کالمز

کتابوں کی دنیا 

’’کتاب میلہ ‘‘ہر سال 22اپریل سے 24اپریل تک منعقد ہوتا ہے نیشنل بک فاؤنڈیشن نے 2010 میں پہلا کتاب میلہ اسلام اباد میں منعقد کیا تھا آٹھواں کتاب میلہ 2017ء میں اُسی آب و تاب کے ساتھ منعقد ہوا اس سال کتا ب میلے کا مرکزی خیال بہت با معنی تھا ’’کتاب ،زندگی ،اُمید ،روشنی ‘‘اختتامی اجلاس کے مہمان خصوصی منصوبہ بندی اور ترقی کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے بات اسی نکتے سے شروع کی انہوں نے کہا کہ اُمید روشنی اور ز ندگی دراصل کتاب کا محور ومنشا ہے شیر کو باور کرایا جائے کہ تم بھیڑ ہو تو وہ بھیڑ جیسا ہو جاتا ہے بھیڑ کو حوصلہ دیا جائے کہ تم شیر ہو تو وہ شیر بن جاتا ہے میڈیا اگر مایوسی پھیلانے کا کام کر لے تو مایوسی پھیل جاتی ہے ملک کے دانشور اگر حوصلہ ،اُمید اور روشن مستقبل کی بات کریں تو قوم کا حوصلہ بلند ہو جاتا ہے علامہ اقبال نے اسی لئے کہا ۔

شاعر کی نو ا ہو یا مغنّی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہووہ باد سحر کیا

کتاب میلے کا افتتاح صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ممنون حسین نے کیا اپنی تقریر میں صدر مملکت نے روایتی کلمات کے بعد مولانا الطاف حسین حالی کا کلام سنا کر بیحد داد حاصل کی۔ کتاب میلے میں ملک بھر سے 800ادیبوں ،شاعروں اور دانشوروں نے شرکت کی اسلام اباد اور راولپنڈی کے 18سکولوں کے طلبا اور طالبات نے کتابوں کے ساتھ محبت اور کتاب دوستی کی مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیا میلے میں پاکستان بھر سے چوٹی کے 149 پبلیشر ز نے بک سٹال لگائے پشاور کی ہند کو اکیڈیمی کا سٹال لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا علمی اور مختلف ادبی مو ضوعات پر 80نشستوں میں ملک بھر سے آئے ہوئے دانشوروں نے اظہار خیال کیا۔

اردو افسانہ اور نئے افسانوی مجموعوں پر بھر پور نشست ہوئی۔ اصغر ندیم سید نے کہا کہانی کو لکھنے والا ڈھونڈکر نہیں لاتا بلکہ کہانی خود لکھنے والے کو ڈھونڈتی ہے اور اپنے آپ کو لکھواتی ہے فریدہ حفیظ نے کہا راشد الخیری ،ڈپٹی نذیر احمد ،سجاد حیدریلدرم کے دور سے اب تک کہانی نے کئی کروٹیں لیں ترقی پسند ادب نے کہانی کو نئی جہتیں دیں منٹو اور ان کے ہم عصرون نے ارودو ادب کو عالمی ادب میں مقام دلوایا علامتی کہانی نے افسانوی ادب میں نئے تجربات متعارف کرائے اب یہ ضروری نہیں رہی کہ کہانی میں ’’کہانی ‘‘بھی ہو اصغرندیم سید نے انتظار حسین کا حوالہ دے کر اس بات سے اتفاق کیا۔

ناصر علی سید اور عنایت اللہ فیضی نے خیبر پختونخوا میں کہانی کے سفر کی روداد سنائی کتا ب خوانی کی نشست بیحد دلچسپ رہی ادیبوں اور دانشوروں نے اپنے پسندیدہ نثر پارے یا اپنی شگفتہ اور زندہ تحریریں پڑھ کر داد و تحسین حاصل کی افتخار عارف نے صدارتی کلمات میں کہا کہ بڑا دانشور پہلے مقامی رنگ میں رنگا ہوتا ہے تب جاکر آفاقی ادب تخلیق کرتا ہے جس ادب پارے میں مقامیت نہ ہو اُس میں آفاقیت نہیں آسکتی نثری ادب پاروں کی نشست میں محبوب ظفر نے افتخار عارف سے تماشہ والی غزل سنا نے کی فرمائش کی تو ہال سے تالیا ں بجائی گئیں اب چارہ نہیں تھا غزل سنا ئی گئی

مٹ جائینگے ہم کیا جب تماشا ختم ہو گا
میرے معبود آخر کب تما شا ختم ہو گا
تماشہ کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا

علاقائی زبا نوں کی نشست بھی بھر پور تھی سندھی ،بلوچی اور سرائیکی ادب پر سیر حاصل بحث ہوئی ،کھورا،شینا ،بلتی ،بروشسکی کا تذکرہ ہوا پروفیسر ممتاز حسین نے رنگ جمایا ،پشتو کے حوالے سے ملک ظاہر جان اور ہندکو پر ڈاکٹر نذیر تبسم نے اظہار خیا ل کیا۔

