کالمز

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

آہ
آسمان علم ادب کا ایک درخشان ستارہ اور روشن باب ہمیشہ کے لئے دنیا بھر میں ہزاروں کی تعداد میں علم کی شمع روشن کر کے رہتی دنیا تک اپنی نشانیاں چھوڑ کر ہم سے ہمیشہ لے لئے رخصت ہو گئے ۔یقیناًزندگی میں آپ کو چند ایسے انمول شخصیات کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل ہو ا ہوگا جن سے ملاقات کے بعد آپ نے محسوس کیا ہوگا آپ صرف ایک فرد واحد سے نہیں بلکہ اپنی زات میں انجمن ایک ایسی شخصیت جن کے اندر جہان ہائے جہان کے لئے دکھ درد پوشیدہ ہیں سے ملاقات ہوئی ہو اور پھر وہ ملاقات آپ زندگی بھر نہیں بھول سکتے یہی کچھ اس بندہ ناچیز کے ساتھ بھی ہوا جون 2015گلگت بلتستان کے عام انتخابات کے دوران مرحوم و مغفور سرمایہ علم ادب سابقہ ڈی ڈی او محکمہ تعلیم بلتستان صدارتی ایوارڈ یافتہ پرنسپل دارالسیدتین پبلک سکول اینڈ کالج مہدی آباد ماسٹر غلام رضا صاحب کچھ معززین کے ساتھ کتی شو تشریف لائیں اورمیرے کسی عزیز بچے کے ذریعے پیغام ملا ماسٹر صاحب نے آپ اور محترم فدا علی بھائی سے ماسٹر وزیر غلام محمد صاحب کے گھر پر ملاقات کے لئے بلایا ہے میں چونکہ ان کے علمی خدمات سے خوب واقف تھا اور علاقے میں بھی ان کی عزت اور احترام کا ہر خاص و عام قائل تھا پریشان ہوا کہیں استاد محترم ہمیں اپنی سیاسی نظریات پر نظر ثانی کا حکم نہ دیں خیر اس گھبراہٹ کے ساتھ ان کے خدمت میں حاضر ہوا اور کافی دیر تک علم و ادب اور علاقے کے اندر علمی مسائل اور سکولوں میں اساتذہ کی کمی کے حوالے سے گفتگو ہوئی اور علاقے میں اساتذہ کی کمی کے خلاف چلائی گئی تحریک پر خوب داد دی اور آئندہ اس تحریک میں رہنمائی کرنے کا وعدہ بھی کیا اور آہستہ آہستہ سیاست پر بھی گفتگو ہوئی اور سیاست میں افہام وتفہیم اور بردباری سے کام لینے کا مشورہ بھی دیا اور میری کچھ شکایات سننے کے بعد مجھ سے الیکشن ختم ہونے کے بعد بھی ملاقات کرنے اور کچھ شکایات عمائدین مہدی آباد تک پہنچانے کا وعدہ بھی کیا کچھ شکایت سے اتفاق بھی کیا اور کچھ سے اختلاف بھی خیرمیری ملاقات ختم ہوئی میں ان کو خدا حافظ کہنے کے لئے ان کے ساتھ کافی دور تک گیا اس چند لمحے کی ملاقات نے مجھے اپنی ذاتی زندگی میں انتہائی تبدیلی محسوس ہوئی اور علامہ اقبال کے اس شعر کا حقیقی مفہوم سمجھنے میں بھی آسانی ہوئی
َ؛نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اور پھر اس دن سے لے کر آج تک میں ان کے علمی خدمات کے ساتھ ذاتی شخصیت سے بھی کافی متاثر ہوا اور جب 5مارچ2017 کو رات گئے مجھے سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ وہ اس دنیا میں ہمارے درمیاں موجود نہیں رہے تو انتہائی دکھ اور غم کی کیفیت میں ان کی زندگی پر سوشل میڈیا کے لئے کچھ لکھنے لگا تو ہاتھ کانپنے لگے اور ضمیر نے اپنے آپ کو ایک انتہائی اعلیٰ علم و ادب اور انسانیت کے خدمت سے وابستہ شخصیت کے متعلق لکھنے کا حق ادانہ ہونے کے خدشے سے آگاہ کیا اور اپنی جسارت اور نادانی کا احساس بھی ہوا ۔آج میں ان کی خدمات پر تو پھر اسی خوف کے ساتھ کچھ نہیں لکھ رہا صرف اس یادگار ملاقات کا زکر کرنا مقصود تھا خدمات کا خلاصہ لکھوں تو مرحوم اپنے شعبے کے ساتھ دیانتداری اور انصاف سے کام لینے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے علمی میدان میں ان کی خدمات صرف کھرمنگ مہدی آباد تک محدود نہیں تھا بلکہ پورے گلگت بلتستان میں دوران سروس جہاں کہیں بھی بھیجتے انتہائی خوشی سے جاتے اور ہر جگہ اعلیٰ معیاری تعلیم کو فروغ دینے کے ساتھ اس شعبے کے ساتھ دیانتداری کی اعلیٰ مثال بھی قائم کرتے آئے مرحوم علمی میدان میں علاقے کا واحد صدارتی ایوارڈ یافتہ تھے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خدمت کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے دارالسیدتین پبلک اسکول اینڈ کالج مہدی آباد میں بلتستان بھر سے دو سو پچاس سے ذائد یتیموں کی تربیت کی ذمہ داری بھی قبول کی امامیہ آرگنائزیشن میں مذہبی اور ملی خدمات بھی انجام دیتے رہے گلگت بلتستان کے علمی حلقوں میں مرحوم ماسٹر محمد ابراہیم تبسم کے بعد نہ پر ہونے والا خلا ہے ان دونوں شخصیات کی وفات نے 2016اور 2017میں پورے گلگت بلتستان کے علمی فضا کو سوگوار کیا مجھے ایک اور دکھ اور افسوس یہ بھی رہے گا زندگی بھر وہ یہ ہے میرے علم میں نہیں تھا وہ بیمار تھے جس کی وجہ سے ایک ایسی شخصیت جنہوں نے اپنی زندگی علم و ادب اور غریب پروری کے لئے وقف کر رکھا تھا عیادت کے لئے ایک فون بھی نہ کر سکا اور آج ان کی وفات سے جہاں علاقہ اور خصوصا دارالسیدتین مہدی آباد کے طلاب عزیز اور دنیا بھر میں مقیم ان کے شاگردوں جو ان سے علم کی دولت حاصل کرنے کے بعد دنیا بھر کے مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں بھی ایک شفیق اور مہربان استاد سے محروم ہوگئے وہیں گلگت بلتستان بھی ایک دانشور اور ماہر تعلیم جن کا معاشرے کی ترقی و تعمیر میں بنیادی کردارہے محروم ہو جو کہ ایک بہت بڑے سانحے سے کم نہیں ہم خدائے مہربان سے دعاکرتے ہیں بحق باب مدینہ علم ان کے قبر کونور علم سے منور اور ن کے درجات کو بلند اور قیامت کے دن علم کو ان کے لئے توشہ آخرت قرار فرما اور ان کے شاگردوں اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرما اور میں خصوصی طور پر ان کے بھائیوں بیٹوں اور بیٹیوں کی خدمت میں تعزیت بھی پیش کرتا ہوں اور مجھے یقین کامل ہے انشا اللہ ان کی خدمات کو محکمہ تعلیم گلگت بلتستان بالخصوص پورا کھرمنگ اور ا ہلیان مہدی آباد ہمیشہ کے لئے یاد رکھیں گے جب تک اس دنیا میں ایک بھی ان کے شاگرد موجود ہوں
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button