احمد سلیم سلیمی
اسلامی تاریخ کا ایک عظیم سلطان ملک شاہ سلجوق، گیارہویں صدی کا ترک بادشاہ گزرا ہے۔بغداد کا مدرسہ نظامیہ انہی کے دور میں، ان کے نہایت عالم فاضل وزیر نظام الملک طوسی نے تعمیر کروایا تھا۔یہ مدرسہ اسلامی تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کا گہوارہ رہا ہے۔امام غزالی جیسی بے بدل ہستی نے وہاں درس دیا ہے۔مدرسہ نظامیہ کی تعمیر پر بے پناہ دولت صرف کی گئی تھی۔سلطان ملک شاہ سلجوق کو ان غیر معمولی اخراجات پر تشویش ہوئی۔
انہوں نے نظام الملک طوسی سے کہا ۔’’دشمن ہماری سرحدوں کے قریب ہیں ۔ان کے مقابلے کے لیے لشکرِ جرّار اور جنگی ساز و سامان کی ضرورت ہے۔یہ زرِ کثیر اس مدرسے کے لیے صرف کیا گیاتو دشمن کا مقابلہ کیسے کریں گے۔‘‘
نظام الملک طوسی نے کہا ۔’’سلطانِ معظم !آپ کی فوج کے تیر تو فقط چند قدم پر کام دے سکتے ہیں ۔وقتی طور پر دشمن سے ملک کو محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔لیکن جو فوج مدرسہ نظامیہ سے تیار ہوگی ۔اس کے تیر چند قدم پہ نہیں ،ساری دنیا پہ کارگر ہوں گے۔اس کے اثرات سے اسلامی سلطنت وقتی طور پر نہیں ،ہمیشہ کے لیے محفوظ اور خوش حال ہوگی۔‘‘
اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ماضی میں مسلمانوں کی عظمت ،طاقت اورعروج کے کارناموں میں مدرسہ نظامیہ کا بھی بڑا کردار رہا ہے۔سائنس ،طب،شعر و ادب،فلسفہ اور دیگر سماجی علوم کے ایسے ماہرین اور نابغہٗ روز گار لوگ اس ادارے سے پیدا ہوئے کہ عالم اسلام عروج سے سرفراز ہوا۔کئی صدیوں تک اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کے آگے سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہ رہیں۔ اور جب مسلمان زوال پزیر ہوئے ۔اس کے پیچھے جہاں متعدد دیگر وجوہات تھیں ،ایک اہم وجہ علم اور دانش سے محرومی تھی۔
یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ تعلیم قوموں کے لیے قوتِ حیات ہے۔فی زمانہ وہی قومیں سربلند رہی ہیں جنہوں نے تعلیم کو ترجیح دی۔
تعلیم کیا ہے؟ آسان الفاظ میں ایک راستہ ہے جس پہ چل کر کامیابی اور خوشحالی کی منزل مل جاتی ہے۔کامیابی کے جس طرح مختلف معیار ہیں ،تعلیم کے بھی اسی طرح متعدد معیارات ہیں ۔جن سے گزر کر ہماری نوجوان نسل بھی ایک غیر متوازن اور غیر ہم آہنگ تعلیمی ،ذہنی اور سماجی درجہ بندی سے دوچار ہوتی ہے۔دوسرے معنوں میں کہہ سکتے ہیں کہ تعلیمی معیار کی درجہ بندی ،ہماری سماجی زندگی کے معیار پر مُنتَج ہوتی ہے۔جیسی تعلیمی صورت حال ہوگی ،ویسے ہی ہماری سماجی زندگی کے رویے اور حالات ہوں گے۔جیسا تعلیم کے ساتھ سلوک ہوگا،ویسا ہی ترقی یافتہ قوموں کی برادری میں ہمارے ساتھ سلوک کیا جائے گا۔
ایک چینی کہاوت ہے۔’’خوش حالی کے لیے اگر ایک سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو فصلیں اگاؤ۔اگر ایک سو سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو درخت اگاؤ۔اگر ایک ہزار سال تک قوموں کے آگے وقار سے سر اٹھا کر چلنا ہے تو تعلیم پر سرمایہ لگاؤ۔‘‘
