کالمز

وزارت سے محروم غذر

تحریر: شمس الحق نوازش (غذری)

 گاؤں کے نمبردار چوڑاک بلبل کی دو شادیاں اور ایک درجن سے زائد اولاد تھے۔۔۔۔ لیکن ان میں شریف علی خان اورسنگین علی خاناسمِ با مسمیٰ تھے۔۔۔ شریف علی خان تمام اولادوں میں سب سے زیادہ شریف ، فرمانبردار اور تابع دار تھا۔۔۔ کسی بھی وقت قربانی کا بکرا بننا شریف علی خان کی زندگی کا معمول تھا۔۔۔ کسی بھی قسم کے چھوٹے بڑے کام کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہنا شریف علی خان کا شیوہ تھا۔۔۔دادی اماں کے لئے پانی گرم کرنا ہو۔۔۔یا داد جان کی لاٹھی سنبھال کر انہیں پکڑانے کی ذمہ داری۔۔۔بازار سے سودا سلف لانا ہو۔۔۔ یا گائے کے لئے چارے کا اہتمام۔۔۔کھیتوں کو پانی دینا ہو۔۔۔یا لکڑیاں کاٹ کر انگیٹھی کے سامنے سلیقے سے سجانے کی ڈیوٹی۔۔۔آٹے کے حصول کے لئے لائن میں کھڑا ہونے کی صعوبت ہو۔۔۔۔یا بجلی اور ٹیلی فون کا بل جمع کرنے کی اذیت۔۔۔ مہمانوں کی آمد کے ساتھ ہی انہیں سلامی دینا ہو۔۔۔یا مہمانوں کی رخصتی کے بعد گیسٹ روم کی صفائی۔۔۔۔داد جان کی طبیعت بگڑنے پر ڈاکٹر کے پیچھے ریس لگانے کی خواری ہو۔۔۔۔یا دادی اماں کو ہاسپٹل لے جانے کے لئے ٹیکسی کے پیچھے رسوائی۔۔۔بھیڑ بکریاں چرانے کی باری ہو ۔۔۔۔یا ماہوار جنگل میں جا کر یاکس کی رکھوالی۔۔۔دکان سے صابن یا سرف لانے کی ڈیوٹی ہو ۔۔۔یا چکی میں کوٹے کے گندم کی پسائی۔۔۔نمبردار کے لئے بازار سے سگریٹ لانے کی فرض منصبی ہو ۔۔۔یا داد جان کے نسوار ک ڈبیہ کی تلاش میں سرگردانی۔۔۔گھر کے ان تمام چھوٹے بڑے کاموں کی انجام دہی شریف علی خان کی ذمہ داری تھی ۔۔۔ کسی کام میں تاخیر کی صورت میں جواب دہی بھی تھی۔۔۔ اور کوتاہی کی صورت میں بے عزتی بھی۔۔۔کسی بھی وقت کوئی بھی کام شریف علی خان اپنا فرض منصبی اور ذمہ داری سمجھ کر نبھاتا ۔۔۔یوں سارے گھر والے اس کے فرمان روا تھے ۔۔۔اور شریف علی خان تمام گھر والوں کا فرمانبردار۔۔۔گھر والوں کی فرمان روائی شریف علی خان کے لئے فرمانِ واجب الادغان تھا۔۔۔ یوں ہر طرح کی سروس اور خدمات کی بجا آوری کے باوجود ۔۔۔آئے روز ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ کا نشانہ بھی شریف علی خان بنتا۔۔۔ دادی اور دادا بھی اس کو کوستے۔۔۔چھوٹے بھی اس کو جھڑکتے۔۔۔اور بڑے بھی اس کو گُھرکی اور دھمکی دیتے۔۔۔کوئی اس کی سنجیدہ اور ضروری گفتگو پر کان دھرتا ۔۔۔اورنہ ہی کوئی اس کی بزلہ سنجی اور بزلہ گوئی پر زیر لب مسکراتا۔۔۔اسکی کسی بات کی کوئی اہمیت تھی۔۔۔اور نہ ہی اس کی رائے کی کوئی وقعت۔۔۔اس کی موجودگی کا کسی کو احساس ہوتا ۔۔۔اور نہ ہی اس کی غیر حاضری سے کوئی اداس۔۔۔لیکن شریف علی خان مسلسل سکوت اختیار کرنے اور چپ سادھ لینے کو اپنی ڈیوٹی اور زندگی کا حصہ سمجھ رکھا تھا۔۔۔

