رات میں ڈھلتی ہوئی چٹورکھنڈ کی وہ شام بڑی غضب ڈھا رہی تھی۔ ریسٹ ہاؤس کے صحن میں پڑی کرسیوں پر بیٹھے نہ جانے ساتھ بہتے ہوئے چٹورکھنڈ نالے کا شور زیادہ تھا یا دل میں پرانی یادوں کی آگ کے دریا کا۔۔۔ مجھے پریشان کیے دے رہا تھا۔ کبھی کبھی ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دل اتنا بے قابو ہو جاتا ہے کہ سینہ چیر کے باہر آنے کو چاہتا ہے۔ ایسے میں چاندنی رات کی خاموشی گویا قیامت برپا کر دیتی ہے۔ اُس دن بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ موسم صاف تھا اس لیے صاف و شفاف آسمان پر ستارے چمک رہے تھے اور چودویں کا چاند پوری آب و تاب سے چٹورکھنڈ اور کوچدہ گاؤں پر اپنی ٹھنڈک بکھیر رہا تھا۔ ایسا منظر کسی شاعر کو خوابوں کی دُنیا میں پہنچا دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ شاید ایسے ہی کسی منظر کی ہم نے اپنی پہلی کتاب ’’شاید پھر نہ ملیں ہم‘‘ میں رومان میں ڈوبی ہوئی منظرکشی کی تھی؎
فلک کی وسعتوں میں جب ستارے جگمگاتے ہیں
ہمیں دل کے پُرانے روگ پھر سے یاد آتے ہیں
چٹورکھنڈ اور کوچدہ کی سرزمین جہاں اپنی زرخیزی اور مردم خیزی کی وجہ سے مشہور ہے وہاں حُسن خیزی میں بھی فسوں خیزی کا درجہ رکھتی ہے۔ اکثر مقامی شعرا نے اپنی شاعری میں اس سرزمین کو مصر سے تشبیہ دی ہے۔ مظفر الدین بیگانہ مرحوم نے تو حد کر دی ہے۔ کہتے ہیں؎
مصرو شہر نکی کی لالیمن
تہ چٹورکھنو سوم برابار
ترجمہ: ’’اگر میں نسوانی خوبصورتی میں مشہور مصر کے شہر کو بھی دیکھتا ہوں تو مجھے مصر کا شہر بھی آپ کے خوبصورت چٹورکھنڈ کے برابر نظر نہیں آتا۔‘‘
اب ایسے خوبصورت گاؤں میں آپ ہوں۔ چاندنی رات ہو، بیٹھنے کو ریسٹ ہاؤس کا سزہ زار اور کرسیاں ہوں اور ساتھ میں بہتا ہوا چٹورکھنڈ کا نالہ اور نالے کے پار کوچدہ کی فسوں خیزخوبصورتی اور اس خوبصورتی کے ساتھ آپ کی پُرانی یادیں بھی جڑی ہوں تو لامحالہ آپ خوابوں کی دُنیا میں پہنچ جائیں گے۔ میں انہی کیفیات کے ساتھ نہ جانے کب سے کرسی پہ دراز ہوکے آسمان میں چمکتے ستاروں اور چاند کی فسوں خیز چاندنی میں کھویا تھا۔ میں چاند کو دیکھ سکتا تھا اور اپنی روح کی گہرائیوں تک اس کی روشنی محسوس کر سکتا تھا لیکن اسے پا نہیں سکتا کیونکہ چاند کو صرف دیکھا جاتا ہے پایا نہیں جا سکتا۔ مدہوشی کا عالم تھا جیسے؎
کریمی! کو کون چھڑائے تیری محبت سے
یہ وہ نشہ ہے جو ملتا نہیں شرابوں میں
ایسے میں کسی کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔ ’’سر! آپ ادھر ہیں اندر کھانا لگ چکا ہے۔ مہمانوں نے کافی انتظار کیا۔ آپ نہیں آئے اس لیے وہ ابھی کھانا کھا رہے ہیں۔ آپ چلیں ناں اندر۔‘‘
میں نے کہا ’’نہیں میں کھانا کھا کے آیا ہوں آپ لوگ مہمانوں کو کھانا کھلائیں میں بعد میں آتا ہوں۔ کھانے کے دوران خواہ مخواہ مہمان ڈسٹرب ہوں گے۔‘‘
انہوں نے اسرار کی لیکن میں نے نہیں مانا۔ اب انہیں کون سمجھاتا کہ اس قیامت خیز منظر کو چھوڑ کر کس کم بخت کو پیٹ پوجا کی پڑی ہے۔ میں تو ویسے بھی کھانا کھا کے آیا تھا۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ جو مذہبی کرسی ہمارے پاس ہے۔ اس کرسی کی معاشرے میں بڑی قدر ہے ہمارے بےوقت وہاں جانے سے وہ کھانا چھوڑ کے ہمارےاستقبال کے لیے اٹھیں گے جوکہ اچھی بات نہیں ہے۔
اتنے میں وہ صاحب پھر نمودار ہوئے تھے۔ ’’سر! انہوں نے کھانا کھایا ہے۔ آپ اندر تشریف لائے۔‘‘