اس چینی کہاوت میں تعلیم پر سرمایہ لگانے کا مطلب یہ نہیں کہ مارکیٹ میں سرمایہ پھینک کر ،آنکھیں بند رکھی جائیں۔بلکہ اس کا مطلب ہے کہ ایک نتیجہ خیز ہدف کو یقینی بنانے کے لیے اس پر نظر رکھی جائے۔
ایک باپ سرمایہ لگاتا ہے۔اپنی اولاد کو مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں پڑھاتا ہے۔سالانہ ہزاروں لاکھوں خرچ کرتا ہے،مگر ذاتی توجہ نہیں دیتا ۔اس کی اولاد کیا پڑھتی ہے؟ کیسے پڑھتی ہے ؟ وہ اس سے بے نیاز رہتا ہے۔تب یہ سرمایہ کاری بے فائدہ ہوگی۔
اسی طرح سرکاری اور نجی شعبہ، تعلیم پر سرمایہ لگاتا ہے ۔تعلیمی ادارے آئے دن وجود میں آتے ہیں۔اساتذہ تقرر کیے جاتے ہیں۔سالانہ کروڑوں ،اربوں کا بجٹ مختص ہوتا ہے۔مگر جب ترسیلِ زر کا نظام موٗثر ، شفاف اور نتیجہ خیز نہ ہو ۔بڑی سے بڑی کرسی سے لے کر نیچے تک فرض شناسی ،دیانت اور قومی ترقی کا شعوری جذبہ نہ ہو۔وہاں سے جو طلبابرآمد ہوں وہ بہ ظاہر فارغ التحصیل ہوں مگر علم ،ہنر ،دانش اور جذبے سے بھی فارغ ہوں تب…اس باپ کا اپنی اولاد پر سرمایہ کاری ہو ،یا حکومت اور نجی اداروں کا تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری ہو ۔کارگر ،موٗثر اور نفع بخش نہیں ہوسکتی ۔تو معلوم ہوا سرمایہ لگانا اہم ہے مگر اس کا درست استعمال اہم ترین۔
ان اہداف کا حصول کسی فرد یا کسی ایک ادارے کے بس کی بات نہیں۔اس کے لیے ایک مربوط اور مضبوط نظام کی ضرورت ہوتی ہے اوراسے عام زبان میں نظامِ تعلیم کہا جاتاہے۔
یہ نظامِ تعلیم کیا ہے؟ جیسے انسانی جسم کے اندر روح ہے تو یہ ڈھانچہ قائم ہے۔یہ انسان بولتا،چلتا اور آگے بڑھتا ہے۔نظامِ تعلیم بھی ،تعلیمی رویوں کے لیے قوتِ حیات ہے۔روح توانا ہو تو جسم آسودہ ہوتا ہے ۔نظامِ تعلیم مربوط اور مضبوط ہو تو تعلیمی رویے بھی زندگی اور تازگی سے بھر جاتے ہیں۔
یہ نظامِ تعلیم بہت سے عناصر کے ایک موٗثر اشتراکِ کار کا نام ہے۔ ان عناصر میں طالب علم ،استاد،تعلیمی ادارہ(سکول ، کالج، یونیورسٹی) اور حکومت کا شعبہٗ تعلیم نہایت اہم ہیں۔اس نظام کا بنیادی عنصر ،یعنی جس کے لیے یہ نظام قائم کیا گیا ہے ،طالب علم ہے۔اور سب سے اہم عنصر جس کی وجہ سے یہ نظام قائم ہے ،استاد ہے۔باقی عناصر سہولت کار ہیں۔
اب اصل بات اس بنیادی عنصر یعنی طالبِ علم اور اہم عنصر یعنی استاد کے باہم رویے اور تعلق کی ہے۔ان کی سوچ،ان کے رویے اور محنت کے جذبے کی ہے۔
اس تناظر میں بات کریں تو امید کے قدم جیسے لڑکھڑا جاتے ہیں۔منزل دور سے دور ہوتی نظر آتی ہے۔ویسے تو ہر طرف ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔طالب علم ہے وہ بھی دوڑ رہا ہے ۔استاد ہے وہ بھی دوڑ رہا ہے۔طالب علم کی دوڑ کلاس روم تک ہوتی ہے۔کچھ کتابیں پڑھ کے ،چند کلاسیں آگے بڑھ کے ،گریڈ اور ڈگری حاصل کر نے کے لیے دوڑ تا ہے۔جبکہ علم ،لگن اور نامعلوم کی جستجو جیسی صفات سے یکسر عاری ہوتا ہے۔
