کالمز

دیامر میں سرکار کی عملداری کا احساس ہونے لگا ہے

تحریر۔اسلم چلاسی

ایک وقت تھا کہ دیامر میں چن چن کر ایسے انتظامی آفیسروں کو تعینات کرتے تھے جن کی ریٹائر منٹ قریب ہو اور اہلیت کے حساب سے کہیں بھی فٹ نہیں آتے ہو۔ وہ دیامر میں بڑے فٹ چلتے تھے ۔کام ٹکے کا نہیں کرتے بس آفیسری جماتے اور سال بھر میں عمر بھر کیلے بیلنس بنا کر چلتے بنتے اور یہی لوگ علاقے میں قومی تفریق کے خالق رہے ہیں ۔آج دیامر کا معاشرہ جس بے چینی میں مبتلا ہے اس کے بنیاد میں ان مقامی میٹرک پاس انتظامی آفیسروں کا ہاتھ ہے جو اپنے بدعنوانیوں کو بچانے کیلے اپنے دفاع میں قوم کے نام پر ایک گروہ کو تیار رکھتے تھے جو برے وقت میں ان کے ساتھ کھڑے رہتے تھے اور مقامی گروہ اس کے بدلے میں معمولی مراعات لیکر خوش رہتا تھا ۔

یہی وجہ بنیاد بنی ہے کہ اب تک دیامر کے عوام پتھر دور میں ہے ۔یہاں کی سڑکیں بجلی صحت و تعلیم سمیت تمام شعبے قابل رحم حالت میں ہیں ۔ ترقیاتی کاموں میں نصف سے زیادہ رقم ڈاکمنٹیشن پر خرچ ہوتا تھا ٹھیکدار برادری ٹینڈر ہوتے ہی کام کیے بغیر محکمہ سے گھٹ جوڑ کر کے رقم ایڈوانس میں نکال دیتے تھے اور بعد میں ان سے کام لینا محکمہ کی بس میں نہیں رہتا تھا مجبورًا محکمہ اس منصوبے کو کاغزات میں مکمل قرار دیکر معاملہ کو رفع دفع کرتا تھا یہی وجہ ہے کہ سر کاری کا غزات میں دیامر بھر کی حالت کچھ اور ہے جبکہ عملاً کچھ اور ہے اب یہ کاغزی دیامر اور کھلی آنکھوں والی دیامر کا موازنہ کریں تو ماضی کے کرپشن کا پول کھل کر سامنے آتا ہے اور بد قسمتی سے ان بدعنوان لوگوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی جن کے ہاتھوں اس ضلع کا ستیا ناس ہوا بڑے آرام سے ریٹائرڈ ہوکر چلے گئے اور آج کی نسل ان کے بوئے ہوئے نفرتوں کے بھیج کو اپنے سینوں میں محفوظ کر کے خستہ حال پتھر دور کی دھرتی میں جی رہے ہیں اور اس دوڑ میں سیاستدان بھی کسی سے کم نہیں رہے اپنے کامیابی کیلے زات پات کی تفریق معاشرے میں پیدا کی اور آپس میں لوگوں کو نہ صرف الجھا دیا بلکہ خون خرابہ تک رکارڈ کا حصہ ہے۔

کئی قیمتی جانیں مقامی سیاستدانوں کی منافقت سے ضائع ہوئی۔ کرسی کے مراعات تو سیاستدانوں کو ملے مگر خون کے دھبے مقامی معاشرے پر لگے جس سے ایک نہ ختم ہونے والی دیرینہ دشمنی نے جنم لیا الغرض عوام کم گو اور شعور ی طور پر بیدار نہ ہونے کی وجہ سے برسوں سے ایسے ابن الوقت اور بدعنوان لوگوں کی بوجھ سر پر اٹھائے جی رہی تھی لیکن اب حالات بدلے نظر آنے لگے ہیں عوام میں تیزی سے شعور بیدار ہورہا ہے نفع نقصان کو سمجھنے لگے ہیں اپنے آنے والی نسلوں کے مستقبل کو لیکر فکر من نظر آتے ہیں قومیت علاقایت سے آگے نکل کر ملت کی بات ہورہی ہے سیاستدانوں کو بھی احساس ہونے لگا ہے عوامی بات کرتے نظر آتے ہیں اپنے عوام کی فکر ہونے لگی ہے عوامی فلاح و بہبود کی باتیں سیاسی افق پر زوروں پر ہے ترقیاتی منصوبوں پر تاخیر ی حربوں سے سیاستدانوں میں تشویش پیدا ہوئی ہے سرکار ی مشینری کو ایک شخص نے لائن پر لا یا ہے تمام شعبوں میں کاہل ناکارہ اور کام چور عملہ کی دوڑیں لگ چکی ہیں۔

خوش قسمتی سے پہلی مرتبہ عوامی درد رکھنے والے ایسے محب وطن دیانتدار کمشنر دیامر ڈویژن سید عبد الوحید شاہ کی تعیناتی دیامر میں ہوئی ہے جس نے چند دنوں میں برسوں سے ضلع کی بگڑی ہوئی حالت کو بہتر بنایا ہے تمام شعبوں میں سرکاری عملے کی حاضری سمیت عوام کے ساتھ رویہ بھی بہتر دیکھائی دے رہا ہے۔ ٹھیکدار برادری کا عقل بھی ٹھکانے آگیا ہے ناقص میٹریل کے استعمال کا فی الحال سوچ بھی نہیں سکتے ۔ محکمہ واپڈا کو بھی پہلی دفعہ متاثرین کا احساس ہوا ہے آبادکاری کے حوالے سے بے چین نظر آتے ہیں صبح سے شام تک ہر جگہ کمشنر خود ہی پہنچتا ہے اور ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیتا ہے۔ چلاس شہر کا مرکزی سڑک جس رفتار سے بن رہا ہے اس طرح دیامر بھر میں جو گنے چنے ترقیاتی سکیمیں ہیں وہ بھی ایسی رفتار سے چلتے تو کیا بات تھی۔

مجھے کامل یقین ہے کہ کمشنر دیامر ڈویژن سید عبدالوحید شاہ ایسی رفتار سے باقی ترقیاتی کاموں کے رفتار کو تیز کرتے ہوئے ریاستی وسائل کو ضائع ہونے سے بچاینگے اور صوبائی حکومت سے بھی یہ امید ہے کہ ایسے خدا شناس ایماندار آفیسروں کی حوصلہ افزائی کرنے میں کنجوسی نہیں کرے گی اور عوام کو بھی چاہیے کہ ایسے آفیسروں کی حوصلہ افزا ئی کریں جو عوامی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button