میں جونہی اندر داخل ہوا۔ احبابِ سخن کھوار کے صدر مراد خان صاحب،احبابِ سخن کے دیگر ممبران اور استاد افضل اللہ افضل کے ساتھ آئے ہوئے چترال کے شعراکو اپنا منتظر پایا۔ سب نے اٹھ کر میرا استقبال کیا۔ مراد صاحب نے چترال سے آئے ہوئےشعرا کا مجھ سے اور میرا ان سے تعارف کروایا۔ اتنے میں چہرے پر خوبصورت داڑھی سجائے ایک شخصیت کھڑی ہوئی اور آکے مجھ سے بغلگیر ہوئی۔ بہت معذرت کی اور کہا کہ ’’سر! میں نے آپ کو پہچانا نہیں، آپ کا غائبانہ تعارف ہوچکا تھا۔آج ملاقات بھی ہوئی۔‘‘ میں نے ان کو پہچانا نہیں تھا اس لیے میری سوالیہ نظریں مراد کی طرف اٹھیں انہوں نے کہا ’’سر! یہ ریشم خان درانی ہیں۔ دائین سے ان کا تعلق ہے اور کھوار زبان کے اچھے شاعر ہیں اور گلوکار بھی۔‘‘ ریشم خان نے بتایا کہ ’’کچھ دن پہلے حلقہ ارباب ذوق گلگت کے احباب میرے گھر آئے تھے۔ آپ کا تذکرہ ہوا تھا۔ خصوصاً عبدالخالق تاج صاحب کے ہر جملے کے شروع اور آخر میں آپ کا نام ہوتا تھا۔ تب سے آپ سے ملنے کا اشتیاق تھا۔‘‘ میں نے کہا کہ شکریہ یہ اُن کی محبت ہے باقی من آنم کہ من دانم۔
خیر بات ہو رہی تھی احبابِ سخن کھوار اشکومن کے احباب کی جانب سے منعقدہ تقریب کی۔ اس تعارفی سیشن کے بعد ان احباب کی جانب سے فروٹ پیش کیا گیا اور اس دوران کہا گیا کہ پروگرام شونس میں ہوگا۔ گاؤں شونس چٹورکھنڈ سے چار پانچ میل کے فاصلے پر ہے۔
سو، اب یہ قافلہ چار پانچ گاڑیوں میں گاؤں شونس کی طرف رواں دواں ہوا۔ ایک آدھ گھنٹے کی مسافت کے بعد اب ہم گاؤں شونس میں سید شاہ ہمت کے دولت خانے میں خیمہ زن ہوچکے تھے۔ تقریب کا آغاز ہوچکا تھا۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ نظامت کے فرائض جناب سردار خان بیغش انجام دے رہے تھے۔ جبکہ نامور صحافی اور فوٹوگرافر کریم رانجھا اپنے کیمرے کی آنکھ میں اس خوبصورت تقریب کے مناظر قید کر رہے تھے۔ پروگرام کے اغراض و مقاصد کے لیے صدرنشین احباب سخن کھوار جناب مراد خان کو اسٹیج پر بلایا گیا۔ انہوں بڑے خوبصورت پیرائے میں نہ صرف اس پروگرام کے حوالے سے بتایا بلکہ احبابِ سخن کھوار کے قیام کا مقصد اورغذر اور چترال کے درمیان تعلقات کے پل تعمیر کرنے اور خصوصاً کھوار زبان کے فروغ پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے حکومتی سرپرستی نہ ہونے کا بھی برملا شکوہ کیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ضلعی انتطامیہ ادب و ثقافت کے نام پر آنے والے بجٹ کا استعمال آخر کہاں کرتی ہے۔ غذر میں زبان و ثقافت کے فروغ میں کوشاں ان ادبی تنظیموں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔
اب مہمان خصوصی جناب استاد افضل اللہ افضل کو دعوتِ خطاب دیا گیا تھا۔ افضل صاحب نے مختصر الفاظ میں احبابِ سخن کھوار کی کاوشوں کو سراہا اور یہ شام ان کے نام کرنے پر اپنے شکریے کا اظہار کیا۔کرنے پر اپنے شکریے کا اظہار کیا۔
اسٹیج سیکریٹری نے اب تقریب کے صدرِ نشین کی حیثیت سے مجھے دعوتِ خطاب دیا۔ میں نے اپنی گفتگو کا آغاز اسلام میں میوزک کی حیثیت کیا ہے؟ سے کیا۔ (یہ وضاحت ضروری تھی کیونکہ کچھ عقیدت مند آنکھیں مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھیں کہ مشاعرہ اور میوزیکل نائٹ ہے اور ایک واعظ صدرنشین کی حیثیت سے شریک ِ محفل ہے۔ اس لیے وضاحت ضروری تھی۔) بعداذاں میں نے احبابِ سخن کھوار کی کاوشوں کو سراہا اور خصوصاً اس تقریب کا انعقاد بعنوانِ ’’ای شام کھوار زبانو ساغر صدیقی استاد افضل اللہ افضل صاحبو وا چھترار ار گیرو مینوان نامہ‘‘ یعنی کھوار زبان کے ساغر صدیقی استاد افضل اللہ افضل صاحب اور چترال سے آئے ہوئے مہمانوں کے نام کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ زندہ قومیں اپنی مشاہیر کی زندگی میں ہی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ افضل اللہ افضل صاحب کی ادبی اٹھان کا آپ اس بات سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کو کھوار زبان کا ساغر صدیقی کہا جاتا ہے۔ جی ہاں! وہ مدہوش اور نشے میں دھت ساغر جو لاہور کی سٹرکوں پر زندگی کے ایام تو جیسے تیسے کاٹ رہا تھا لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے ادبی مقام کا لوگوں کو پتہ چلا۔ کہتے ہیں جب لوگوں نے آپ پر کفر کے فتوے لگائے اور کہا کہ یہ ہمیشہ شراب پی کے دین و مذہب بھلا چکا ہے تو ساغر بڑے خوبصورت پیرائے میں اس کا جواب دیتے ہیں؎
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ بات ہو رہی تھی تقریب کی۔ اس کے بعد ایک مختصر کھوار مشاعرہ ہوا جس میں افضل اللہ افضل، ممتاز علی انداز،محمد اکرام اکرام، دیدار جان دکھی اور اسد نے اپنے کھوار کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ میں نے اپنا اردو کلام سنایا۔
بعدازاں میوزیکل نائٹ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ جس میں افضل اللہ افضل (جس کے کلام کو ظفر حیات اپنی پُرسوز اور دلگیر آواز میں گا رہے تھے۔)، ممتاز علی انداز، شاہدِ یخسوز(ایک نوجوان شاعر ہیں جو مقامی تمام زبانوں میں شاعری اور گلوکاری بڑے خوب کرتے ہیں۔) اور دیدار جان دُکھی نے یکے بعد دیگرے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ خوبصورت اور مزاحیہ رقاص لغل شاہ اور ان کی ٹیم نے رقص کرکے محفل لوٹ لی۔ جبکہ چترال سے آئے ہوئے شاہد صاحب ستار کے تاروں سےبڑی خوبی سے چھیڑ رہے تھے۔ جب سر اور تال ملتے ہیں تو محفل جھوم جاتی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب استاد افضل اللہ افضل خود اپنے کلام گانے کے لیے اسٹیج پر گئے تو گویا محفل میں موجود لوگ سانس لینا بھی بھول گئے۔ ایک عجیب سماں بندھ گیا تھا۔ سچ کہا ہے کسی دل جلے نے کہ ’’موسیقی روح کی غذا ہے۔‘‘
ساز و آواز کی اس محفل کے ساتھ چترال سے آئے ہوئے مہمانوں سے بڑی دلچسپ گفتگو بھی رہی۔ اس دوران صاحبِ خانہ کی جانب سے سویٹ اور چائے بھی پیش کی گئی۔ چائے کے اس مختصر وقفے میں مجھے سگریٹ کی بو محسوس ہوئی۔ میرے پہلو میں بیٹھے افضل اللہ افضل صاحب سگریٹ سلگا کے کش لگا رہے تھے۔ کسی صاحب نے ان کے کان میں کچھ کہا اور انہوں نے سگریٹ بجھائی اور باہر نکلے اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آکے مجھ سے معذرت کی کہ ’’مجھے پتہ نہیں تھا آپ مشنری (چترال میں واعظین کو مشنری کہتے ہیں۔) ہیں، مجھے معاف کر دیجئے میں نے آپ کے سامنے سگریٹ سلگائی۔‘‘ میں نے کہا ’’آپ ہمارے مہمان ہیں کوئی مسلہ نہیں ہے۔‘‘ افضل اللہ افضل صاحب کی اس ادا میں انکساری و خلوص کا ایک امڈتا ہوا دریا مجھے نظر آیا تھا جوکہ اہلیانِ سرزمینِ چترال کا خاصہ ہے۔ افضل صاحب بذاتِ خود اسماعیلی نہیں ہیں۔ آپ کا تعلق اہلِ سنت والجماعت سے ہے اس کے باوجود ایک واعظ کے لیے ان کے دل میں اتنی قدر ان کی اعلیٰ خاندانی و نسبی تربییت کی رہینِ منت ہے۔ اللہ انہیں جزائے خیردے۔
یوں رات دس بجے شروع ہونے والی یہ تقریب آدھی رات تین بجے خوبصورت یادوں اور احباب سخن کے سیکریٹری جنرل جناب عاشق حسین عاشق کے تشکرانہ کلمات کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ نہ جانے اس سمے داغ دہلوی رہ رہ کے کیوں یاد آئے تھے؎
شبِ وصال ہے گل کر دو ان چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا