کالمز

فاٹا رواج ایکٹ کا المیہ

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

زیتون بانو پشتو کی نابغہ روز گار افسانہ نگار ہیں ان کے افسانے المیہ پر ختم ہوتے ہیں عموماً آخری جملہ یوں ہوتا ہے ’’اس نے زہرکی پڑیا کھائی اور دیوار کے ساتھ سر لگا کر ٹھنڈی ہوگئی‘‘ دوسال پہلے بننے والے فاٹا ریفارمز کمیشن کا ایسا ہی حال ہوا ہے فاٹا ریفارمز کمیشن نے بڑی محنت اور عرق ریزی کے بعد فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کرکے فاٹا سے ایف سی آر کا خاتمہ کرنے کے لئے فاٹا رواج ایکٹ کا متبادل قانون تجویز کیا تھا بل پارلیمنٹ میں پیش ہونے سے پہلے ’’ویٹو‘‘ کردیا گیا ہے فاٹا ریفارمز کمیشن کی رپورٹ المناک انجام سے دوچار ہوگئی ہے فاٹا پارلیمنٹرین گروپ کے سربراہ شاہ جی گل آفریدی اور ان کے ساتھی بد دل ہوگئے ہیں سرحدی امور کے وزیر عبدالقادر بلوچ اور باجوڑ سے قومی اسمبلی کے ممبر شہاب الدین خان کے درمیاں تلخ کلامی بھی ہوئی ہے دو سال پہلے فاٹا ریفارمز کمیشن بن گیا تو تجزیہ کاروں اور تبصرہ نگاروں نے اس رائے اور خدشے کا اظہار کیا تھا کہ حکومت نے فاٹا کے عوام کو دھوکا دینے کے لئے کمیشن بنایا ہے اگر حکومت مخلص ہوتی تو کمیشن بنانے کی جگہ ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے فاٹا کو خیبرپختونخواہ میں ضم کردیتی اور ایف سی آر کی جگہ متبادل قانون لے آتی کمیشن بنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی تبصرہ نگاروں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ فاٹا میں ایک کروڑ مجبور اور مظلوم عوام کے مقابلے میں 200کھرب پتی دولتمند، طاقتور اور بے درد افراد کا ٹولہ موجود ہے جو دو چار ارب روپے ایف سی آرکو برقرار رکھنے پر آسانی سے خرچ کریگی اخبارات میں ایسی خبرین بھی شائع ہوئی تھیں جن میں دولت مند ٹولہ کی طرف سے فاٹا ریفارمز کو روکنے کے لئے 65کروڑ روپے کا چندہ اکھٹا کرنے کی اطلاع دی گئی تھی فاٹا ریفارمز کمیشن کے اراکین نے جن قبائلی علاقوں کا دورہ کیا وہاں جرگوں کے دوران دیکھا گیا کہ عوام کی اکثریت خصوصاً نوجوان بھاری تعداد میں اپنی حاضری لگا کر فاٹا ریفارمز کی حمایت کرتے ہیں جبکہ سول بیوروکریسی ، سرحد پار غیر قانونی تجارت میں ملوث طبقہ اور کچھ دیگر افراد فاٹا ریفارمز کے مخالف ہیں تعلیم یافتہ نوجوان ، شاہ جی گل آفریدی اور شہاب الدین خان کی طرح روشن خیال ، دیانت دار سیاسی کارکن ایف سی آر کا خاتمہ چاہتے ہیں پاکستان کے قوانین کا اطلاق چاہتے ہیں یہ لوگ ایک کروڑ قبائلی عوام کے حقیقی نمائندے ہیں یہ لوگ تعلیم ، روزگار، انصاف اور ترقی کے مواقع کی بات کرتے ہیں یہ لوگ فاٹا کو خیبرپختونخواہ میں ضم کرکے سمگلنگ سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں با عزت زندگی اور شہری حقوق کی بات کرتے ہیں ان کے مقابلے میں 200افراد کا دولت مند ٹولہ چاہتا ہے کہ ایف سی آر کا قانون ہو پولٹیکل ایجنٹ کی بادشاہت ہو فاٹا سکرٹریٹ کا اقتدار ہو سمگلروں کی آؤبھگت اور مال کی ریل پیل ہو قبائیلی عوام کے ساتھ اس ٹولے کا کوئی تعلق نہیں یہ ٹولہ انگریزی اصطلاح میں ’’ویسٹڈ انٹرسٹ ‘‘کہلاتا ہے اس کا کام مال کمانا ہے لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر 200بندوں کے ٹولے کا اثر ورسوخ بہت زیادہ ہے اس ٹولے کے مقابلے میں قبائلی علاقوں کے ایک کروڑ عوام اور 66لاکھ نوجوانوں کی کوئی وقعت یا حیثیت نہیں ہے فاٹا ریفارمز کی ناکامی کا دوسرا پہلو بین لاقوامی نوعیت کا ہے امریکہ ، سعودی عرب ، بھارت اور افغانستان ملکر فاٹا میں پاکستان کے خلاف اپنی کھچڑی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں یہ منشیات ، اسلحہ ، سمگلنگ اور غیر قانونی کاروبار کی کھچڑی ہے۔ اغوا برائے تاوان ، دہشت گردی اور دیگر گھناونے جرائم میں ملوث لوگ فاٹا میں جاکر پناہ لیتے ہیں اور بندوبستی علاقوں میں آکر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں یہ بہت آزمودہ نسخہ ہے جو جرائم پیشہ افراد کے کام آتا ہے اس وجہ سے مخصوص ٹولے نے فاٹا ریفارمز کو ناکامی سے دوچار کیا ہے اگلے چھ سات مہینوں میں انتخابات کی تیاری شروع ہوجائیگی اور حکومت کے پاس وقت نہیں رہے گااگلی حکومت اگر آصف زرداری کی طرح قوت فیصلہ رکھنے والی قیادت کی آئی تو جس طرح ماضی میں صوبے کے نام کی تبدیلی اور تورغر کے قبائلی علاقے کو بندوبستی ضلع میں تبدیل کرنے کا حکم راتوں رات جاری ہوا اسی طرح فاٹا کو بندوبستی علاقے میں ضم کرکے ایک کروڑ قبائلی عوام کو ایف سی آر کی لعنت سے نجات دلانے کا کام ایک ایگزیکٹیو آرڈر سے پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button