کالمز

وزیر اعلی کے اعلانات ۔اپوزیشن کی تنقید

تحریر: دردانہ شیر

وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے رواں ماہ گلگت بلتستان کے طوفانی دورے شروع کر دئیے ہیں اور گزشتہ ان کے دور حکومت کے دو سال میں اتنے اعلانات نہیں ہوئے جتنے اعلانات رواں ماہ خطے میں اپنے دوروں کے دوران عوامی جلسوں سے خطاب میں کئے۔ اب یہ اعلانات جون میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں پارٹی امیدواروں کی انتخابی مہم ہے یا کوئی اور وجہ اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ سب سیاسی اعلانات ہے ان میں سے کسی اعلان پرکوئی عمل نہیں ہونے والا۔ راقم کے خیال میں ایسا نہیں ہے بلکہ وزیر اعلی گلگت بلتستان نے اس دفعہ جو اعلانات کئے ہیں ان پر ضرور عملدار آمد ہوگا اور اگر سیاسی اعلان ہوتا تو سابق حکمرانوں کی طرح گوپس /یاسین کو ضلع بنانے کا بھی اعلان کرتا۔ بقول وزیر اعلی کے کہ ضلع کا اعلان کرنا میر ے اختیار میں نہیں البتہ کوشش ضرور ہوگی۔ اگر وزیر اعلی نے اپنے حالیہ دوروں میں جو اعلانات کئے ہیں ان کوعملی جامہ نہیں پہنایا تو اس سے ایک طرف حکمران جماعت کو ائندہ بلدیاتی الیکشن میں ناکامی کا سامنا کر نا پڑے گا بلکہ صوبائی انتخابات میں بھی سیاسی نقصان ہوگا۔

دوسری طرف گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینے کی بھی باتیں چل رہی ہے گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں پانچ پانچ سیٹیں دینے کی بھی افواہیں ہیں اور یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ اگلے سال ہونے والے ملک کے انتخابات میں گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی کے اگر پانچ نشستیں دی گئی تو ان پر بھی الیکشن ہونگے۔ اگر واقعی میں ایسا ہے تو کئی موجودہ حکمرانوں نے ابھی سے ہی الیکشن مہم شروع تو نہیں کی۔ گلگت بلتستان کی حکمران جماعت خصوصا وزیر اعلی گلگت بلتستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ ا نھیں اپنے اعلانات کو عملی جامہ پہنانا ہوگا اور اب چونکہ جون میں گلگت بلتستان میں بلدیاتی الیکشن بھی ہونے جارہے ہیں ایسے میں اگر انھوں نے اپنے اعلانات پر عملدرامد نہ کرایا تو اس سے مسلم لیگ (ن) کو سخت سیاسی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ چونکہ پی پی پی کے سابق حکمرانوں نے بھی اپنے دور اقتدار میں عوام کو سبز باغ دیکھا یامگر گلگت بلتستان کے عوام نے ووٹ کے ذریعے پی پی کے حکمرانوں کو ان کے کئے کا صلہ دیکر اپنا بدلہ نکال دیا۔ ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی گلگت بلتستان کی صوبائی اسمبلی کی چوبیس نشستوں میں سے صرف ایک سیٹ ہی بچا سکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پی پی کے حکمرانوں نے بھی بلند بانگ دعوے کئے مگر کئی اعلانات پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے عوام نے ووٹ کے طاقت سے انھیں مسترد کیا۔

موجود ہ حکومت کی دو سالہ کارکردگی کو بھی اگر دیکھا جائے تو موجودہ حکمرانوں کی کارکردگی بھی کوئی بہتر نظر نہیں آتی۔ گلگت بلتستان کو ملک سے ملانے کے لئے کئی شاہراہوں کی تعمیر کا بھی اعلان سامنے آیا مگر تاحال ان اہم منصوبے کی تعمیر کی صرف باتیں ہی ہورہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ گلگت چترال روڈ کو سی پیک میں شامل کر دیا گیا ہے اور وزیر اعلی کی اس یقین دہانی پر اب امید پیدا ہوگئی ہے کہ اگلے سال شاید اس اہم شاہراہ کی تعمیر شروع ہو۔ اگر اس اہم منصوبے کی تعمیر ہو تو حکومت سیاحت کے شعبے سے ہی سا لانہ اربوں روپے کما سکتی ہے۔ گلگت بلتستان میں اس سال ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ سے زائد سیاح آچکے ہیں اور اگر ان سیاحوں کو اس علاقے کے حوالے سے اگر کوئی شکایت ہے تو وہ صرف یہاں کی خستہ حال سڑکیں ہیں جن کی مناسب دیکھ بال نہ ہونے کی وجہ سے آج یہ سڑکیں آثار قدیمہ کی شکل اختیار کر گئی ہے۔

2010کے سیلاب نے گلگت بلتستان کی زیادہ تر سڑکوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا تھا ابھی ان کی بحالی کاکام مکمل بھی نہیں ہوا تھا تو رہی سہی کسر اکتوبر 2015کے زلزلے اور پھر اپریل 2016کی بارشوں نےپوری کردی۔ اس وقت گلگت سکردو روڈ، استور روڈ اور غذر روڈ آثار قدیمہ کا منظر پیش کر رہے ہیں اور ان علاقوں کی سڑکوں پر سفر کرنا ایک عذاب سے کم نہیں۔ ان اہم شاہراہوں کی مرمت کے لئے نہ تو سابقہ حکومت نے کوئی توجہ دی اور نہ ہی موجودہ حکومت کے دورمیں ان سڑکوں کی دیکھ بال میں کوئی تبدیلی نظرنہیں آرہی ہے۔ گلگت بلتستان کی ان شاہروہوں کی تعمیر سے علاقے کی تقدیر بدل سکتی ہے اور گلگت بلتستان کو ملک سے ملانے کے لئے مزید تین شاہراہیں تعمیرہو جن میں سے شونٹر مظفر آباد روڈ، گلگت چترال روڈ، بابوسر روڈ، گلگت سکردو روڈ شامل ہیں۔ اگر ان شاہراہوں کی تعمیر ہوئی تو گلگت بلتستان کا یہ خطہ صرف سیاحت سے ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔

وفاق میں (ن) لیگ کی حکومت ہے پاکستان مسلم لیگ گلگت بلتستان کی حکومت کے پاس یہ ایک بہترین موقع ہے اس موقع سے فائدہ اٹھاکر(ن) لیگ کی حکومت یہاں کے عوام کا دل جیت سکتی ہے۔ اگر یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا تو اگلے آنے والے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی حثییت بھی پی پی سے بہتر نہیں ہوگی چونکہ عوام اب عملی کام دیکھناچاہتے ہیں۔ اگر مسلم لیگ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا تو اگلے الیکشن میں بھی ان کی کامیابی یقینی ہے۔ اگر سیاسی اعلان سے گزارہ چلایا گیا تو انے والے الیکشن میں مسلم لیگ کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے وزیر اعلی گلگت بلتستان کی صوبے کے طوفانی دوروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت خطے کی اہم شاہراہوں کی تعمیر کے لئے سنجیدہ ہے اگر صرف یہاں کی یہ اہم شاہراہیں ہی تعمیر ہوتی ہے تو گلگت بلتستان کا یہ خطہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ اب چونکہ مسلم لیگ کی وفاق میں حکومت کی مدت ایک سال سے بھی کم رہی ہے اس ایک سال میں گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کوخطے کی تعمیرو ترقی کے لئے اہم اقدامات اٹھانے ہونگے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو نہ صرف بلدیاتی الیکشن بلکہ انے والے صوبائی انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) کو گلگت بلتستان میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button