کالمز

مسلم لیگ کی حکومت: وعدے۔اعلانات اورکارکردگی

تحریر : دردانہ شیر

پاکستان مسلم لیگ کی وفاق میں حکومت میں آنے کے بعد گلگت بلتستان کے عوام کو مسلم لیگ کی حکومت سے بڑی توقعات وابسطہ تھی۔ چونکہ پاکستان مسلم لیگ کے قائد اور وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے ملک کے دیگر صوبوں میں اپنے سابق دور اقتدار اور موجود ہ دورحکومت میں شاہراہوں کا جال بچھایا تھا جن میں اسلام آبادسے لاہور موٹر وے، پشاور موٹر وے، راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس اور ملک کے دیگر صوبوں میں درجنوں سڑکوں کی تعمیر شامل ہے۔ جب وفاق میں مسلم لیگ کی حکومت بنی تواس وقت گلگت بلتستان میں صوبائی حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی تھ۔ی جب گلگت بلتستان میں صوبائی الیکشن ہوئے تو گلگت بلتستان کے عوام نے بھی علاقے میں تعمیرو ترقی کے لئے وفاق میں بننے والی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے گلگت بلتستان کے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو ووٹ دیکر کامیاب کرایا اور سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی چوبیس نشستوں میں سے صرف ایک سیٹ لینے میں کامیاب ہوئی۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) نے کسی اور پارٹی کو شراکت اقتدار کرنے کی کوشش تک نہیں کی چونکہ صوبے میں حکومت بنانے کے لئے ان کے پاس مطلوبہ تعدادسے زیادہ ممبران موجود تھے۔ صوبے کے عوام بہت خوش تھے کہ اب ایک طرف وفاق میں مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار ہے تو دوسری طرف گلگت بلتستان میں بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی ہے اور اب یہ علاقہ تروقی کے میدان میں بہت اگے نکل جائیگا اور علاقے میں شاہراہوں کا جال بچھایا جائے گا اور خطے سے بیروزگاری کا خاتمہ ہوگا سکردو روڈ کی تعمیر ہوگی، استور سے مظفر آباد تک شاہراہ تعمیر ہوگی، گلگت سے غذر تک ایکسپریس وے بنایا جائے گا، صوبے کے عوام کو دیگر صوبوں کے برابر لانے کیلئے گلگت ایئر پورٹ بنایا جائے گا تاکہ اس علاقے میں بھی بوئنگ سروس شروع ہو۔ مگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت وفاق میں اقتدار میں آئے تین سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے اور گلگت بلتستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کوڈیڑھ سال پورے ہوگئے ہیں مگر دونوں حکومتوں کی اگر گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات کو اگر دیکھا جائے تو کوئی ایسا انقلابی اقدام خطے کی ترقی کے لئے نہیں اٹھایا گیا ہے جس کی تعریف کی جائے۔ گلگت چترال روڈ کو ایکسپریس وے بنانے کی بات تو بہت دور کی بات ہے گاہکوچ سے غذر کی حدور تک روڈ کی توسیعی کے لئے سابق چیف سیکریٹری سکندر سلطان راجہ نے بیس کروڑ روپے منظور کئے تھے جس کی تعمیر کا کام پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق صوبائی حکومت میں شروع ہوا تھا مگر روڈ میں کام کی رفتار کا جائزہ لیا جائے تو اب تک صرف دس کلومیٹر روڈ کو میٹل کیا گیا ہے جبکہ جو خطرناک موڑ تھے ان پر بھی کام نہیں ہورہا ہے۔ جبکہ2016میں نہ جانے وزیر اعلی کو خوش کرانے یا عوام غذر کو بیوقوف بنانے کے لئے گورنجر کے قریب گلگت چترال ایکسپریس وے کے نمونے کے طور تین ماہ کا طویل عرصے میں دوہزار فٹ کی ایک پٹی بنا دی گئی جس کے بعد تعمیراتی کمپنی نے مزید کام جاری نہیں رکھا اور اس طرح یہ بیس کروڑ روپے کدھر خرچ ہوگئے اس کے بارے میں محکمہ تعمیرات کے حکام ہی جواب دے سکتے ہیں۔

