کالمز

حفظانِ صحّت کے اصل اصول

تحریر: ارشاد اللہ مکرر

دین اسلام کے اصول ، عقائد اور قوانین کو اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیّاں ہو جاتی ہے کہ دور حاضر کے مسلمان ان کی پابندی سے بہت دور ہیں۔ اگر مسلمام قوم میں کوئی ایسا اولو العزم انسان پردہ غیب سے وجود میں آجائے جو مسلمانوں کو اسلام کے اصلی اور صحیح مرکز پر لے آئے تو اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کی قوت و سطوت کا طرہ افتخار آسمان تک پہنچ جائے گا مجھے اس وقت اسلام کی کی سیاسی اہمیت سے بحث کرنا مقصود نہیں بلکہ میں اس کے صرف ایک خاص پہلو سے بحث کرنا چاہتا ہوں جس پر اس وقت تک شاید کسی نے غور نہیں کیا تھا۔ یہ پہلو ان اسلامی احکام و قوانین سے تعلق رکھتا ہے جو قرآن کریم سے حفظان صحت اور تندرستی کے متعلق مقرّر کئے ہیں ۔ میں نہایت وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ روئے زمین کی تمام کتب سماوی پر قرآن کریم کو خاص امتیاز حاصل ہے۔

اسلام نے صفائی و پاکیزگی اور پاکبازی کے روشن اصول و ہدایات کو نافذ کرکے مجرمانہ زندگی کا خاتمہ کر دیا ہے۔صفائی کے سلسلہ میں غسل اور وضو کے فرا ئض نہایت دور اندیشی اور مصلحت پر مبنی ہیں۔ چنانچہ غسل میں تمام جسم کا او ر وضو میں ان اعضاء کا پاک و صاف کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے جو عام طور سے کاروبار یا چلنے پھرنے میں کُھلے رہتے ہیں۔منہ کا صاف کرنا ، دانتوں کا مسواک کرنا ، ناک کے اندرونی گرد و ٖغبار وغیرہ کو دور کرنا ، یہ تمام حفظان صحت کے لوازم ہیں۔

اسی طرح حضرت محمدﷺ نے جن جانوروں مثلاََ خنزیر وغیرہ میں امراض ہیضہ اور بخار مہلک کا خطرہ دریافت کر لیا تھا ، اسلئے ان کو حرام کر دیا ۔ اور جن جانوروں کو حلال قرار دیا ان کے ذبح کرنے کا شارع اسلام ﷺ نے جو طریقہ تلقین کیا وہ بہت ضروری اور بہت اہم ہے۔ اسلئے کہ گرمی اور حدّت جانوروں کے خون میں فاسد مواد پیدا کرتی ہے اور ہزارہا ایسی بیماریوں کا باعث ہوتی ہے جو نسل انسانی کیلئے سِم قاتل کا حکم رکھتی ہے، اسلئے ذبح کرنے کی صورت میں جانور کے خون کا کثرت سے خارج ہونا ضروری ہے جس سے خرابی کا خطرہ باقی نہیں رہتا۔

اسلام نے تعداد ازدواج کی اجازت قوم کو نسل کی کمی سے نا قابل تلافی نقصان سے محفوظ رکھنے کی غرض سے دی ہے اور یہ ایک بے نظیر اصول ہے جس کی ہمیں تہہ دل سے قدر کرنی چاہیے ۔ شراب اور تمام نشہ آور چیزوں کا حرام قرار دینااسلام کا اتنا بڑا احسان ہے جس کے بار گراں سے انسان کبھی سبکدوش نہیں ہو سکتا ۔ اوہ ہم مدّعیان تہذیب وتمدّن کو اس بارے میں مسلمانو ں پر حسد کرنا چاہیے حیاتِ مستعار کو ایک بے حقیقت چیز سمجھنا او ر جان کی مطلق پرواہ نہ کرنا اس کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔

ایک قادر مطلق ہستی کا پختہ اعتقاد کرنا اور مزید بر آں حفظ صحت کے قدرتی و فطری اصول و قوانین جن میں انسانی فکر و تدبّر کو کچھ بھی دخل نہ ہو یہ سب باتیں جسم انسانی کی تمام طاقتوں اور قوتوں کو مدّت دراز تک صحیح سالم اور مضبوط و مستحکم رکھنے کیلئے نہایت موثّر اور یقینی وسائل ہیں بہر حال اسلامی تعلیمات کی فوقیّت او ر فضیلت اظہر من الشمس ہے۔

اس موقع پر قدرتاََ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مسلمانوں نے اسلام کی پیروی ترک کردی، قرآنی تعلیمات سے رُو گرداں ہو گئے۔ سچّا اسلام عملی صورت میں اس زمانہ میں کہیں نظر نہیں آتا اور اس کی بگڑی ہوئی ہئیت سے نام نہادمسلمانوں کو تنزّل ، ضلالت ، جہالت کے عمیق غار میں گرنا پڑاہے تو آخر اس قوم کا انجام کیا ہوگا۔

ہمارے نزدیک اس کے ساتھ یہ سوال بھی ہونا چاہیے کہ اگر اسلام نہ ہوتا تو ان قوموں کا جواب مسلمان کہلاتی ہیں کیا حشر ہو سکتا تھا اور ان قوموں پر ہی کیا موقوف ہے۔ہمیں خود اپنی نسبت سے یہ سوال کرنا چاہیے ، حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلامی تہذیب دنیا میں جلوہ فگن نہ ہوتی تو ہماری کیا کیفیت ہوتی؟ انصاف کی بات یہ ہے کہ ہم کو اس بات کا سچے دل سے اقرار کرنا چاہیے ، کہ علوم مغربیہ کو عربی علوم و فنون نے حیرت انگیز فائدے پہنچائے ہیں ، اس احسان کو فراموش نہ کرنا چاہیے۔۔۔۔

اور سچی بات یہ ہے کہ کہ آج بھی اسلام زندگی کے ہر شعبے کی ہدایات بتارہی ہے یہ وہی قرآن ہے جن کو مغرب لے کر ہم سے آگے بڑھ گئے اور ہم مسلمان ہو کے بھی اس پر غور و فکر و تدبّر کرنے کیلئے تیار نہیں ، پس یہ بربادی کی بد دعا کرنے لگے تو اپنی بربادی کا گلہ کیوں کیا جائے، بھائیوں ہم اسلام کے علوم سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔۔۔۔ہاں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔۔۔

قلم ایں جاں رسید و سر بشکست۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button