کالمز

ویلکم سینیٹرز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویلکم 

تحریر: ایمان شاہ

ویلکم سینیٹرز ویلکم ۔۔۔۔۔۔۔بجلی ، پانی ، صحت ، تعلیم سمیت بنیادی آئینی حقوق سے محروم خطہ بے آئین گلگت بلتستان کے باسی آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔

8اگست بروز پیر اسلام آباد سے پی آئی اے کی فلائیٹ میں آپ کا سفر یقیناًخوشگوار گزراہوگا گلگت ائیرپورٹ پر روایتی انداز میں آپ کا پرتپاک استقبال انتظامی آفیسران نے کیا ہوگا ۔

آپ کی بیگمات بھی آپ کے ہمراہ ہیں اور گلگت بلتستان کی پر فضا مقامات کی تفریح کے لئے یہ ایک نادر موقع ہے آپ کی آمد اہلیان گلگت بلتستان کے لئے اس لئے بھی خوشگوار ہوا کے جھونکے کی مانند ہے کہ 7اگست تک شدید گرمی تھی اور جب آپ کا طیارہ گلگت ائیرپورٹ پر لینڈ رکررہا تھا تو تیز بارش ہورہی تھی اور موسم بے حد خوشگوار ہوگیا ۔

قومی شاعر جمشید خان دکھی ان اشعار کے ساتھ آپ کا استقبال کررہا ہے

میری دھرتی تو میری آبرو ہے

تیری تصویر پیہم روبرو ہے

تیری رعنائیوں اور خوشبوؤں میں

میرے اسلاف کا شامل لہو ہے

پتہ سسرال کا دوتو خبر لیں

میری ماں تو بتا کس کی بہو ہے

سینیٹرز۔۔۔۔ آپ نے یقیناًجنگ آزادی گلگت بلتستان کے شہداء کی یادگار پر حاضری اور پھولوں کی چادر چڑھانے کے بعد فاتحہ خوانی بھی کی ہوگی اور ان رسومات کی ادائیگی کے دوران تھوڑی دیر کے لئے آپ کے ذہنوں میں آیا ہوگا یا انتظامیہ کے کسی آفیسر نے آپ کو بریفنگ دی ہوگی کہ ان شہداء نے اور جنگ آزادی گلگت بلتستان کے ہیروز نے اپنی جانوں کا نذرانہ کیوں پیش کیا اور انتہائی بے سروسامانی اور کسمپرسی کے عالم میں 72ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ ڈوگروں سے آزاد کراکر مملکت خداد پاکستان کے ساتھ غیر مشروط طور پر الحاق کا فیصلہ کیوں کیا ۔

اگر کسی نے آپ کو نہیں بتایا تو آپ کی خدمت میں مختصراً عرض ہے کہ جن شہداء کی یادگار پر آپ گئے تھے اور جنگ آزادی کی قبروں پر پھولوں کی چادر آپ (سینیٹرز) نے چڑھائی ہے اور فاتحہ خوانی کی ان شہداء نے اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے مملکت خداد پاکستان میں شمولیت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانے پیش کئے تھے آپ کو اس بات کا یقیناًعلم ہوگا کہ 69سال بعد بھی ان شہداء کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کیا گیا اور اس خطے ( گلگت بلتستان ) میں بسنے والے 15لاکھ مسلمان گزشتہ 69سالوں سے پاکستان میں شمولیت کے لئے جدوجہد کررہے ہیں اور دنیا کا واحد علاقہ ہے جو کسی ملک کے ساتھ شامل ہونے کی جنگ لڑرہاہے ورنہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں ۔

ویلکم سینیٹرز ، ویلکم

یہاں ایک اور شعر یاد آرہا ہے

خموشی میں بھی کوئی مصلحت ہے

میرے اہل وطن بزدل نہیں ہیں

جو کتوں کوحقوق یورپ نے بخشے

یاں انسانوں کو بھی حاصل نہیں ہیں

آئینی حقوق سے آگے بڑھتے ہیں سینیٹرز! آپ جس خطے میں قدم رنجہ فرما چکے ہیں میں بسنے والے15لاکھ سے زائد عوام کو ایم آر آئی (MRI)کی سہولت میسر نہیں، ہیڈ انجری(Headinjury)ہو تو مریض تڑپ تڑپ کر جان دیتا ہے کیوں کہ نہ ایم آر آئی (MRI)کی سہولت موجود ہے اور نہ ہی نیورو سرجن۔۔۔۔۔۔۔

اس خطے کے باسی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، ملٹی نیشنل کمپنی کا منرل واٹر آپ کا منتظر ہوگا ، لیکن میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جس شہر (گلگت) میں آپ موجود ہیں کے عوام کو دیا جانے والا پانی اگر آپ پینے کی ہمت کریں گے تو ڈائیریا لگنے میں چند منٹ سے زیادہ وقت نہیں لگے گا، لیکن یہ سن کر آپ کو حیرت ہوگی کہ پورے پاکستان کو سیراب کرنے والے خطے (گلگت بلتستان) کے باسی پانی اور بجلی کو ترس رہے ہیں۔ پانی، صحت اور بجلی سے محروم خطے میں آپ کی آمد ہمارے لئے باعث مسرت ہے۔