جبکہ دوسری طرف سنگین علی خان انتہائی قہر آلود، سخت مزاج،اور نا شائستہ حرکتوں کا عادی تھا۔۔۔غلطی تو خود کرتا ۔۔۔لیکن اس کا خمیازہ دوسروں کو بھگتاتا۔۔۔گھر والوں سے بغاوت بھی کرتا ۔۔۔اور معمولی سے معمولی بات پر عداوت بھی۔۔ دادی اماں کو بھی کوستا اور دادا جان کو بھی گھورتا۔۔۔ دشنام طرازیوں سے گفتگو کا آغاز بھی کرتا ۔۔۔اور گالی گلوچ سے گفتگو کا اختتام بھی۔۔۔والدین کی معمولی سی بات پر آزردۂ خاطر بھی ہو جاتا ۔۔۔اور بلا وجہ بہن بھائیوں سے نفرت بھی کرتا ۔۔۔ہر وقت طیش میں بھی رہتا ۔۔۔ اور ہر ساعت نا راضگی اور برہمی کا اظہار بھی کرتا۔۔۔ جھگڑا کھڑا کر کے دوسروں کو مجبور بھی کرتا۔۔۔ اور دنگا فساد مچا کر غرور بھی۔۔۔ جس سے گھر کے بڑے بھی نالاں تھے۔۔۔اور چھوٹے بھی بیزار۔۔۔ قصہ مختصر! سنگین علی خان مسلسل زہر گھولنے کا عادی تھا ۔۔۔فتنہ و فساد اس کے پسندیدہ مشغلے تھے۔۔۔گھر والوں کو زہرہ گداز ماحول دینا ان کا منشور تھا۔۔۔۔یہ گھر کا زور آور فرمان روا تھا ۔۔۔اس کی زور آوری اور زبر دستی کی ستونوں پر قائم ریاست میں۔۔۔ اس کی فرمانروائی اور حکمرانی کے آگے کس کا بس چلتا ۔۔۔ اور نہ ہی کسی کا عذر کار گر ثابت ہوتا ۔۔۔لیکن سنگین علی خان سب کو اپنے جوتے تلے دبائے رکھا تھا۔۔۔یہ سلسلہ کئی سالوں تک چلتا رہا۔۔۔نمبردار کی تمام تر توانائیاں باقی بیٹوں کو سنگین علی خان کی سنگینی سے محفوظ رکھنے میں صرف ہو گئیں۔۔ بالآخر نمبردار نے سنگین علی خان کی سر کشی پر قابو پانے کے لئے تمام بیٹوں کو الگ الگ بسانے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔۔۔ کے مصداق ایک دن نمبردار کی جائیداد کی تقسیم کا وقت بھی آن پہنچا۔۔ اور نمبردار نے انصاف اور نظامِ عدل کی دامن کو مضبوطی سے تھام کر اپنی جائیداد بیٹوں میں تقسیم کر لیا۔۔۔ نمبردار کے جائیداد کی تقسیم کی خبر جب سوشل میڈیا میں آئی۔۔۔تو پتہ چلا۔۔۔نمبردار کے ذاتی پولو کا گھوڑا، چیری اور انگور کے باغات ، کپڑے کی دکان کا آدھا شیئر، وسیع رقبے پر پھیلا ہوا جنگل ، نئے ڈیزائن اور نئے نقش و نگار سے مزین مکان سنگین علی خان کے حصے میں آئے ۔۔۔ باقی ماندہ اور بچی کچھی جائیداد باقی بیٹوں میں بٹ گئی۔۔۔ بیٹیوں کو حصہ دینا دستور میں بھی جرم تھا۔۔۔اور نمبردار کی لغت میں بھی۔۔۔ لیکن گاؤں والوں کی حیرت اور تعجب کی انتہا اس وقت خلا کو چھونے لگی۔۔۔ جب یہ معلوم ہوا۔۔۔ کہ نمبردار کے دست مبارک سے تحریر کردہ ورثاء کی لسٹ میں شریف علی خان کا نام ہی شامل نہیں ۔۔۔۔نمبر دار سے استفسار کرنے پر معلوم ہوا۔۔۔ کہ نمبردار نے شریف علی خان کو جائیداد میں حصہ دینا ہی بھول گیا ہے۔