استاد کلاس روم جاتا ہے۔وائٹ بورڑ کا سینہ اور طلبہ کے کان نصابی علم سے لبا لب بھر دیتا ہے۔دن ختم ہوتا ہے۔سال ختم ہو جاتا ہے۔کچھ کو ڈگریاں مل جاتی ہیں اور کچھ آدھی ادھوری تعلیم کے ساتھ دھکے کھاتے ہوئے یہاں وہاں نظر آتے ہیں۔جن کو ڈگری اور گریڈ مل جاتے ہیں وہ بھی نوکری کی تلاش میں اپنی آدھی ادھوری قابلیت کے ساتھ یہاں وہاں دھکے کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
دوسری طرف استاد بھی مطمئن کہ اس نے اپنا فرض پورا کیا ہے۔اب کس نے پڑھا اورکس نے نہیں پڑھا ،یہ اس کی درد سری نہیں۔وہ سال بہ سال انکریمنٹ ااور بجٹ الاؤنسز کی امید اور ارمان میں دن کاٹتا ہے۔
استاد ایک طرح سے اپنی ڈیوٹی تو نبھارہا ہے۔نصابی علم ٹھونس ٹھونس کے طلبہ کو منتقل تو کر رہا ہے۔مگر اصل بات صرف اتنی سی نہیں۔وہ جو حضرتِ اقبال نے فرمایا تھا۔
شکایت ہے مجھے یارب خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
بلند نظری ،خود شناسی اور زمانہ سازی سے طالب علم بھی محروم ہے ،استاد بھی اس سے بے نیاز ہے ۔کلاس روم کے اندر نصاب کی کتاب مقررہ وقت پر ختم کرانے کی ٹینشن زیادہ ہے،جبکہ علم ،وژن اور بلند پروازی کا جذبہ ناپید ہے۔
ایک اہم نکتہ اور بھی قابلِ غور ہے۔استاد ہے وہ بھی اور طالبِ علم ہے وہ بھی ،مطالعے کی صفت سے محروم ہے۔ہمارے تعلیمی اداروں میں اول تو لائبریریز کی حالت قابلِ تحسین نہیں۔ستم بالائے ستم استفادہ کرنے والے بھی مایوس کن تعداد میں ہیں۔
یہ ایک مہلک خامی ہے۔اسے دور کرنا نہایت ضروری ہے۔مطالعے سے غورو فکر اور تجزیے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔اپنے علم اور اپنی فکر کا بہترین اظہار مطالعے کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے۔استاد بھی ،طالب علم بھی ،مطالعے کے ذریعے ہی اپنی استعداد بڑھا سکتے ہیں۔کیوں کہ ہمارے نظام تعلیم کا المیہ ہے کہ نصابی کتب ان تمام پہلووں کا احاطہ نہیں کرتی ہیں جن سے ان طلبہ میں زمانہ شناسی اور زمانہ سازی کا جوہر پیدا ہو سکے۔اس لیے اول تو تعلیمی اداروں میں موٗثر اور وسیع کتب خانوں کا وجود لازمی قرار دیا جائے۔دوسری بات ایسا ماحول اور رویہ پیدا کیا جائے کہ طلبہ کے لیے کتب کا حصول اور مطالعہ ایک خوش گوار مشغلہ بن جائے۔
تعلیمی نظام کا تیسرا اہم عنصر ،تعلیمی ادارہ ہے۔تعلیمی ادارہ بنیادی طور پر طالب علم کو ایک خوش گوار اور صحت مند ماحول فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔طلبہ کے تعلیمی ،تخلیقی اور اخلاقی رویوں کی تعمیر و تہذیب کرتا ہے۔ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے کے لیے مواقع فراہم کرتا ہے۔
