیف ہوتی ہے۔یہ غیرت مند قوم ہے۔اس قوم نے ہمیشہ غیروں کے سامنے بچھے جانیوالوں اور قومی حمیت کے سوداگروں کو مسترد کیا۔ہونگے ایسے چند ناہنجار جو غداروں کو بھی ہیروں کی لسٹ میں رکھنے پر مضر ہو۔ورنہ اس قوم کے کتنے غدار اور حمیت سے عاری پیدا ہوئے اور انکا نام ونشان مٹ گیا۔جنرل راحیل میں کیا تھا جو قوم کے نوجوان رو رہے تھے ان کی ریٹائرمنٹ پر؟غیرت تھا۔قوم کے لئے کچھ کر گزرنے کا جزبہ تھا۔قومی حمیت کا پاس تھا۔تبھی تو قوم کے سارے یک زبان ان کے نام سے محبت کرتے تھے۔ اکہتر کا واقعہ صرف بھارت کی سازش نہیں تھی۔وہ تو ٹھہرا ازلی دشمن۔دشمن گھاؤ نہ دے تو اور کیا کرے؟ کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ کوئی دشمن ہواور آپکی ترقی سے خوش بھی ہو۔ایں خیال است و محال است وجنوں!
دشمن تو وہی کرے گا جس سے آپکا نقصان زیادہ سے زیادہ ہو۔ اس سے تو توقع ہی یہی ہے۔ دشمن سے اچھائی کا سوچنا ہی بیوقوفی ہے۔کھلم کھلا دشمن سے بھی بڑھ کر نقصان دہ دوست نما دشمن ہوا کرتے ہیں۔آج عیاں دشمنوں اور دوست نمادشمنوں کے گھڑ جوڑ نے ہمیں اور حیران کر دیاہے۔ایسے میں قومی حمیت کے لئے ایک ہونے کی اور ضرورت بڑھ جاتی ہے۔دشمن کیا آج بلوچستان میں وہی منصوبے لانچ نہیں کر رہا جو مشرقی پاکستان میں کیا تھا؟کچھ غدارانِ وطن کو ساتھ ملا کر وہی پروگنڈے کا بازار گرم کر رکھا ہے جو اکہتر میں کر رہا تھا۔ آج تو وسائل کے ساتھ کمیونیکیشن کے جدید ذرائع نے انکا کام اور آسان بنا دیا ہے،تب یہ سہولیات تو عنقا تھیں۔مگرسوچئیے! ہنری کسنجر کے حالیہ بیان نے گھائل روح کو اور گھائل نہیں کردیا؟کیا کہا تب کے حکمرانوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کاوعدہ کر رکھا تھا۔کن حکمرانوں نے ؟ہمارے ہی حکمرانوں نے ۔
جب ہمارے حکمران اتنا مہربان ہو چلے تھے دوسروں پر تو کیوں اپنے فوج و قوم کو اس دلدل میں دھکیلا؟پھر کیا بنا ان مجرموں کا؟کون تھا اس کے پیچھے؟کسی کو سزا ہوئی؟کوئی تو تھا اس سانحے کے پیچھے؟جن کی وجہ سے سانحہ ہوا وہ تو سب آسائیشات کے ساتھ زندگی کی رنگینیوں کا مزا لے کے چلے گئے مگر جنہوں نے پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے قربانیاں دی آج بنگال کی ڈائن انہیں ایک ایک کر کے لٹکا رہاہے۔جرم اتنا تھا کہ وہ ملک توڑنے والوں کے راستے کا دیوا ربن گئے تھے۔کچھ تو سچ ہے جنرل نیازی کی کتاب میں؟ سارے بنگال کا تنِ تنہا مجرم وہی تھا کیا؟کہاں ہے حمودوالرحمان کمیشن کی رپورٹ؟
ایک سولہ دسمبر تو ڈھاکہ کے پلٹن میں رونما ہوا تھا ایک سولہ دسمبر عین اسی دن پشاور میں۔اللہ اللہ کیا تکلیف دہ دن تھاوہ۔آج بھی سوچ کے جرجری سی آجاتی ہے۔اتنے ظالم بھی ہوتا ہے انسان۔مگر وہ بھی ظالم ہیں جو اس دن کے زخموں سے چور اور خون کے لوتھڑوں میں لت پتے قوم کے ان نونہالوں کی تصویریں یوٹیوب میں ڈال دئیے ہیں۔آج کی نسل یوٹیوب میں ایسے ویڈیوز کو پسند نہیں کرتی اور نہ ہی اغیار کے راتب پہ پلنے والے این جی اوز ایسے واقعات پر واویلامچاتیں ہیں۔خدارا ! ہمارے بچوں کو بے قدر مت کرو۔ نہیں دیکھا جاتا ہے وہ۔تھوڑا دیکھا مگر صبر کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔اس دن کا وہ منظر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔کوئی ماں،باپ، بہن ،بھائی اگر ان ویڈیوز کو دوبارہ دیکھے تب وہ تو جیتے جی مر جائیں گے۔پشاورجیسے واقعات کے بعد بھی ہم دشمن کی سازشوں کو سمجھ کر ان کا کھوج نہ لگا ئے تو ان کاہدف اور آسان ہو جائیگا۔بھلاہو جنرل(ر) راحیل کا جنہوں نے اس قوم کو حوصلہ دیا۔مگر جانے کے بعد کچھ سازشیوں نے آپکی ذات اور کا م پر بھی کیچڑ اچھالنے کی ناکام کوشش کی۔
خدا نہ کرے کہ ایسا کوئی واقعہ اس سال پھر رونماہو۔دشمن ہمارے گھاؤ پہ گھاؤ لگانے پر تلاہوا ہے۔اب کی بار تو سی پیک فنکشنل ہونے سے ان کی اُمیدوں پر اوس پڑ گئی ہے ممکن ہے ذرا زور کا جال بننے میں لگے ہو وہ۔ہمارے حکمرانوں کو آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیے۔
اس سال کے دسمبر کا زخم پی آئی اے طیارہ حادثے کی صورت میں ہمیں گھائل کر چکاہے۔اللہ ان سب کے درجات کوبلند کرے اور پسماندگان کو صبرِ جمیل عطاء کرے۔آمین۔سب سے مشکل اور تکلیف دہ صورتحال ان خاندانوں کے لئے ہیں جن کے پیارے اس حادثے کا شکارہوئے۔نہیں معلوم ذمہ داروں کو قوم کٹہرے میں دیکھے گی یا اس کمیشن کا رپورٹ بھی منظر سے غائب ہو جائیگا۔متضاد خبروں نے سب کو الجھن میں ڈال دیاہے۔ حادثات کو روکا نہیں جا سکتا مگر اس کے پیچھے کارفرماانسانی غفلت کے مرتکبوں کا تعین کیا جا سکتا ہے تاکہ آئندہ کوئی کسی کے غفلت کی بھینٹ نہ چڑھے۔
جنید جمشید ؒ جیسا نابغۂ روزگار انسان بھی اس حادثے کا شکار ہوا۔یہ بات کہنی آسان ہے مگر عملاََ ایسے گلیمر سے بھرپور،شہرت کی بلندیوں کو چھوتی ،پیسوں کی بہتات والی زندگی کی ترجیحات کو بدل کر انسانوں کو اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی طرف بلانے نکل جانا کوئی آسا ن نہیں۔ ایک طبقہ اب بھی سوشل میڈیا میں انہیں اور ان کے محسن مولانا طارق جمیل صاحب کو گالیاں دے کر اپنے خبث باطن کا اظہارکر رہا ہے۔اللہ انہیں ہدایت دے۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button