ایک نشست غیر ادبی اور غیر علمی تھی مگر اس میں جو گرما گرمی ہوئی اُس نے علمی اور ادبی نشستوں کو مات دیدی یہ نشست چائنہ پاکستان اکنامک کو ریڈور (CPEC) اورپاکستانی معیشت پر اس کے اثرات پر تھی واپڈا کے سابق چیرمین انجینئر شمس الملک نے توانائی کے حوالے سے اپنے دلچسپ تجربات بیان کئے انہوں نے کہا کہ امریکہ میں 60ہزار ڈیم ہیں چین نے 22ہزار ڈیم بنائے بھارت نے بھی 22ہزارڈیم بنائے پاکستان میں بڑے ڈیموں کی تعداد صر ف 5ہے پانی کے چھوٹے ذخائر یعنی خان پور اور باران ڈیم کی طرح کے منصوبے بھی 60کی تعداد میں ہیں ہمارا سارا پانی ضائع ہو رہا ہے کالاباغ ڈیم بن جاتا تو پاکستان سالانہ 196ار ب روپے کے نقصان اور توانائی کے بحران سے بچ جاتا۔ سی پیک کو بعض دانشوروں نے پاکستان کا مستقبل قرار دیا تو دوسرے حاضرین نے اختلاف کرتے ہوئے اس کو امریکہ کی غلامی سے نکل کر چین کی غلامی قبول کرنے کا ’’سنگ میل ‘‘قرار دیا سوا ل یہ تھا کہ کیا ہم نے 1964میں امریکی گندم کا پہلا جہاز کراچی میں لنگر انداز ہونے کے موقع پر اونٹ کے گلے میں’’ تھینک یو امریکہ ‘‘کی تختی نہیں لٹکائی تھی 40سال بعد 2004میں جاکر قوم کو معلوم ہو اکہ امریکہ نے ہمیں 1964میں غلام بنا لیا تھا۔

بلوچی دانشورنے سوال اُٹھایا کہ 46ارب ڈالر کی جو رقم سی پیک میں لگ رہی ہے وہ امداد ہے ،گرانٹ ہے ،سرمایہ کاری ہے یا قرض ہے ؟اگر یہ سرمایہ کاری ہے تو ایسٹ انڈیا کمپنی کو یا د کرو اگر یہ قرض ہے تو پھر واپس آجاو اور امریکی قرضون کو یا د کرکے اپنی موت اور غلامی کا ماتم کرو حقیقت یہ ہے کہ امداد کی ایک پائی بھی اس میں شامل نہیں سندھی۔

دانشور نے کہا کہ کراچی میں چھ بڑی بندرگاہیں تھیں ان کو نظر انداز کیا گیا گوادر کا قبضہ غیر ملک کے ہاتھ میں دے کر خوشیاں منائی جارہی ہیں یہ خوشی کا نہیں نوحہ اور ماتم کا مقام ہے۔

چترال کے مندوب نے کہا ہے کی سی پیک کے ساتھ چین کے جو افسیر اور حکام وابستہ ہیں وہ چوٹی کے لوگ ہیں پاکستان کی حکومت نے چُن چُن کر نا لائق ،بدعنوان اور دو نمبرافسیروں کو سی پیک کا چارج دیدیا ہے اس لئے پاکستان کو دو ٹکے کی مزدوری کے سوا کچھ بھی نہیں ملے گا۔

کتاب میلے میں روحانی تازگی اس نشست سے حاصل ہوئی جو علامہ اقبال کے یوم وفا ت کی مناسبت سے اسلم کمال کی کتاب ’’کلام اقبال اور نقش کمال ‘‘کی رونمائی کے لئے منعقد ہوئی پروفیسر فتح محمد ملک ، زاہد منیر اور اسلم کمال نے گفتگو کی فاطمہ نے علامہ اقبال کا فارسی اور اردو کلام تحت اللفظ میں سنایا سکول کے بچوں نے ٹیبلوبیش کیا دلچسپ انکشاف یہ ہوا کہ اسلم کمال بھی سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ان کا بچپن بھی علامہ اقبال کی طرح سیالکوٹ میں گزرا سیالکوٹ کی دو ندیوں کے جن نظاروں نے علامہ اقبال کی فکروفن کو متاثر کیا انہی ندیوں سے اسلم کمال کو خوس خطی اور مصوری کا سبق ملا دونوں کا مبنع علم سیالکوٹ کے مضافات کا ایک ہی نظارہ ہے ساقی نامہ کی پوری نظم چوتھی جماعت میں اسلم کمال کو زبانی یاد ہو گئی تھی نقش کمال کی ابتدابھی اسی سے ہوتی ہے ۔

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی

کتاب میلہ میں عربی کے مشہور شاعر متنبی کا ایک شعر قدم قدم پر یاد آتا رہا شعر کا ترجمہ ہے دنیا میں بہترین جگہ گھوڑے کی زین اور بہترین ساتھی کتا ب ہے عرب اپنے بچوں کو نصیحت کرتے تھے کہ بازار جاؤ تو دو جگہوں پر ضرور رکو اسلحہ کی دکان اور کتابوں کا مرکز۔ کتاب میلہ کی وجہ سے پاک چائنہ فرینڈشپ سنٹر تین دنوں تک کتابوں کا مرکز بنا رہا ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button