کالمز

قائد اعظم کا پاکستان۔۔۔اور ہمارے رویے

تحریر: احمد سلیم سلیمی

ایک شخص نے خواب میں دیکھا۔ حضرتِ قائداعظم ،قومی پرچم کے سامنے نہایت مغموم بیٹھے ہیں،ان کی آنکھوں میں گہری اداسی کے سائے ہیں۔ اس شخص
نے پوچھا۔’’آپ اتنے اداس کیوں ہیں؟ہم نے تو پڑھا اور سنا ہے آپ بڑے ہی چٹانی حوصلوں کے مالک تھے۔انگریزوں کی طاقت اور ہندؤوں کی منافقت آپ کو جھکا نہیں سکی تھی۔آپ نے ان سے ٹکر لی اور ا ب تو ہمیں ایک آزاد ملک بھی نصیب ہوا ہے، پھر آپ کیوں مغموم ہیں؟‘‘

حضرت قائداعظم نے ایک گہری سانس لی اور قومی پرچم پہ نظریں جما کر بولے۔’’یہ قومی پرچم دیکھ رہے ہو،اس میں سبز رنگ کا بڑا ٹکڑا ہے اور سفید رنگ کا چھوٹا۔میں چاہتا ہوں ان رنگوں کی جگہ تبدیل کی جائے۔یعنی سفید رنگ کو بڑا اور سبز رنگ کو چھوٹا کر دیا جائے۔‘‘
اس شخص نے حیرت سے پوچھا۔’’حضرت اس وطنِ عزیز میں پچانوے فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں ۔اور سبز رنگ ان کی نشاندہی کرتا ہے، اسے کیسے بدل دیں؟‘‘
آپ نے گہرے دکھ سے فرمایا۔’’میں جانتا ہوں سبز رنگ مسلمانوں کی اکثریت کو ظاہر کرتا ہے، مگر یہ تب کی بات ہے کہ میں نے جو پاکستان آپ کے لیے چھوڑا تھا۔اس وقت ایک مسلم قوم بن کر یہ ملک حاصل کر لیا تھا۔لیکن آج یہ سب کیا ہے کہ ہر فرقہ دوسرے کو کافر سمجھتا ہےاور اک ذرا حکومت ڈھیل دے دے تو کافر کہتا بھی ہے۔ایک دوسرے کی عبادت گاہوں، عبادات اور نظریات کو سراسر خارج از اسلام سمجھتا ہے۔ جب ہر کوئی ایساہے تو مسلمان کدھر ہیں؟اور اگر اصل میں دوچار مسلمان یہاں وہاں موجود ہیں بھی تو فلاں فلاں فلاں۔۔۔اور بس فل سٹاپ!!! ایسے میں سبز رنگ کے اس بڑے ٹکڑے کی منافقت کیوں ہے؟اور منافق شخص اللہ کا ،اس کے رسولَ ََٓصلی اللہ علیہ وسلم کا اور تمہارے اس قائداعظم کا نہایت دشمن ہے۔اس لیے یا اصل مسلمان بن جاؤ یا اپنے قومی پرچم کو بدل دو۔۔۔‘‘

قارئینِ کرام۔۔۔!!!اسے محض ایک خواب کا فسانہ نا سمجھیں۔۷۰ سالوں سے یہ ملک ،جس طرح ان رویوں کی آگ میں جل رہا ہے یہ اس کا ایک حقیقت پسندانہ اظہار ہے۔
کسی مفکر نے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔’’آزاد ہونا مشکل ہے،آزادی برقرا ررکھنا مشکل تر۔‘‘ آزادی صرف یہ نہیں کہ اپنی خود مختار حکومت مل جائے۔زمین کا ایک ٹکڑا مل جائے۔اصل آزادی سوچ اور عمل کی ہے۔یعنی بدلتے حالات میں آگے بڑھنے والی قوموں کی طرح خود کو بدلنا اصل میں آزادی کا فلسفہ ہے۔

وقت بدلتا ہے تو زمانے کا مزاج بھی بدل جاتا ہے۔زندہ قومیں اسی بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ اپنا اندازِ نظر بھی بدل دیتی ہیں۔۷۰ سال پہلے کی دنیا کچھ اور تھی اور اب دنیا کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی نے ایسا انقلاب بپا کر دیا ہے کہ ہر چیز وقت سے پہلے ہڑ بڑا کر جوان ہوئی ہے۔اور ہم ۷۰ سال بعد بھی ابھی بچّے ہی ہیں۔یعنی ایسے نادان ہیں کہ درست طور پر مضبوط قدموں سے چلنے کا طریقہ ہی نہیں جانتے۔

عظیم فلسفی روسو نے کہا تھا۔’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر جہاں بھی دیکھو وہ پابہ زنجیر ہے۔‘‘ اس قول کے تناظر میں غور کریں تو ہم آزاد ہو کر بھی آزادی کی روح اور اس کے ثمرات سے محروم رہے ہیں۔جغرافیائی تصور حیات کے مطابق تو ہم آزاد قوم کہلائے۔مگر فکری ،سماجی اور مسلکی حدبندیوں میں جکڑے رہے ہیں۔فرقوں اور طبقوں میں بٹ کر اسلام کے آفاقی تصور اور قائد اعظم کے پاکستان کے حقیقی تصورِ شہریت کو سرِ عام رُسوا کراتے رہے ہیں۔امام الانبیاء کی بات ٹھکرا کر امام المساجد کی باتوں کو اہمیت دیتے رہے ہیں۔یوں ایک طرح سے جگنو پکڑنے کے خبط میں روشن سورج کے وجود سے ہی انکار کرتے رہے ہیں۔