یہ تو رہی ایک مثالی صورت حال…دوسری طرف جب تعلیمی اداروں میں اصل حقیقت کا بہ نظرِ غائر جائزہ لیتے ہیں تو بہت سی ناخوش گوار باتیں بھی سامنے آتی ہیں۔تعلیمی اداروں سے نئی سوچ ،نیا اندازاور نیا حوصلہ ملتا ہے۔ہمارے تعلیمی اداروں سے یہ صفات ملتی رہی ہوں ،یہ الگ بات ہے۔مگر ان سب کے ساتھ عصبیت ،فرقہ واریت اور خاک بازی کی ڈگریاں بھی تھوک کے حساب سے ملتی رہی ہیں۔ہمارے تعلیمی اداروں سے مستقبل کے معمار کم ،سوچ اور جذبے کے بیمار زیادہ بر آمد ہوتے رہے ہیں۔ایسے میں یہ ادارے (سکول ،کالج ،یونی ورسٹی) دانش گاہیں کم لگتے ہیں۔بے دلی،بے عقلی اور بے سمتی کے سانچوں میں ڈ ھالنے والے کارخانے سے زیادہ لگتے ہیں۔
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی ،نہ محبت ،نہ معرفت ،نہ نگاہ
تعلیمی اداروں میں بے عملی ،بے نظری اور بے ذوقی کا خاتمہ ،افسرانِ بالا کی طرف سے محض تادیبی اور ترغیبی حکم ناموں سے ممکن نہیں ہوتا۔سنجیدگی سے ،خلوص اور تعمیری جذبے سے اقدامات کرنے سے ہوتا ہے۔اس ادارے کا سربراہ اور اس کے اساتذہ کے مابین ایک دوستانہ ،ہم دردانہ اور صحت مندانہ تعلیمی ماحول سے ممکن ہوتا ہے۔تعلیمی ادارے محض طلبہ ساخت کرنے کے کارخانے نہ ہوں ،محض ڈگریاں بانٹنے کا ذریعہ نہ ہوں۔بلکہ بدلتے ہوئے حالات میں،ایک بہترین اور مفید فرد بننے کی اہلیت اور جذبہ پیدا کرنے کے مراکز ہوں۔
ادارے کا سربراہ روایتی طور پر سینئر ترین استاد ہی نہ ہو ،وسیع القلبی،وسیع النظری اور ہم دردی کے آفاقی جذبے سے سرشار ،قائدانہ صلاحیتوں کا حامل ہو۔اس ادارے میں طلبہ محض کلاس روم میں گُھس کر نصابی علم چاٹنے والے حیوان ہی نہ ہوں ،ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے ،اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو بھی نکھارنے کے قابل ہوں ۔اس کے لیے تعلیمی اداروں میں کھیل کے میدان ،آڑی ٹوریم ،لائبریریز اور لیبارٹریز اتنے ہی اہم اور یقینی ہوں جتنے استاد اور طلبہ ہیں۔طلبہ جب ان سرگرمیوں میں مصروف رہیں گے اس سے ایک تو ان کی سوچ اور صلاحیت بڑھ جائے گی۔دوسری بات طلبہ کے مابین بدگمانیاں دور ہوں گی۔فاصلے ختم ہوں گے۔ایک دوسرے کو اچھے ماحول میں جاننے اور سمجھنے کا موقع مل جائے گا۔یوں اس ادارے کے طلبہ مختلف ٹکڑوں میں تقسیم نہیں ہوں گے بلکہ ایک اجتماعی فکر اور جذبے کے ساتھ پوری قوم کی نمائندگی کر سکیں گے۔
نظامِ تعلیم کا چوتھا اہم عنصر حکومت کا محکمہ تعلیم ہے۔یہ وہ عنصر ہے جو باقی عناصر کو آپس میں جوڑ کر ،ان کی فعالیت کو یقینی بناتا ہے۔طلبہ ،اساتذہ اور تعلیمی اداروں کو درپیش مسائل کا حل نکالتا ہے۔نصاب کی ترتیب اور تشکیل کرتا ہے۔اساتذہ اور تعلیمی اداروں کی کمی دور کرتا ہے۔انتظامی ، مالی اور تکنیکی معاونت فراہم کرتا ہے۔اس لحا ظ سے دیکھیں تو یہ عنصر بھی بہ ذاتِ خود اہمیت کا حامل ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک ،جو داخلی اور خارجی معاملات میں الجھے رہتے ہیں ۔تعلیم کا شعبہ ترجیحِ اول نہیں رہاہے۔جس کی وجہ سے مالی اور انتظامی معاملات میں اکثر رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں اور اس کے اثرات براہِ راست تعلیمی اداروں پر پڑتے ہیں۔اور وہاں نظام تعلیم کا بنیادی عنصر یعنی طلبہ ہی اس سے متاثر ہو تے ہیں۔
