ایک سوال ہمیشہ سے مجھے بے چین کئے آیا ہے کہ پاکستان میں نواز شریف جب بھی عوام کی تائید سے مسند اقتدار پرجلوہ گر ہوتے ہیں تو اچانک،سیاست کے ٹھہرے ہوئے پانیوں میں پتھر مار کر بھونچال کیوں پیدا کیا جاتا ہے؟۔۔۔،ماضی اور حال کے واقعات کو یکجا کر کے جب مشاہدہ کیا تو اس سوال کا جواب مل گیا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟اس کیلئے مختصرا لفاظ میں بین الاقوامی اور ملکی تاریخ کے چند واقعات کا زکر ضروری ہے،عمر مختار کے دیس میں کرنل قذافی اقتدار میں آئے تو لیبیا میں مغربی طاقتوں کو تیل کے کنوؤں پر حکمرانی کرتے دیکھا،مغربی طاقتیں لیبیا کے تیل کو کوڑیوں کے مول اپنے ملکوں میں پہنچاتیں جبکہ لیبیا میں وہی غربت،وہی بھوک و افلاس،کرنل قذافی نے تیل پر قا بض کمپنیو ں سے کہا کہ اگر تیل چاہئے تو نئے سرے سے معاہدے کرو ہماری دولت کا ہمیں حصہ دو،اگر نہیں تو ہمارے دیس سے نکل جاؤ،پچھلے چار ہزار سال تک تو ہم بغیر تیل کی دولت کے زندگی گزار رہے ہیں تو اب بھی مزید جینے کا حوصلہ ہے،یہی وہ نکتہ تھا جہاں سے مغربی طاقتوں نے دیکھا کہ یہ شخص تو ہمارے معاشی مفادات کا دشمن ہے تولیبیا کو دنیا میں تنہا کیا گیا لیکن دنیا نے دیکھا کہ تنہا لیبیا ترقی کی منزلیں بھی طے کرتا رہا اور دشمن کو آنکھیں بھی دیکھاتا رہا لیکن کہتے ہیں کہ جب تک گھر کا بھیدی دشمن کا ساتھ نہ دے دشمن کا وار خطا ہوتا ہے،لیبیا میں بھی گھر کے بھیدی نے دشمن کو موقع عطا کیا اور کرنل قذافی کو شہادت کے رتبے پر فائز کیا گیا، اسی طرز کی کہانی،مصر میں انوار سادات،جمال عبد الناصر،عراق میں صدام حسین اورسعودی عرب میں شاہ فیصل کے ساتھ دہرائی گئی۔
اب ذرا اپنے ملک پاکستان کی طرف آتے ہیں زوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تو انہوں نے عوام کی طاقت سے مغرب کو للکارا،تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ ان کا انداز حکمرانی اور مستقبل کے ارادے مغربی طاقتوں کے مفادات کو نقصان پہنچا رہے تھے تو مغرب تلملا اٹھا،امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے الفاظ تاریخ کا حصہ ہیں،مسٹر بھٹو آپ جس ٹرین کے مسافر ہو اس ٹرین کا ڈرائیور ہمارا ہے،،،سنبھل جاؤ،،،آفرین ہے بھٹو پر انہیں علم تھا مغرب کو میرا وجود قبول نہیں،پھر بھی اپنے ارادوں سے باز نہ آئے،پھر اک ایساموڑ آیا جو انہیں گھڑی خدا بخش چھوڑ آیا۔زوالفقار علی بھٹو امر ہو گئے،،
حالات بدلتے رہے پھر اک دن نواز شریف اقتدار میں آئے،ادھر بھارت ایٹمی طاقت بن گیا،مغرب کو تو ایسے پاکستان کی ضرورت تھی جو اس کا بغل بچہ بنا رہے اس کی تابعداری کرے لیکن نواز شریف کو یہ قبول نہ تھا،نواز شریف بھی اسی راستے پر چل پڑے جس پر زوالفقار علی بھٹو چلے تھے،ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو بھی نانی یاد دلا دی اور مغرب کو بتا دیا کہ ہم آزاد قوم ہیں ہم وہی کریں گے جو ہم چاہیں گے،استعمار کو یہ گستاخی پسند نہ آئی،پھر اک اورموڑ آیا جو نواز شریف کو جدہ چھوڑ آیا،اس درمیا ن بہت عرصہ گزر گیا طویل عرصے تک ایک آمر اقتدار پر قابض رہے پھر زرداری آئے،،،،عوام پھر جاگ گئے عوام نے اسی نواز شریف کو جدہ کے سرور پیلس سے اٹھا کر اقتدار پر فائز کر دیا۔
بظاہر سب ٹھیک تھا،جیسے ہی چین کے صدر کے دورہ پاکستان کا اعلان ہوا،سیاست کے ٹھہرے ہوئے پانیوں میں اپنے مفادات کے پتھر مار کر بھونچال پیدا کرنے والوں نے پھر سے پتھر مارنے شروع کر د یئے،ڈی چوک میں دھرنے کرائے گئے،ان سے خلاصی ہوئی تو،اچانک نواز شریف مغربی طاقتوں کیلئے پھر سے باغی ٹھہرے،پاک چین اقتصادی راہداری کا اعلان ہوا،مغرب کے ایوانوں میں تو گویا بھونچال آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے،،،بھارت اپنے بال نوچنے لگا کہ یہ تو وہ منصوبہ ہے جس سے پاکستان معاشی ٹا ئیگر بنے گا،کچھ اسلامی ممالک کو بھی یہ منصوبہ وارے میں نہیں،،،،اقتصادی راہداری کے منصوبے سے پہلے دنیا میں دو نقشے گردش کر رہے تھے،دونوں نقشوں میں پاکستان کا وجود خطرے میں تھا،اقتصادی راہداری کے اعلان کے بعد تیسرا نقشہ بھی بن گیا جس میں بھار ت اپنے حجم سے کئی گنا چھوٹا اور پاکستان بھارت سے بڑا ہو رہا ہے،،،اب کہانی نقشوں کے گرد گھومتی ہے،،،،بھارت،مغرب اور کچھ پاکستان کے ہمسایہ ممالک کو تیسرا نقشہ قبول نہیں ان کی کوشش ہے کہ اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ناکام بنایا جائے،منصوبے ناکام بنانے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ ٹیم لیڈر کمزور کیا جائے،،،،اب پارٹی شروع ہوتی ہے،کھبی پانامہ لیکس تو کھبی اقامہ لیکس، ایک کے بعد ایک ہونے والے واقعات پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو گی کہ یہ سب کچھ عالمی استعمار کی نواز شریف کو مشکلات سے دوچار کر کے اپنے مفادات کا حصول ہے۔