دنیا سمٹ کر ایک تھالی جتنی بن گئی ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی نے جغرافیائی اور نظریاتی دیواریں گرا کر انسان کو انسان کے قریب کر دیا ہے۔سوچوں میں وسعت آتی گئی ہے۔سماجی ترقی اور تہذیبی شعور میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔تبدیلی …ایک تیز تر تبدیلی قوموں کے لیے ترقی اور خوش حالی کی ضامن بن گئی ہے۔۔۔

مگر قائداعظم کے اس پاکستان میں۔۔۔آج ۷۰ سال بعد یہ قوم آگے بڑھنے کے زعم میں پیچھے ہٹتی رہی ہے۔بہ ظاہر دنیا کی دیکھا دیکھی ان میں بھی تبدیلی آتی گئی۔سماجی شعور بڑھا ۔معاشی ترقی ہوئی۔علم میں اضافہ ہوا ۔تعلیمی ادارے خود رَو پودوں کی طرح گلی محلوں میں اگتے رہے۔ڈگریاں تھوک کے حساب سے بٹتی رہیں اور آگے بڑھنے کا احساس بھی پیدا ہوا مگر…
منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

تعلیمی اداروں سے نئی سوچ ،نیا انداز اور نیا وژن ملتا ہے۔ہمارے تعلیمی اداروں سے یہ صفات ملتی رہی ہوں یہ الگ بات ہے۔مگر اس سب کے ساتھ عصبیت،فرقہ واریت اور خاکبازی کی ڈگریاں بھی بے حساب ملتی رہی ہیں۔ہمارے تعلیمی اداروں سے مستقبل کے معمار کم ۔۔۔سوچ اور جذبے کے بیمار زیادہ بر آمد ہوتے رہے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں یہ نقائص ،کچھ اندر سے اور بہت زیادہ باہر سے پروان چڑھتے رہے ہیں۔تعلیمی اداروں کے اندر استاد محض تنخواہ حلال کرنے کی نیت سے پڑھاتا رہا ہے۔ایسے میں استاد اور شاگرد دونوں کولہو کے بیل کی طرح نصابی کتب کے کھونٹے سے بندھے بس ایک ہی دائرے میں گردش کرتے رہے ہیں۔ایک وسیع تر اور انقلاب پرور دنیا کے تقاضوں سے نابلد رہے ہیں۔
تعلیمی اداروں سے باہر ہمارا معاشرہ عقل و دانش سے عاری ایک فتنہ پرور،ایک فرقہ پرست اور عدم برداشت کا مظہر رہا ہے۔اور یہ اثرات سکول و کالج اوریونیورسٹی کی دیواریں پھلانگ کر کلاس رومز میں پھیلتے رہے ہیں۔ہمارے مذہبی ،سیاسی اور فکری ایوان کوڑھ کی کاشت کرتے رہے ہیں۔اور یہی کوڑھی فکر ہمارے تعلیمی اداروں کی پیداوار کو بھی متعفن بناتی رہی ہیں۔اور نتیجہ یہ کہ آگے بڑھتے بڑھتے ہمارے طلبہ اس زہریلی سوچ کے کانٹوں سے لہولہان ہو کر بہ حیثیت مسلمان اور انسان دم توڑتے رہے ہیں۔بس ایک فرقہ باز نوجوان کے طور پر اپنے ہی عقیدے اور نظریے کی بند گلی میں بھٹکتے رہے ہیں۔

اس کے ساتھ علمی اور ادبی حلقے بھی نہ چاہتے ہوئے اس کوڑھ زدہ سوچ کے کیڑوں سے گلتے سڑتے رہے ہیں۔دفاتر فرض شناسی ،ایمانداری اور قومی ہمدردی سے زیادہ بدعنوانی،بے ایمانی ،فرض ناشناسی اور خود غرضی کے جوہڑ میں لت پت رہے ہیں۔

آج کا زمانہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے۔نئی سوچ ،نئے وژن اور ایک نئے طرزِ احساس کاہے۔خاک بازی کا نہیں ،تسخیرِ کائنات کا ہے۔ٹکڑوں میں بٹنے کا نہیں،ٹکڑے ٹکڑے سمیٹ کر زمانے کو للکارنے کا ہے۔ترقی یافتہ اور زمانے میں انقلاب بپا کرتی قوموں کی شان اور انقلابی روش اختیار کرنے کا دور ہے۔مغرب ہمارے ملکوں پہ،ہمارے ذہن ودل پہ اسی علم و دانش کے سبب چھایا ہوا ہے۔ہم محض ماضی کے کارناموں کا مزار بنا کے ،اس کی عظمتِ رفتہ کا ڈھنڈورا ہی پیٹتے رہے ہیں۔عملاََ ڈھول کا پول ہیں۔اگر ہمیں زمانے کے ساتھ چلنا ہے۔سر اٹھا کے وقار کے ساتھ جینا ہے تو علم کو،برداشت کو ،محنت کو ،مثبت رویوں کو اور رواداری کو لازمی طور پر ترجیحات میں شامل کرناہوگا۔

یہی قائداعظم کی روح کا ہم سے تقاضا ہے۔یہی قائداعظم کے پاکستان کا مقصد ہے۔اور یہی آگے بڑھنے کا اصل راستہ ہے۔ جمشید دکھی صاحب کے ان اشعار کے ساتھ اپنی گزارشات کا اختتام کرتا ہوں۔
تعصب نے محبت کے یہ جذبے روند ڈالے ہیں
نہ ہم سے دل لگی ہوتی ہے نہ ہم سے پیار ہوتا ہے
مساجد آئے دن اس شہر میں تعمیر ہوتی ہیں
ولیکن کعبہء دل ہر گھڑی مسمار ہوتا ہے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button