حکومت کا محکمہ تعلیم ان خطوط پر کام کرلے۔مالی ،انتظامی اور تعمیراتی معاملات میں وسیع الظرفی اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرے ۔تقریباََ ہر ادارے کو اساتذہ کی کمی درپیش ہے ۔یہ کمی پوری کی جائے۔سکول و کالج میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعمیراتی کا م تکمیل تک پہنچایا جائے۔نصابی علوم کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کے لیے مناسب سہولتیں فراہم کی جائیں ۔
اکثر اساتذہ سال بھر پروموشنز،پوسٹنگز اور ریلیشنز کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ترجیحی بنیادوں پر انہیں پرسکون اور خوش گوار ماحول میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا موقع دیا جائے۔
پرنسپلز اور اساتذہ کی کارکر دگی جانچنے کے معیارات مقرر کیے جائیں۔بہترین کا رکر دگی کے حامل اسا تذہ اور سربراہِ ادارہ کو ترغیبات اور ایوارڑز سے نوازا جائے۔
جی بی میں حکومتی سطح پر ٹیچر ٹریننگ اکیڈمی بنائی جائے۔جہاں ماہرینِ تعلیم جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اساتذہ کی علمی ،ذہنی اور نفسیاتی خطوط پر رہنمائی کرے۔
کسی بھی تعلیمی ادارے کے لیے اساتذہ کی تقرری ہو تو سیدھے کلاس میں جا کرطلبہ کو پڑھانے کے بجائے مختصر اور موٗثر تربیتی مراحل سے گزار کر میدانِ عمل میں لایا جائے۔
اساتذہ کی ترقی اور تبادلے کا نظام ایسا شفاف،پیشہ ورانہ ،مخلصانہ اور ہمدردانہ ہو کہ استاد ہر فکر سے آزاد ہو کر ایک پر سکون ماحول میں طلبہ کو پڑھا سکے۔
کالج اساتذہ کو اعلا تعلیم کے حصول کے لیے سکالر شپ دینے کا مربوط اور ممکن الحصول نظام وضع کیا جائے۔
ہمارا امتحانی نظام(مثلاََکے آئی یو بورڑ) نہایت فرسودہ ہے۔امتحان لینے کا بھی ،پرچوں کا جائزہ لینے کا بھی طریقہ کار بدلنا بہت ضروری ہے۔ہمارے امتحانی نظام میں طلبہ کی قابلیت اور استعداد کم پرکھی جاتی ہے ،انہیں نمبروں اور گریڈوں کی دوڑ میں زیادہ الجھایا جاتا ہے۔
سکول اور کالج میں طلبہ کی ذہنی استعداد کے مطابق مضامین کے انتخاب اور پیشہ ورانہ زندگی کی رہنمائی کے لیے سٹوڈنٹس کونسلنگ کمیٹی بنائی جائے۔یہ ایک انتہائی اہم بات ہے ۔جسے اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ایک آدھ اچھی شہرت والے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے علاوہ کہیں بھی طلبہ کی کیریئر کونسلنگ کے حوالے سے کام نہیں کیا جارہا۔ڈگری کا لج گلگت میں ہر سال ہزار سے زیادہ طلبہ حصول علم کے لیے داخلہ لیتے ہیں۔ان میں ۸۰ فیصد سے زیادہ طلبہ اشکومن ،یاسین ،پونیال ،استور ،دیامر اور ہنزہ نگر سے تعلق رکھتے ہیں۔تعلیمی سال کے آغاز میں کالج میں ایک افراتفری مچ جاتی ہے۔ایک بھیڑ چال کاسماں ہوتا ہے۔ایک قلیل تعداد کے علاوہ ،سارے ہی طلبہ اپنے شوق ،ذہنی استعداد اور مضامین کی اہمیت جانے بغیر داخلہ لینے میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔متعدد طلبہ داخلہ لینے کے ایک مہینے بعد بھی اپنے مضامین تبدیل کراتے نظر آتے ہیں۔