کالمز

نئے چیف سیکرٹری کا پہلا کام

تحریر: فیض اللہ فراق

تبادلے زندگی کا حصہ ہیں اور یہ قانون فطرت بھی ہے کہ تغیر پذیری وہ عمل ہے جس کا تعلق زندگی سے ہے عین اسی طرح آنے جانے کا سلسلہ ایک آفاقی دستور ہے چاہئے ملازمت یا نوکری کی صورت میں کیوں نہ ہو۔بیوروکریسی میں تقرری اور تبادلے بھی اسی روٹین کی کاروائی ہے کوئی آئے گا کوئی جائے گا بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ کچھ شخصیات اپنی قابلیت خلوص محبت اور خدمت کا انمٹ نشان چھوڑ جاتے ہیں جبکہ بعض افراد صرف نوکری کر کے چلے جاتے ہیں۔گلگت بلتستان کا انتظامی و سیاسی نظام روز اول سے بیوروکریسی کے زیر اثر رہنے کی وجہ سے عوام کی ذہنوں میں سیاسی عمل سے زیادہ بیوروکریسی اپنا رعب دبدبہ رکھتا ہے ۔بنیادی طور پر بیوروکریسی عملدرآمد کا یونٹ ہے جبکہ سیاسی نمائندے قانون سازی کے ذمہ دار ہیں بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں معاملہ اس کا الٹ چلتا رہا ہے۔ سیاسی افراد قانون سازی کی بجائے ملازمین کی من پسند تبادلے اور گریڈ ون کی بھرتیوں و محکمہ ورکس و برقیات کے ٹھیکوں کے حصول کو اپنا مطمع نظر سمجھتے آ رہے ہیں جبکہ بیوروکریٹ سیاست دانوں کی ان چھوٹی چھوٹی کمزوریوں سے فائدہ اٹھائے ہوئے اپنی انگلیوں پر نچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے اس لیئے بیوروکریٹ ذہنی طور پر مقدس گائے سمجھتا رہا ہے ۔گلگت بلتستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ زیادہ بیوروکریٹس اقرباپروری مذہبی منافرت اور میرٹ کی پامالی اور علاقائیت کو فروغ دینے میں پیش پیش رہے ہیں۔ اس عمل میں مقامی و غیر مقامی کا کوئی تفریق نہیں ہے۔ بعض مقامی و غیر مقامی ایسے بیوروکریٹس بھی گلگت بلتستان کے نظام کا حصہ رہے ہیں جنہوں نے اپنی بساط سے بڑھہ کر خطے کو ڈیلور کیا ہے ۔ آج قوم ان بیوروکریٹس کا نام لینا پسند نہیں کرتی جنہوں نےگلگت بلتستان کو لوٹا اور نفرت کی سوداگری کی جبکہ ان افسران کا عوام کے دلوں میں قدر اور ان کیلئے دعائیں ہیں جنہوں نے دن رات علاقے کی بلاتفریق خدمت کی۔ گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی خوشحالی جہاں بہتر قانون سازی کا محتاج ہے وہاں ایماندار کمٹمنٹ اور دلیری سے لبریز بیوروکریٹس کی خدمات کا بھی طالب ہے ۔حکومت پاکستان کی جانب سے پرکشش مراعات بیوروکریسی اور سیاست دانوں کیلئے جو گلگت بلتستان میں دستیاب ہیں وہ ملک کے کسی بھی حصے میں نہیں ہے ۔وفاقی ڈپٹی سکرٹریز کے پاس جو سہولیات موجود ہیں وہی سہولیات گلگت بلتستان کے سیکشن افسر کے پاس موجود ہیں جبکہ وفاقی وزرا سے وزیراعلٰی گلگت بلتستان کے کوارڈینٹرز کی تنخواہیں زیادہ ہیں۔ ایسے عالم میں اگر پھر بھی گلگت بلتستان ایک قابل تقلید صوبہ نہیں بنایا جاسکے تو اس کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے ۔آبادی کے اعتبار سے پورا صوبہ دیگر صوبوں کے کمترین آبادی والے ضلع سے بھی کم ہے اور یہ مختصرترین صوبہ مزید دس چھوٹے چھوٹے اضلاع میں منقسم ہے جہاں سرکاری ملازمتیں صوبے کی کل آبادی کے 23 فیصد ہے ۔ گلگت بلتستان کے تمام ادارے ملازمین سے بھرے ہوئے ہیں فنڈز کی کوئی کمی نہیں ہے وفاقی حکومت نے وافر مقدار میں گرانٹ صوبے کو فراہم کردی ہے اور جب میدان میں عمل اور کام کی بات دیکھیں تو مایوسی ہوتی ہے ۔

نئے چیف سیکریٹری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عملدرآمد کے میدان میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں۔نئے چیف سیکریٹری کے پہلے کام سے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے کہ وہ ایک متحرک اور وژن سے بھر پور وزیراعلٰی کے ساتھ ملکر گلگت بلتستان کو ایک مثالی صوبہ بنائیں گے ۔نئے چیف سیکریٹری کاظم نیاز نے تمام ملازمین اور سیکریٹری کو الصبح دفتر میں حاضری دینے کے احکامات جاری کر کے بری عادتوں کے کمبل اوڑھہ کر خواب غفلت کے مزے اڑانے والوں کو ان کی بنیادی ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہے ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مذکورہ ہدایات کو عملی و مستقلی کا جامہ پہنا کر سائلوں کی بروقت رسائی متعلقہ شعبے کے افسر تک پہنچا دیا جائے ۔ نئے چیف سیکرٹری کو چاہئے کہ وہ کچے کان کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ مردم شناسی کے رویے کو اپناتے ہوئے مالیشی و پالیشی کرداروں سے دور رہیں اور ایک باعمل ایماندار سنجیدہ افسر کے طور پر اپنے صلاحیتوں کا لوہا منوایں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ کاظم نیاز ایک قبائلی و خاندانی دماغ رکھتے ہیں جبکہ ادبی و یاری دوستی کے رجحان سے بھی بھر پور ہیں اور موصوف نے بلوچستان سے لیکر وزیراعظم ہاوس تک زندگی کے ہر موڑ پر اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا ہے ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button