معزز قارئین۔۔۔۔ شیخ محمد بن رشید المختوم کا قول ہے۔۔۔کہ ترقی کے لئے انصاف اتنا ہی نا گزیر ہے۔۔۔جتنا زندہ رہنے کے لئے آکسیجن ۔۔۔ رونلڈ ریگن نے کہا تھا۔۔۔ جب تک امریکہ میں قانون اور انصاف کا احترام باقی رہے گا ۔۔۔۔اس وقت تک امریکہ دنیا کی سپر پاور رہے گا۔۔۔ لیکن ہماری روایات ، ہمارا سماج اور ہماری مزاج ساری دنیا سے یکسر مختلف ہے۔۔۔ہمارے گھروں، ہمارے معاشروں، ہمارے ضلعوں اور ہمارے صوبوں میں عدل و انصاف ہر روز رسوائی کا شکار ہے۔۔۔ ہم اپنے گھروں میں بھی انصاف کو کچلتے ہیں ۔۔۔ اور اپنے معاشروں میں بھی انصاف کی دھلائی کرتے ہیں۔۔۔ بازاروں میں بھی انصاف ہمارے جوتی کی نوک پر ہے ۔۔۔اور صوبوں میں بھی انصاف کو موم کی ناک بناتے ہیں۔۔۔۔ہمارے سماج، ہمارے ملک ، ہمارے صوبے اور ہمارے ضلعوں میں سب سے زیادہ بے بس اور مجبور کوئی چیز ہے۔۔۔تو وہ انصاف اور نظام عدل ہے۔

مسلمانوں نے جب بھی نظام عدل سے روگردانی شروع کر دی ۔۔۔تو ناکامی اور ذلت و رسوائی ان کا مقدر بنتا گیا۔۔۔دنیا میں مسلمانوں کے غلبے کی سب سے بڑی وجہ نظام عدل تھا۔۔۔جب تک مسلمان نبی ؐ کی اس حدیث پر عمل کرتے تھے ۔۔۔جس میں آپ ؐ نے فرمایا تھا۔۔۔اگر فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کرتیں۔۔تو خدا کی قسم میں ان کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔۔۔تو مسلمان ساری دنیا میں سرخرو تھے۔۔۔اور ساری دنیا میں مسلمانوں کا غلبہ تھا۔۔۔ لیکن جس دن سے نواز شریف ، شہباز شریف، حفیظ الرحمان، مہدی شاہ، قیوم علی شاہ اور کرم علی شاہ کے لئے الگ قانون جبکہ ملنگ جان ، مسکین جان اور مجبور خان کے لئے الگ قانون بنا ۔۔۔تو ہم جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے لگے۔۔۔اس وقت ہمارا انصاف کا سارا نظام لوٹ کھسوٹ ، زورا زوری ، سیاسی دباؤ، سمجھوتوں، مصلحتوں اور کرپشن میں لتھڑا ہے۔۔۔ اس وقت حق اور انصاف صرف اس شخص ، اس صوبے یا اس ضلع کو مل سکتا ہے ۔۔۔ جو انصاف کا گلا گھونٹ سکتا ہو۔۔ جو قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیر سکتا ہو۔۔۔

یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں۔۔۔ کہ اس وقت ضلع غذر صوبائی کابینہ میں شمولیت سے محروم کیوں ہے۔۔۔ناموس وطن کی خاطر جان کی بازی لگانے والے سب سے زیادہ شہیدوں کا تعلق اسی ضلع سے ہے۔۔۔ نشان حیدر پانے والے لالک جان اس ضلع کے فرزند ارجمند تھے۔۔۔ وادی شہید اس ضلع کو کہا جاتاہے ۔۔۔۔قدم قدم میں سبز ہلالی پرچم اس ضلع کے قبرستانوں میں لہرا رہے ہیں ۔۔۔دوسروں کی جان بچانے کے لئے اپنی جان کھونے والے تیغون نبی اس ضلع کے فرزند دل بند تھے۔۔۔جی بی کی تاریخ میں کبھی لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ اس ضلع میں پیدا نہیں ہوا۔۔۔ انتظامیہ اور پولیس کے آفیسرز اس ضلع میں ڈیوٹی کے لئے بے تاب رہتے ہیں۔۔۔ جیل اور تھانے اس ضلع میں ویران ہیں ۔۔۔امن و امان کا گہوارہ اور مثالی امن کا نمونہ اس ضلع کے القابات ہیں۔۔ کوئی بھی آفیسر اس ضلع سے تبادلے پر آنسوؤں سے منہ دھوتا ہے ۔۔۔ بھٹو نے ایف سی آر کا قلع قمع کیا۔۔تومِنی لاڑکانہ اس ضلع کو کہا جانے لگا۔۔۔نواز شریف کے محسن اس ضلع میں موجود ہیں۔۔ڈکٹیٹر سے بغاوت کرنے والے مجاہد اس ضلع میں بقید حیات ہیں۔۔۔۔ مسلم لیگ(ن) کے 19413 ووٹرز اس ضلع میں سانس لے رہے ہیں ۔۔۔۔پی ایم ایل (ن) کے خیمے کا مرکزی ستون سلطان مدد اس ضلع کے سپوت ہے۔۔۔ دنیا کی بلد ترین پولو گراؤنڈ شندور اس ضلع میں واقع ہے۔۔۔ شاہراہ چترال اس ضلع کے سینے کو چیر کر گزرتا ہے۔۔۔چترال اسکاؤٹس اس ضلع کے سرحد میں قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔۔۔1895ء کو محصورین چترال کو بچانے کے لئے ربرٹ سن اور کرنیل کیلی اس ضلع سے گزرے تھے۔۔۔اس وقت صوبائی حکومت کی کابینہ سے محرومی کا اعزاز اس ضلع کو حاصل ہے۔۔۔ موجودہ حکومت کے کیبنٹ میں کوئی ٹیکنو کریٹ ممبر اس ضلع سے نہیں ہے ۔۔۔جنوبی ایشیاء میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ خواتین اس ضلع میں موجود ہیں۔۔حکمران جماعت کو خاتون نشست کے لئے کوئی خاتون امیدوار اس ضلع سے نہیں ملی ہے۔۔پورے”جی بی”میں صرف ایک آزاد امیدوار اس ضلع سے جیتا ہے۔۔۔ حکومت اور حکومتی پارٹی میں غیر مشروط طور پر اس ضلع کا ایم ایل اے شامل ہے۔۔۔پورے گلگت بلتستان میں صرف اس ضلع سے کوئی وزیر نہیں ہے۔۔۔ وزارت سے محروم ڈسٹرکٹ اس ضلع کو کہا جاتا ہے۔۔۔ حالیہ زلزلہ میں سب سے زیادہ نقصان اس ضلع میں ہوا ہے۔۔۔قانون کی تقدس اس ضلع میں عروج پر ہے۔۔۔

قصہ مختصر!اس قدر بے شمار خوبیوں اور قربانیوں کے باوجود موجودہ حکومت کی ترازو میں اس ضلع کا کوئی وزن نہیں ہے۔

جی ہاں۔۔۔ معزز قارئین اب یہ سوال بڑی بیتابی سے آپ کے ذہن کے کسی کونے میں انگڑائی لے رہا ہوگا۔۔۔ اتنے بے شمار خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ضلع کو کابینہ میں شامل نہ کرنا چہ معنی دارد؟؟

بات واضح اور جواب بڑا آسان ہے۔۔۔یہ ضلع اپنے پاپا جان کا شریف علی خان ہے۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button