بچپن سے یہ کہانیاں پڑھتا آرہا ہوں کہ پیچھے مڑکر دیکھنے سے اِنسان پتھر کا بن جاتا ہے۔ پھر بھی نہ جانے کیوں ہر شخص پیچھے مڑکر ضرور دیکھتا ہے کہ اُس نے ریت پر اپنے قدموں کے کتنے بڑے بڑے نشان چھوڑے ہیں۔ لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ میں کہاں تک پیچھے مڑکر دیکھوں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ کہاں سے شروع کروں میرا خیال ہے کہ وہاں سے شروع کروں، جب تمہیں پہلی بار دیکھا تھا میں نوجوان تھا، اِنٹر کا طالب علم تھا، جب سکول کی ایک طالبہ کی خواب ناک آنکھوں اور چھن چھن کرتی دھنک رنگ چوڑیوں والے ہاتھوں کا اسیر تھا پھر یوں ہوا کہ بعض رشتے بنتے بنتے ٹوٹ گئے۔ ایک غزل جو شاعر کی سب سے خوبصورت غزل تھی، ادھوری رہ گئی کسی نے میری زندگی کے اُجالے چُرا کر اپناگھر روشن کر لیا۔ میں دُکھ اور کرب اپنے اندر پالتا رہا زندگی کے اندھیروں سے یہی دُعائیں بلند ہوئیں کہ اللہ تمہارے گھر کو روشن، گلشن کو آباد رکھے۔ اگر میں نوجوانی سے شروع کروں تو کس طرح شروع کروں کن الفاظ اور کن القاب سے شروع کروں اور ختم کروں تو کہاں کروں کیونکہ ہم دونوں کا پیار کوئی تالاب نہیں جھیل نہیں دریا نہیں بحرِ بیکراں ہے۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے کہ میں نے میٹرک پاس کرنے کے بعد ابھی ابھی کالج جائن کر لیا تھا تو اُس وقت میری عمر صرف سولہ برس تھی۔ طبیعت کا خوش مزاج، ہنس مکھ، خوش اخلاق اور خوش لباس تھا۔ خوش خوراک کبھی نہیں رہا۔ والد صاحب سرکاری ملازم تھے۔ شہر سے ہٹ کر جہاں سے مضافات شروع ہوتے تھے، جھونپڑی نما ہمارا خوبصورت مکان چھ ہزار گز زمین پر تھا۔ اس مکان میں تقریباً تمام پھلوں کے درخت تھے۔ ہمارا کالج شہر کے مرکز سے تقریباً پانچ کلومیٹر کی دُوری پر تھا، جہاں چار ہزار طلبا و طالبات زیر تعلیم تھے۔ کالج آنے جانے کے لیے والد صاحب نے سبز رنگ کی نئی سائیکل خرید کر دی تھی۔ کالج سے آنے کے بعد میں اکثر شہر کے محلوں میں، جہاں میرے دوست رہتے تھے، سائیکل پر چکر لگاتا تھا۔ ریلوے اسٹیشن کے قریب واحد بک اسٹال تھا، جہاں اُردو اخبارات اور رسائل دستیاب تھے۔ وہ دن میری زندگی کا یادگار دن جسے آج تک نہیں بھلا پایا۔ بک اسٹال سے ایک اخبار اور رسالہ خرید کر واپس آرہا تھا، راستے میں ایک گرلز سکول میں چھٹی ہوئی تو بڑی تعداد میں لڑکیاں بارہ فٹ کی سڑک کی دوسری طرف اپنے گھروں کی طرف جارہی تھیں۔ راستے کے ساتھ کچھ سایہ دار درخت تھے۔ میں درخت سے ٹیک لگاکر سائیکل ہی پر بیٹھا رہا، اس انتظار میں کہ لڑکیاں سڑک پار کرلیں تو میں آگے بڑھوں۔ ایک گوری رنگت والی اِنتہائی حسین و جمیل لڑکی مسلسل مجھ پر نظریں جمائے میری جانب بڑھتی چلی آرہی تھی اُس دن میں نے اپنے لیے چاہت کی چمک دیکھی، اُس چمک میں اپناپن محسوس کیا یہ میری تم سے پہلی ملاقات نہیں، بلکہ صرف پہلا آمنا سامنا تھا۔ دوسرے دن عین اسی وقت اسی درخت کے سائے میں بیٹھا تھا اور منظر بھی پہلے دن والا تھا، لیکن دوسرے دن سٹرک کے اُس پار میں نے تمہارا وہ گھر بھی دیکھ لیا، جس گھر میں تم داخل ہوئی تھیں۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے تم گھر کے بیرونی برآمدے میں کھڑی کافی دیر تک مجھے دیکھتی رہیں۔ میں بھی تمہیں دیکھتا رہا اور پھر تم ہاتھ ہلاکر اندر چلی گئیں۔ اُس وقت مجھے ہرگز اندازہ نہ تھا کہ اتنی ننھی سی جان اور چاہت کا اس قدر شدید عرفان میرے قلب و روح میں وہ طوفان لے آئے گا کہ زندگی کی ہر آتی جاتی سانس خنجر کی نوک کی طرح چھبتی محسوس ہوگی۔ کیا تم میری اشک بار راتوں کی تڑپ، درد اور کسک کا حساب چکا پاؤگی؟ مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ محبت و چاہت کے تمام رنگوں سے رنگین کر دینے کے باوجود مجھے تباہ کرنے والی کمال کی یہ لڑکی جسے آسمان سے زمین پر صرف میرے لیے اُتارا گیا ہے، مرتے دم تک مجھے یہ نہیں بتائے گی کہ آخر وہ کس بات پر مجھ سے ناراض ہے؟ اب تو بتادو کہ میرا قصور کیا تھا؟ تم نے کیوں چُپ سادھ لی؟ مجھ سے ہر قسم کا رابطہ کیوں منقطع کیا؟ یہ وہ چند سوالات ہیں، جو تم سے بچھڑنے کے بعد سے اب تک مجھے پریشان کئے ہوئے ہیں۔ میں تمہیں یہ آخری خط لکھ رہا ہوں، اس یقین کے ساتھ کہ تم میرے اس خط کے ایک ایک لفظ پر ایمان کی حد تک یقین کروگی۔ میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ میرا یہ خط پڑھ کر کہیں تم ناراض نہ ہوجاؤ۔ مجھے تمہاری ناراضگی بالکل قبول نہیں۔ کبھی کبھی تم مجھ سے اُن دنوں بھی ناراض ہوجاتی تھی، جب ہمارا پیار آسمان کو چھو رہا تھا، جن دنوں تم میرے پیار کی نرمان تھیں ابھیمان تھیں ہمارا پیار ساگر سے بھی زیادہ گہرا، ’’ہمالیہ‘‘ اور ’’کے ٹو‘‘ سے بھی بلند اور مضبوط تھا اس بات کی گواہی دریاؤں کے کنارے بھی دیں گے چاند ستارے بھی دیں گے جاننے والے ہمارے اور تمہارے بھی دیں گے تم مجھ سے اس لیے ناراض ہوتی تھیں کہ روز میں تم سے ملنے، تمہارے گھر کیوں نہیں آیا؟ تم نے مجھے تاکید کی ہوئی تھی کہ میں تم سے ملنے روزانہ تمہارے گھر آؤں گا۔ پھر میں تمہیں منالیا کرتا اور تم مان بھی جاتیں۔ تمہیں تو پتہ ہے کہ کالج کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ میں صحافت اور سیاست کی بھیڑ میں بھی مصروف رہتا تھا لیکن کسی نہ کسی طرح اپنی مصروفیت سے وقت نکال کر شام ہوتے ہی تمہارے پاس پہنچ جاتا اور تم گلاب کی مانند کھِل اُٹھتیں۔ اُن دنوں میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہم دونوں کبھی جُدا ہوجائیں گے۔ ہم دونوں میں کبھی کوئی لڑائی، اختلاف یا جھگڑا نہ ہوا۔ اس کے باوجود ہمارے پیار کی دُنیا اُجڑ گئی، ویران و برباد ہوگئی۔
آج اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی میں سوچتا ہوں کہ محبت کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کیسا ہے؟ ان سوالوں کا جواب مجھے کون دے گا؟ کسی نے کتنی سچی بات کہی تھی کہ دریا کے دو کنارے کبھی نہیں ملتے ہیں۔ میں سندھو دریا کے اِس پار ہوں اور تم اُس پار کتنا قریب مگر کتنا دُور راہی میرا نام تھا، یہی نام نہ جانے تمہارے بڑوں نے تمہارا کیوں رکھ دیا۔ اس لیے تم بہت ہی ناز سے کہتی تھیں کہ یہ نہ سمجھنا کہ اس شہر میں ایک ہی راہی ہے، بلکہ راہی کی جوڑی رہتی ہے۔ تم نے جوڑی بنائی اور خود ہی توڑ ڈالی۔ ایسی کونسی قیامت آگئی تھی، جس نے ہمارے پیار کی کائنات کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ اوروں کی طرح ہمارے بھی پیار کے کچھ دُشمن تھے لیکن ایسا تو نہیں ہوتا کہ ان کی باتوں میں آکر یا ان کے خوف سے ہم خود اپنی محبت کا گلا گھونٹ دیں۔ کیا تمہیں یہ بتانا ضروری ہے کہ آج میں زندگی اور موت کی اُس دہلیز پر کھڑا ہوں، جہاں سے پیچھے مڑکر دیکھنے کا مجھ میں حوصلہ ہے نہ آگے بڑھنے کی سکت میں تو اب حالات کے رحم و کرم پر ہوں، اُس ملاح کی مانند جس کی کشتی سمندر میں ڈوب چکی ہے ظالم لہروں نے اس کے ہاتھ پاؤں شل کر دئیے ہیں اور بے رحم موجیں اُسے اُچھالتی پھر رہی ہیں۔ میں اس تحریر میں نہ تو اپنے جذبات و کیفیات کی مکمل عکاسی کر سکتا ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ ایک ایک پَل اور ایک ایک ساعت کی تمہیں تصویر دکھاؤں، کیونکہ جو کچھ بھی لکھوں گا، ان باتوں سے تم بھی اسی قدر باخبر ہوجتنا کہ میں تمہارے ساتھ گزارے ایک ایک پَل کی یادیں، میرے دِل پر اسی طرح نقش ہیں، جیسے موئن جودڑو سے برآمد کی گئی پتھروں پر کندہ تحریریں، جنہیں آج تک کوئی پڑھ نہ سکا۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ تم بھی عارضی طور پر ناراض ہو، اسی لیے خاموش ہو، جب سچ پر سے پردہ اُٹھے گا تو ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر میرے پاس آجاؤگی۔ لیکن جُدائی کے لمحات طویل سے طویل تر ہوتے چلے گئے۔ دن مہینوں اور مہینے سالوں پر محیط ہوگئے۔ میں نے اُمید کا دامن ہاتھوں میں تھامے رکھا، کیونکہ مجھے تم پر اور تمہاری محبت پر غیرمتزلزل بھروسا تھا۔ ہمارا پیار کوئی معمولی پیار نہ تھا۔ میں تو سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ تم اُس مقام سے پیچھے بھی ہٹ سکتی ہو۔
محبت کی حدت اور اخلاص کی شدت سے لکھا ہوا میرا یہ آخری خط نہ تو میری جیون کتھا ہے نہ مکمل پریم کہانی یہ تو میرے جسم و جان کے وہ بکھرے ٹکڑے ہیں جو یاد داشتوں کے دشت میں بکھرے پڑے تھے۔ انہی ٹکڑوں کو جمع کرکے تحریر کی شکل میں تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ میری زندگی کا وہ حصہ جو تمہارے ساتھ گزرا، تمہارے رنگ و نور نے بھروسا دیا تھا لیکن جب تم جُدا ہوگئیں تمہارے رنگ اُتر گئے ہیں، صرف پت جھڑ کا پیلا رنگ رہ گیا ہے۔ بہاروں کے تمام رنگ، جنہیں میں اپنا نصیب سمجھ رہا تھا، مجھ سے چھن گئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ میرے اس خط میں تمہیں الفاظ کی تلخی اور سختی کا احساس ہو رہا ہو جوکہ میری فطرت کے عین خلاف ہے لیکن میں بھی کیا کروں، دُکھ ہی اس قدر جھیلے ہیں۔ میں کرب کے جن مراحل سے گزرا ہوں، اب اگر میری سانس کسی دن، کسی بھی لمحے منجمد ہوجائے تو شاید مجھے احساس تک نہ ہو۔ میرے ٹوٹے خوابوں کی تمام کرچیاں، میرے دِل میں چھبتی رہتی ہیں، لیکن یقین جانو میرے لبوں پر اب بھی مسکراہٹوں کی بہار اور خوشیوں کا انبار ہے۔ آنکھوں سے دُکھ درد کا اِظہار ہے مگر اس سے قبل کہ یہ آنکھیں پتھرا جائیں، انہیں تمہیں آخری بار دیکھنے کا اِنتظار ہے۔ تم سے بچھڑے کئی عشرے بیت گئے۔ اس عرصے میں گھر، خاندان، عزیز و اقارب اور دوست احباب کے ہجوم میں بھی جس طرح تنہائی کا زہر پیتا رہا۔ اِس کے لیے کوئی قسم کھانے کی ضرورت نہیں۔ جسم سے روح نکل جائے تو اُس جسم کا کوئی نام ہوتا ہے نہ کوئی کام۔ تم تو بہت نڈر اور بے باک تھیں پھر کس مجبوری کے تحت تم نے دوسروں کا یقین کرلیا، مگر جو تمہارا سب سے اپنا تھا، اُسے اتنا بھی پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ صفائی کا موقع دیے بغیر کسی کو مجرم قرار دینا کہاں کا اِنصاف ہے؟ حیرت تو صرف اس بات پر ہے کہ تب میرے بغیر ایک دن نہیں گزار سکتی تھی، اب عمر کیسی تنہا کاٹ رہی ہے۔
(’’کلیاتِ کریمی‘‘ کی تیسری جلد ’’تخلیاں‘‘ سے ایک افسانہ۔)