دوسری طرف وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے گلگت میں سنیئر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ گلگت سے گاہکوچ تک کے کے ایچ طرز کا ایک روڈ بنایا جارہا ہے جس کا ٹینڈر رواں سال کے پہلے ہفتے میں ہوگا اور اس اہم شاہراہ کی تعمیر پر ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت آئیگی اور اس سڑک کی تعمیر کے لئے پیسے گلگت بلتستان کے ترقیاتی بجٹ سے دیا جائے گا۔ جنوریآیا نہ تو اس روڈ کا کوئی ٹینڈر ہوا اور نہ ہی سابق چیف سیکرٹری کے دور میں جاری کردہ بیس کروڑ روپے کی لاگت سے گاہکوچ سے بیارچی تک بننے والی سڑک پہ کام بند ہونے کی وجوہات معلوم ہوسکی۔ اگر گلگت سے غذر تک کے کے ایچ طرز سڑک کی تعمیر کرنی تھی تو اس کے ٹینڈر میں تاخیر کی کیا وجہ ہے۔ اب تو اخبارات میں اس طرح کی خبریں آنا شروع ہوگئی ہے کہ غذر روڈ کے لئے مختص رقم کسی اور پراجیکٹ پر خرچ کیا جارہا ہے۔ یہ بات کہاں تک درست اس کا جواب تو موجودہ حکمران ہی دے سکتے ہیں۔ دوسری طرف سکردو شاہراہ کی تعمیر کا ہے یہ روڈ آثار قدیمہ کا منظر پیش کر رہا ہے جگہ جگہ روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور دفاعی اہمیت کا حامل یہ شاہراہ کی تعمیر کے حوالے سے ٹینڈرہونے کی نوید سنائی گئی تھی مگر اب تک باقاعدہ طور پر اس شاہراہ کی تعمیرکے کام کاآغاز نہیں ہوا ہے۔ دوسری طرف موجودہ حکمرانوں استور سے مظفر آباد روڈ بنانے کے اعلانات کرتے رہے مگر استور روڈ کی جو قابل رحم حالت اب بنی ہے اس پر بھی حکمرانوں نے چھپ سادہ لی ہے۔ اگر وفاق اور گلگت بلتستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن)کی حکومت کے دوران گلگت بلتستان میں تعمیر وترقی کے حوالے سے ہونے والے کاموں کا اگر جائزہ لیا جائے تو صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت نے کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھا یا جو قابل تعریف ہو گلگت چترال روڈ ،شونٹر مظفراباد شاہراہ اور سکردوروڈ کی تعمیر تو دور کی بات ہے غذر سے بیارچی روڈ،شاہراہ قراقرم سے تانگیر روڈ اور داریل روڈ بھی موجودہ حکومت پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکی تو ایسے میں ملک کے دیگر صوبوں کا ملانے والے شاہراہوں کی تعمیر کے حوالے سے سوچنادیوانے کے خواب کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا جبکہ دوسری طرف گلگت غذر روڈ ہے جہاں 2010کے سیلاب میں یہ روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا تھا چھ سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا تاحال اس روڈ سے ملبہ تک نہیں ہٹایا گیا اور شروٹ سے گلگت تک روڈ کی جو حالت بنی ہے اس سے اندازہ ہر کوئی جو اس روڈ پر سفر کرتے ہیں بخوبی لگاسکتے ہیں کہ جو حکومت ہرپون کے مقام پر دوسو فٹ ایریا میں گرنے والے ملنے کو چھ سال گرزنے کے باجود بھی نہیں ہٹوا سکتی ایسی حکومت سے بڑے منصوبوں کی تعمیر
کے حوالے سے سوچنا اپنا ٹائم ضائع کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔

اب بھی وقت ہے کہ گلگت بلتستان کی حکومت سی پیک سے فائدہ اٹھانے کو کوشش کرے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو آنے والے الیکشن میں جو حالت سابق انتخابات میں پی پی کی ہوئی تھی آنے والے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی حالت اس سے بھی بدتر ہوگی چونکہ اب خطے کے عوام باشعور ہوگئے ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ ڈیڑھ سالوں میں موجودہ حکومت نے کوئی ایسا تعمیراتی کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچایا۔اب عوام حکومت کے مزید تین سالوں کی طرف دیکھتے ہیں ان تین سالوں میں موجودہ صوبائی حکومت اپنی کیا کارکردگی دیکھاتی ہے اگر سلسلہ ایسا ہی چلتا رہا تو انے والے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ یگا۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button