ویلکم سینیٹرز، ویلکم۔۔۔۔۔

یقیناًکچی پکی سڑکوں پر آپ کو گزرنے کے تجربے کا بھی سامنا کرنا پڑے گا، اس خطے کے صدر مقام گلگت کی ایک بھی سڑک صحیح حالت میں موجود نہیں ہے،آپ کو صوبائی انتظامیہ نے لگژری گاڑیاں فراہم کی ہوں گی لیکن ان ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر چلتے ہوئے آپ نے تکلیف محسوس ہوگی تو سرزمین بے آئین کے عوام آپ سے معذرت خواہ ہیں۔۔۔۔

ویلکم سینیٹرز، ویلکم

میری نظروں سے آپ کے دورے کا شیڈول بھی گزرا ہے، دو دن کیلئے گلگت بلتستان کے ایک اور پرفضاء مقام آپ کی آمد کا منتظر ہے۔ ہنزہ کے پڑھے، لکھے، محنتی اور جفاکش عوام جو تمام تر بنیادی انسانی سہولتوں سے محروم ہیں آپ کو خوش آمدید کہنے کیلئے بے تاب ہیں۔

ویلکم سینیٹرز۔۔۔۔ ویلکم

10تاریخ کو آپ اپنی بیگمات کے ہمراہ ہنزہ پہنچیں گے، آپ کو جس ہوٹل میں ٹھہرایا جائے گا اس ہوٹل کا جنریٹر24گھنٹے آپریشنل رکھا جائے گا اور آپ یوں محسوس کریں گے جیسے ہنزہ میں بجلی ایک منٹ کیلئے بھی نہیں جاتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے، ہنزہ کے عوام کو24گھنٹوں میں صرف2گھنٹے بجلی میسر ہے اور اس علاقے کے جفاکش عوام کو22گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، اس علاقے میں میر غضنفر علی خان نامی ایک مشہور شخصیت کا محل بھی ہے، ہنزہ کے عوام اس شخصیت کو7مرتبہ ووٹ کی طاقت کاانجکشن دے چکے ہیں اور اس علاقے کے عوام کی ووٹ کی طاقت سے صوبے کے اعلیٰ ترین عہدے چیف ایگزیکٹیو اور اس وقت گورنر گلگت بلتستان کی حیثیت سے دن رات عوامی خدمت کرنے میں مگن ہیں۔ آپ اس سیاسی شخصیت کے محل میں ضرور جائیں گے کیوں کہ پاکستان کی ایسی کون سی طاقت ور شخصیت یا شخصیات ہیں جو ہنزہ آکر’’میر پیلس‘‘ کے یاترا سے محروم رہے ہوں گے۔ گلگت کے باسیوں کی طرح بجلی اور پینے کا صاف پانی سے محروم اس علاقے میں آپ دو دن گزاریں گے، میر پیلس میں موجود میر غضنفر علی خان کے چیلے چانٹے آپ کی خوشامد اور چاپلوسی کریں گے اور آپ کو سب اچھاکی رپورٹ دیں گے اور ہم جیسے سرپھروں کیلئے جو الفاظ استعمال ہوں گے، وہ ناقابل بیان ہیں۔

سینیٹرز۔۔۔۔۔ آپ جمگماتی گاڑیوں اور پورے پروٹوکول کے ساتھ خنجراب ٹاپ پر بھی جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔ وہاں پہنچ کر پاکستانی چیک پوسٹ کی حالت زار جبکہ چائینز چیک پوسٹ کی طمطراق دیکھ کر یوں تو ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے، اگر آپ کا سر شرم سے جھک نہ جائے تو اس میں قصور آپ کا نہیں، اس نظام کا ہے۔

ویلکم سینیٹرز۔۔۔۔۔۔۔ ویلکم

جی ہاں میں تو بھول گیاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔11اگست 2011ء کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کی شاہی سواری نے علی آباد سے گزرنا تھا، سانحہ عطاء آباد کے متاثرین نے وزیر اعلیٰ کو چند مطالبات پیش کرنے تھے، چند متاثرین نے اپنے حق کیلئے روڈ پر آنے کی گستاخی کی ، پولیس کو جوش آگیا، نہتے متاثرین پر فائرنگ کی، باپ ، بیٹا شہید ہوگئے اور دنیا کا واحد کیس ہے جس میں قاتل دندناتے پھررہے ہیں اور مقتول پارٹی کو سزاء ہوگئی ہے۔

ویلکم سینیٹرز، ویلکم

اس شعر کے ساتھ اجازت

سرتن سے جدا ہو بھی تو ہم حق کے بچاری

’’جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے‘‘

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button