تعلیمکالمز

معکمہ تعلیم بلتستان۔۔۔۔ مبارک بادیاں واپس

ایس ایس ناصری

آج سوشل میڈیا پر ایک قریبی دوست اور عزیز شاہد شگری نے ایک اسٹیٹس اپڈیٹ کیا تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ گزشتہ دنوں جب شگر سے کچھ بااثر ٹیچرز نے اپنی ڈیوٹی شگر سے سکردو تبادلہ کرا لیے تو شگر کے کچھ عمائدین نے اپنی بہترین کاوشوں کو بروکار لاتے ہوئے اس اہم مسئلے کی طرف سرکاری عہداداروں سمیت عوام کی توجہ مبذول کرائی۔ بندہ ناچیز نے بھی اس اہم مسئلہ پر ہمارے بزرگوں کی کوششوں کو سراہا، ہمارے عمائدین کی محنت رنگ لائی اور خبر آئی کی ڈائریکڑ ایجوکیشن بابر خان نے اساتذہ کا دوبارہ تبادلہ شگر کر دیا گیا ہے۔۔ جس کے بعد عمائدین ، ایس وائی او، سمیت سوشل ورکرز کو مبارک بادیاں دینے والوں کی ایک لمبی لائن لگ گئی۔

میرے بڑے بھائی حسن شگری نے تو پوسٹر لگا دیا جس پر لکھا تھا کہ "شگر والو مبارک ہوآپ کے استاد آپ کو واپس مل گئے تاہم حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دنوں شگر سے سکردو بنا ایل پی سی کے تبادلہ ہونے والے ایک بھی ٹیچر نے ابھی تک شگر کے کسی سکول کو دوبارہ جوائن نہیں کیا۔سنا ہے سب ٹیچرز عدالتی حکم نامہ آنے کے منتظر ہے ۔ لیکن ان مہنوں میں جب پیپرز ہونے والے ہے تو ایسے میں جو نقصانات طلباء کو ہو رہے ہیں اس کی ذمہ داری کون اُٹھائے گا۔چونکہ کام نامکمل ہے کوئی ٹیچرزواپس نہیں آئیے، اور ہمارے عمائدین، ایس وائی او، سمیت سوشل ورکرز اس کے بعد خاموش ہے۔۔۔ اس لیے مجھ سمیت شگر کے ان ہزاروں دوستوں نے جو مبارک بادیاں دی تھیں میری گزارش ہے وہ سب ہمیں واپس کردیی۔شاہد شگری کی اس پوسٹ پر بہت سارے دوست اپنے ظرف کے مطابق کمنٹس کر رہے ہیں کوئی تعریف میں جملوں کو جوڑ موڑ کر پیش کر رہے ہیں تو کوئی تنقیدی لفظوں کو تراش کر لکھنے میں مصروف ہیں۔

شاہد شگری کا یہ پوسٹ اگر دیکھا جائے تو مخصوص طور پر ضلع شگرکے اساتذہ کے حوالے سے ہیں لیکن اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو یہ مسئلہ صرف شگر والوں کا نہیں بلکہ پورے بلتستان کا یہی مسئلہ ہے۔مگر شگر کے علماء، عمائدیں اور نوجوانوں کو اس مسئلہ کا ادراک ہونے پر آواز اٹھائی اور اپنے ضلع میں تعینات یعنی جن کے ایل پی سی شگر میں ہے ان کو دیگر جہگوں پر بیٹھ کر ملازمت کرنے کے حوالے سے مخالفت شروع کرتے ہوئے انہیں شگر میں ہی تعینات کرانے کا مطالبہ کیا اس حوالے سے مختلف فورم پر آوز اٹھائی اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام کو واپس کرانےپر مجبور کیا لیکن انہوں نے کورٹ سے رجوع کی اور کورٹ سے فیصلہ آنے تک سکردو میں سکوں کی زندگی گزار رہے ہیں مگر شگر کے علاوہ بلتستان کے دیگر علاقوں سے بھی اکثر معمار قوم سکردو میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے علاقوں کے طلباء کا پرواہ کیئے بغیر شہر میں ڈیوٹی دے رہیں ۔کھرمنگ، روندو، گانچھے، اور خصوصًا گلتری کے اکثر اساتذہ اس وقت سکردو کے مختلف سکولوں میں موجود ہیں لیکن محکمہ تعلیم کے حکام خاموش تماشائی بنئےہوئے ہیں۔

