کالمز

چترال اور دیر کے درمیان ٹریفک کا مسئلہ

بشیر حسین آزاد

چترال میں سب سے زیادہ جس بات پر بحث کی جاتی ہے وہ دیر کے راستے ٹریفک ہے۔اس ٹریفک کا ایک مسئلہ تو لواری ٹنل ہے۔مگر لواری ٹنل سے بھی بڑا مسئلہ اڈوں اور گاڑیوں کا انتظام ہے۔کرایوں کے نرخ نامے پر عمل درآمد ہے نہ قانون کی عملداری ہے۔اور یہ مسئلہ کسی بھی طرح حکومت یا انتظامیہ کے قابو میں نہیںآتا۔دیر سے چترال کیلئے ایک من سامان کا کرایہ سرکاری نرخ سے زیادہ کرکے 100یا115روپے لیا جاتا تھا۔ٹاپ کا راستہ مشکل تھا۔مزدا کے5گھنٹے یا6گھنٹے لگتے تھے۔مزاد گاڑی کو ٹنل سے آنے میں4گھنٹے لگتے ہیں مگر کرایہ200روپے من لیا جاتا ہے اور اب مزید مطالبہ کررہے ہیں کہ کرایہ300روپے کیا جائے۔اس کا کوئی پُرسان نہیں ہے۔اس کی کوئی خبر گیری نہیں ہے۔اسی طرح سواری کی گاڑیوں کے کرایے دگنے کردیے گئے ہیں۔غواگئے،رافور اور فیلڈرگاڑیاں 600یا 800روپے کی جگہ 1300یا1800روپے لیتی ہیں۔بکنگ کیلئے 5000کی جگہ10ہزار12ہزارروپیہ لیا جاتا ہے۔طریقہ واردات یہ ہے کہ اڈے میں گاڑیوں کو چھپایا جاتا ہے۔ڈرائیور موجود ہوتا ہے۔گاڑی نہیں ہوتی۔یا ڈرائیور بھی گاڑی کے ساتھ غائب ہوجاتا ہے لوگ مجبور ہوکر منہ مانگے کرایے دیتے ہیں تو ڈرائیور اور گاڑی دونوں حاضر ہوکر سواری کو اُٹھالیتے ہیں۔مصنوعی قلت پیدا کرکے ریٹ چڑھائے جاتے ہیں۔گرم چشمہ ،تورکھو،مستوج یا موڑکہو کے دور دراز علاقوں سے آکر ہوٹلوں میں ٹھہرنے والے لوگ مجبوراًکرایہ برداشت کرلیتے ہیں۔موقع پر تحصیل کونسل،ضلعی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کا کوئی اہلکار موجود نہیں ہوتا۔دوسرا بڑا مسئلہ پشاور سے رات کے وقت سفر کر نے والی گاڑیوں کا ہے۔ڈرائیوروں کو نیند آنے کی وجہ سے کئی حادثات بھی ہوئے ہیں۔جنرل فضل حق کے زمانے میں چترالی بازار میں آزاد سرائے کو میر احمد بلبل نے اڈہ کے لئے استعمال کیا۔آزاد سرائے میں ٹکٹ دے کر قصہ خوانی کے باہر گاڑیاں کھڑی کی جاتی تھیں۔دن کے وقت سفر ہوتا تھا۔پھر قصہ خوانی میں کئی اور اڈے بن گئے۔جمشید ہوٹل،الرحیم ہوٹل،پیپل وانی مسجد اوردیگر مقامات پر اڈے قائم ہوئے۔کابلی پولیس اور ٹریفک پولیس کے ساتھ لب جب کرکے شام کو گاڑیاں نکالنے لگے۔اب30یا 40گاڑیاں شام کو نکلتی ہیں۔حاجی کیمپ میں عارضی سٹینڈ ہوائی طریقے سے لئے گئے ہیں۔باقاعدہ نہ ٹکٹ گھر ہے نہ سٹینڈ ہے نہ ٹھیکہ دار اور منشی ہے۔قصہ خوانی کے اڈے،حاجی کیمپ اور لاہور اڈہ سے شام کے وقت نکالتے ہیں۔اس میں اڈہ والوں کو دو ڈھائی ہزار روپے کی بچت ہوتی ہے۔اور یہ بچت ہر گاڑی پر ہوتی ہے۔یہ لوگ پولیس چیکنگ ،اڈہ فیس اور بھتہ سے بچنے کے لئے رات کے اندھیرے میں دھندہ کرتے ہیں۔مگر اس دھندے میں مسافروں کو تکلیف ہوتی ہے۔بوڑھے،بیمار،عورتیں اور بچے رات بھر تکلیف اُٹھاتے ہیں ۔صبح 3بجے سے شام5بجے تک دیر اور ٹنل پر گذارتے ہیں۔خراب موسم میں رات بھی آجاتی ہے۔منگل 24جنوری کو شدید بارش میں ہوٹلوں کے اندر بھی جگہ نہ ملی۔تو دیر کے تحصیل ناظم میر مخزن الدین اور ضلع ناظم صاحبزادہ فصیح اللہ نے لوگوں سے اپیل کی کہ مسافروں کو گھروں میں جگہ دی جائے چنانچہ 10فلائنگ کوچوں کے مسافروں کو25گھروں میں ٹھہرایا گیا۔الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکاروں نے مسافروں کی خدمت کی۔جماعت اسلامی دیر کے کارکنوں نے انتظامیہ کے ساتھ رابطہ کرکے راستے کو صاف کرنے میں مدد دی۔مگر ہر منگل اور جمعہ کو ایسا نہیں ہوگا۔اس لئے پشاور کے اندر قصہ خوانی میں قائم غیر قانونی اڈوں کو ختم کرکے مسافروں کے لئے حاجی کیمپ اڈہ سے صبح کے وقت چلنے والی گاڑیوں کا انتظام بہت ضروری ہے اور یہ عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے ۔پشاور کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس حکام اگر چاہیں تو24گھنٹوں میں یہ انتظام ہو سکتا ہے۔چترال کی ضلعی انتظامیہ کو بھی اڈوں کے سلسلے میں فعال کردار ادا کرنا چاہیئے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button