اس کے باوجود بھی سال بھر یہ طلبہ غیر مطمئن نظر آتے ہیں ۔گریجویشن کے بعد بھی اکثر طلبا کو معلوم نہیں ہوتا ہے کہ آگے کیا پڑھنا ہے۔اس کی بنیادی وجہ ان کی مناسب رہنمائی اور ذہن سازی کا نہ ہونا ہے۔سکولوں سے بیمار اور بے کا ر سوچ کے ساتھ یہ طلبہ کالج میں آتے ہیں ۔یہاں بھی ان کی کیریئر کونسلنگ نہیں ہوتی ہے ۔یوں ایک منتشر ،بے سمت اور بے شوق زندگی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔یہی بے سمت نوجوان قوم و ملک کے مستقبل کے معمار بن جاتے ہیں۔انہی کی وجہ سے قوم بھی ملک بھی ایک بے سمت منزل پہ رواں دواں نظر آتے ہیں۔
اس تمام صورت حال میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ سکول اور کالج میں ایساموٗثر اور مربوط نظام بنایا جائے جو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں اور اس کی ضرورت کے مطابق نوجوان تیار کرے۔اس نظام میں ہر بچہ اسی شعبے میں اور اسی حد تک تعلیم حاصل کرے ،جس طرف اس کا ذہنی رجحان ہے اور جتنی اس میں اہلیت ہے۔اس وقت میرے سامنے فرانس کی ایک تعلیمی رپورٹ موجود ہے۔جس کے مطابق دسویں گریڈ(میٹرک) تک سب کو ایک ہی طرح کی تعلیم(یعنی ایک ہی نصاب) دی جاتی ہے۔اس کے بعد بچے کی کارکردگی اور ذہنی رجحانات کا مکمل جائزہ لینے کے بعد ماہرین کا بورڈ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اب اس بچے کو کس طرف جانا ہے۔اسے مذید تعلیم کے لیے میڈیکل ،انجینئرنگ ،انفارمیشن ٹیکنالوجی ،کامرس ،قانون یا دیگر سماجی علوم کا انتخاب کرناہے یا پھر کوئی ہنر سیکھنا چاہئے۔ یہ فیصلہ ماہرین کرتے ہیں۔اس سارے فلسفے کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ جب ہم کہتے ہیں نوجوان قوم کے معمار ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے یہ نوجوان ریاست کی ملکیت ہیں ۔اور وہی ریاست ترقی کر سکتی ہے جو اپنے نوجوانوں کی بہترین خطو ط پہ رہنمائی کرتی ہے۔
اب جدید دور کا یہ تقاضا ہے ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔اپنی سوچ ،اندازِ نظر اور سسٹم تبدیل کرنا ہوگا۔ہم نے بہت تعلیم دی۔بڑی ڈگریاں تقسیم کیں ۔تعلیمی اداروں کا جال بھی پھیلایا ہے۔اب اس تعلیم کو قوم و ملک کی ترقی اور عروج کا بنیادی ذریعہ بھی بنانا ہے۔
ماضی میں اس شعبے کے ساتھ نہایت بے رحمانہ سلوک کیا گیا ۔موجودہ حکومت کی تعلیمی پالیسیاں ،وزیر اعلا حفیظ الرحمان صاحب کے تعلیم دوست اقدامات اور محکمہ تعلیم کے بڑوں ،خاص کر سیکریٹری ایجوکیشن ثنا ٰ ء اللہ صاحب کی بصیرت اور ان کے افسران کی کوششوں کی بہ دولت ،یہ نظام اب بہتر ہونے لگا ہے۔امید ہے یہ مزید مفید اورنتیجہ خیز شکل میں عمل پزیر ہوگا۔
قسمتِ لالہ و گل اب بھی سنور سکتی ہے
نیت اچھی ہو جو گلشن کے نگہبانوں کی
(گلگت میں منعقد ہونے والی ایجوکیشن کانفرنس کے تناظر میں یہ مضمون لکھا گیا ہے)
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button