محکمہ تعلیم کے سابق ڈائریکٹر مجید خان نے محکمہ تعلیم بلتستان ریجن کو جس طریقے سے سیدھا راستے پر لایا تھا اس کے پیچھے وزیر تعلیم گلگت بلتستان ابراہیم ثنائی کی کاوش اور علاقے سے محبت شامل تھی سابق ڈائریکٹر نے سکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے اور تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کیلے مختلف اقسام کے طریقے اپنائے تھے جن میں اساتذہ صبح سکول پہنچ کر ایس ایم ایس کے زریعے ناظم تعلیمات کو انفارم کرنے کے ساتھ دیگر کئی طریقہ کار شامل تھے۔ اسی طرح مہینے میں کسی بھی وقت بغیر کسی نوٹس کے سکولوں میں چھاپہ اور کسی بھی کلاس میں جاکر طلباء سے مختلف سوالات پوچھنے اور اساتذہ کے تدریسی عمل کے حوالے سے معلومات لینے تھے۔

ڈائریکٹر کی اس اقدام سے نہ صرف تعلیمی نظام میں بہتری آئی تھی بلکہ جں اساتذہ کی ایل پی سی جں سکول میں تھی اسی سکول میں حاضری یقینی بنائی گئی تھی ۔انہوں نے روندو کے درجن سے زائد اساتذہ جو سکردو میں ڈیوٹی دیکر روندو سے تنخواہ لیتے تھے انہیں دوبارہ اسی جہگوں پر بھیج دئیے جہاں انکی ایل پی سی تھی۔اسی طرح دیگر علاقوں کے طلباء اور غریب عوام پر ترس کھاتے ہوئے ان پر بھی رحم کرم کئے لیکن اس وقت بھی سازشی عناصر ڈائریکٹر کے اس کارنامے سے خوش نہیں تھے اور انہیں محکمہ کے دشمن سمجھ کر بلتستان سے تبدیل کرنے کیلے ہر قسم کے حربے استعمال کیئے لیکن وزیر تعلیم کی بلتستان سے محبت اور علم دوستی کی وجہ سے اس طرح کے ناقبت اندیشوں کو کامیاب ہونے نہ دیا. لیکن آخر کار وزیر موصوف بھی ان تعلیم دشمون کے حربوں سے تنگ آکر ہاربیٹھے اور ڈائریکٹر اور علاقے کے مخالفیں جیت گیے اور وہ بلتستان سے چلا گیا ۔جب سے وہ بلتستان سے گیاہے اس دن سے ایک بار پھر شہر پسند اساتذہ نے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کیئے اور اپنے اثر رثوخ استعمال کرتے ہوئے دوبارہ شہرِسکردو کا رخ کر لیا ہے جس سے نہ صرف ان علاقوں میں موجود تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی میں شدت آئی ہے بلکہ علاقے سے بھی ناانصافی کی گئی ہے یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ موجودہ ڈائریکٹر بھی مخلص اور فرض شناس ہے لیکن ان کی شرافت سے بعض ملازمیں غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں اور محکمہ تعلیم جیسی اہم محکمہ سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔

جب شگر جیسے اہم ضلع کے اساتذہ وہاں پر تمام تر سہولیات ہونے کے باو جود شگر بیٹھنے کو تیار نہیں ہے تو گلتری، شغر تھنگ، شلہ، روندو،بلامک تھورژھے اور دیگر بیک ورڈ علاقوں میں ڈیوٹی دینے والوں کاکیا حال ہو گا۔ ان جہگوں پر اگر اساتذہ کئی کئی دن یا مہینے تک سکول نہ گیئے تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور وہ ان علاقوں میں بیٹھنے سے زیادہ سکردو شہر میں بیٹھ کرملازمت کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔

انہیں نہ اپنے علاقوں سےہمدردی ہوتے ہیں اور نہ ہی وہاں پڑھنےوالے غریب باپ کے بچوں سےوہ صرف اور صرف اپنا مفاد دیکھتے ہیں قوم وملت جائے باڑ میں اس سے انکو کوئی غرض نہیں۔اسی طرح سردیوں کےموسم میں سڑکیں بند اور پوری دنیا سے کٹ کر زندگی گزارنے والا علاقہ گلتری کےحال بھی اس سے مختلف نہیں یہاں توصرف محکمہ تعلیم کا نہیں ہرمحکمہ کے ملازمین کے موج ہی موج ہیں۔

ہماری گفتگو محکمہ تعلیم کے حوالے سے ہیں تو ہم اسی پر ہی بات کریں گے۔ یہاں کےبھی اکثراساتذہ سکردو میں بیٹھ کر تنخوائیں ہڑب کررہے ہیں ہیں۔ ایسے میں محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام کی خاموشی اور بےحسی کو کس سے تشبیہ دیا جائے خواب خرگوش یا تماشائی۔اس صورت حال میں سکردو میں بیٹھ کر دیگر ضلعوں اور علاقوں کے ایل پی سی پر تنخواہ لینے والے اساتذہ کےواپسی کی امید رکھنا جووےشیر لانے کا مترادف ہے کیونکہ اس وقت وزیر تعلیم بھی تھک چکے ہیں اور انہیں بھی صحیح طریقے سے کام کرنے نہیں دیا جاتا۔ اس لیے وہ بھی تھکے ہارے خاموشی تو اختیار نہیں کی بلکہ اب بھی ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں لیکن نتیجہ کچھ خاص بہتر دِکھائی نہیں دیتا۔ یعنی دیکھا جائے تو جو بااثر طبقہ ہے وہ وزیروں کو بھی بےبس کرادیتے ہیں اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

اس وقت بلتستان کےتمام پرایئوٹ اور سرکاری تعلیمی اداروں میں سالانہ امتحان شروع ہونے والا ہے تو ہمارے مستقبل کےمعمار جن کو تراش کر ایک بہتریں کار آمد بنانے والے استاد محترم تو اس وقت سکولوں میں موجود ہی نہیں اگر کچھ ہے تو وہ بھی کورس مکمل نہیں کر سکتے کیونکہ سکولوں میں اساتذہ کی کمی کے باعث سلیبس کمپلیٹ کرنا ناممکن ہے اس صورت حال میں جب امتحاں ہوں گےتو سکول انتظامیہ یا اپنے سکول کی کارکردگی دکھانے کیلے بچوں سے امتحان میں نقل کروادیں گے یا بچوں کو امتحان میں سختی کرکے ان کے مستقبل کے ساتھ کھلیں گےلیکن تمام تر صورت حال میں نقصاں مستقبل کے معماروں اور ان کے والدین کا ہی ہوگا مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا محکمہ تعلیم کو ان سب باتوں کا علم نہیں ……..؟اگر ہے تو خاموش کیوں….؟ ایسے صورت حال میں مبارکبادی نہیں بلکہ ایجوکیشن محکمہ کے کرتوت اور اندھا بہرا بنے رہنے پر افسوس کریں تو بھی کم ہے کیونکہ جں کے ہاتھوں اقوام کی تقدیریں ہیں انہیں انکی کوئی فکر نہیں ایسے میں یہ سارے جاننے کے باوجود شاہد شگری اور دیگر کی طرح ہم بھی ایک دوسرے کو مبارکباد دیں تو سراسر ہماری بےقوفی اور نادانی ہوگی لیکنمیرے دوست شاہد اور دیگر نے بھی حقیقت سامنے آنے پر اپنی مبارک بادیاں واپس کرنے کی بھی اپیل کی ہے تو میری بھی گزارش ہوگی کہ جن دوستوں نے مبارک بادیاں دی ہیں وہ فلحال چپکے سے ایک دوسرے کو واپس کریں اگر ہمارے مطالبات پوری ہوگئیں تو ہم سب ملکر اجتماعی طور پر ایک دوسرے کو مبارک باد بھی دیں گے اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام سمیت دیگر کے منہ بھی میٹھا کرائیں گے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button