اب زرا یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے دو تان،،ایک تان سر ہے تو دوسرا تان پاکستان کا دھڑ،سر بلوچستان ہے تو گلگت بلتستان دھڑ،سر کو تو کل بھوشن یادو،کی شکل میں دشمن ایک عرصے سے نوچ رہے تھے لیکن اب دھڑ کو بھی مفلوج کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں،گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حفیظ الرحمان کی قیادت میں ایک ایسی حکومت آئی جس کو تاریخ میں پہلی مرتبہ پوری قوم نے تمام تر قومی،مسلکی اور علاقائی تعصبات سے ہٹ کر اعتماد بخشا،اس اعتماد کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ٹیم لیڈر حفیظ الرحمان کے لہجے میں سیاسی نعرے نہیں سچائی تھی،وطن سے محبت،قوم کی بھلائی،امن کی خواہش،ترقی کی تمنا،کرپشن سے پاک معاشرے کے قیام،انصاف اورمیرٹ کی بالا دستی کا جذبہ تھا،یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں کہ حفیظ الرحمان کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جن کے پاس قوم کی ترقی کیلئے واضح ویژن ہے،باکردار اور با صلاحیت لیڈر ہیں،حفیظ الرحمان نے اقتدار میں آتے ہی سو دنوں کا ٹارگٹ رکھا اسے پورا کرتے ہی چھہ مہینوں کی ترجیحات کا تعین کر کے اس کے حصول کیلئے سرگرداں ہیں،گلگت بلتستان ایک عرصے سے امن کیلئے ترس رہا تھاامن کی بہاریں اب اپنے جوبن پر ہیں،وزیر اعلی گلگت بلتستان اگلے انتخابات کی سوچ والے رہنما نہیں بلکہ اگلی نسلوں کی سوچنے اور ان نسلوں کو روشن مستقبل دینے کی سوچ رکھنے والے رہنما ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اگلے انتخابات کی سوچ لے کر سیاست کرنے والے نام نہاد لیڈر روڈے اٹکا رہے ہیں اس وقت گلگت بلتستان ترقی کی منزلوں کی طرف رواں دواں ہے پچھلے ستر برسوں میں وہ کام نہیں ہوئے جو ان ڈھائی سالوں میں ہوئے ہیں خیر اس نشست میں میرا مقصد مسلم لیگ ن گلگت بلتستان کی حکومت کے کارنامے گننا نہیں یہ بات واضح کرنی ہے کہ گلگت بلتستان میں حکومت کیلئے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں تو یہ ہر گز خطے کے سیاسی حالات نہیں،ان حالات کو اقتصادی راہداری اور عالمی حالات کے تناظر میں دیکھیں گے تو منظر نامہ سامنے آئے گا کہ جس طرح عالمی استعمار کو نواز شریف قبول نہیں ایسے ہی ویثرن سے بھر پور حفیظ الرحمان بھی قبول نہیں،یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں بھی ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو کام کرنے نہ دیا جائے اگر یہ حکومت کامیاب ہوئی تو لا محالہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ بھی کامیاب ہوگا اور ترقی کے خواب شرمندہ تعبیر ہو ں
گے،اب فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ عالمی استعمار کے مفادات کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کیلئے حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کا ساتھ دینا ہے یا مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے ویژن کا ساتھ دینا ہے،اگر ہم نے اپنے مستقبل کو محفوظ بنا کر استعمار کے عزائم کو خاک میں ملانا ہے تو ہر اس کردار اور ہر اس آواز کو مسترد کرنا ہوگا جو حکومت کیلئے مشکلات پیدا کر کے خطے میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں، خدا را سیاسی اختلافات کو سیاست کی حد تک رکھا جائے ان اختلافات کو اس حد تک نہ لے کر جایا جائے کہ جہاں سے پاکستان کا دشمن ان اختلافات سے فائدہ اٹھائے،اپوزیشن کا حق ہے کہ بھر پور اپوزیشن کرے لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ دشمن ہماری کمزوریوں سے فائدہ نہ اٹھائے،پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی۔
آخر میں راحت اندوری کے کچھ اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گا،
یہ زندگی کسی گونگے کا خواب ہے بیٹا
سنبھل کر چلنا کہ رستہ خراب ہے بیٹا
ہمارا نام لکھا ہے پرانے قلعوں پر
مگر ہمارا مقدر خراب ہے بیٹا
اب اور تاش کے پتوں کی سیڑھیوں پہ نہ چڑھ
کہ اس کے آگے خدا کا عذاب ہے بیٹا
ہمارے صحن کی مہندی پہ ہے نظر اس کی
زمیندار کی نیت خراب ہے بیٹا