کالمز

نئی حلقہ بندیوں کا تنازعہ 

نئی حلقہ بندیوں کا تنازعہ روز بروز طول پکڑتا جارہاہے کشمیر میں استصوابِ رائے اور فاٹا میں ایف سی آر کے خاتمے کی طرح یہ تنازعہ حل ہونے میں نہیں آرہا جب تنازعات کے حل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو لوگ مجبور ہوکر آرمی چیف سے مداخلت کی درخواست کرتے ہیں عام طور پر آرمی چیف کے ایک اشارے سے اس طرح کے مسائل حل ہوتے ہیں چارسدہ سے قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ کا بیان آیا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں میں عوام کو حق نیابت سے محروم کیا گیا ہے ایبٹ آباد سے ڈپٹی سپیکر جاوید مرتضیٰ عباسی کا بیان آیا ہے کہ حلقہ بندیوں میں بلا جواز ردّوبدل کر کے عوام کی نمائندگی چھین لی گئی صوابی ، ہری پور اور چترال سے سماجی کارکنوں اور عوامی نمائندوں کے بیانات آرہے ہیں چترال کے سابق تحصیل ناظم سر تاج احمد خان نے عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے عدالت میں یہ معاملہ کم از کم 10سالوں تک چلے گا اس دوران دو بار عام انتخابات ہوجائیں گے بعض دوست مشورہ دیتے ہیں کہ یہ بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے عدالتیں بنیادی حقوق کے معاملات میں دلچسپی نہیں لیتیں یہ معاملہ عدالت میں مزید بگڑ جائے گاآرمی چیف کی مداخلت واحد راستہ ہے سینئر لیڈروں اور تجربہ کار صحافیوں کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے لئے قانون پارلیمنٹ میں بنایا گیانئی حلقہ بندیوں کا بل بھی پارلیمنٹ سے پاس ہوکر آیا ہے جن علاقوں کے عوام کو نیابت سے محروم کیا گیا اُن کو پارلیمنٹ سے رجوع کرنا چاہیئے اس سلسلے میں خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی سلیم خان کی طرف سے پیش کی گئی قراردادمتفقہ طور پر منظور کی ہے از روئے قانون متفقہ قرارداد کو وفاقی حکومت ہر صورت منظور کرنے کا پابندہے مگر یہاں قانون اور قاعد ے کی بات کون مانتا ہے؟ یہاں ڈنڈے والی سرکار چلتی ہے ڈنڈا بردار کا حکم مانا جاتا ہے قانون کا حوالہ بے کار اور بے سود ہے پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعے جب صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے حلقوں میں ردّو بدل کیلئے ووٹروں کی تعدادکاتعین کیا جارہا ہے اُس وقت کسی بھی رکن اسمبلی نے قانون کا مسودہ نہیں پڑھا سب نے ہاتھ

اُٹھایا ،بل پاس ہوا اب آسان اور قانونی راستہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں بل لایا جائے بل کے ذریعے پرانے حلقوں کو 2002کی سطح پر بحال کیا جائے اگر 2002ء کے حلقے بحال کئے گئے تو کسی کو بھی مسئلہ نہیں ہوگاکیونکہ 2017ء کی مردم شماری بھی غلط ہوئی ہے2017ء میں حلقہ بندیوں کے لئے بھی غلط قانون بنا یاگیا ہے بلاجوازنیا قانون لایا گیا ہے جو سہولت دینے کے بجائے لوگوں کو حلقہ نیابت سے محروم کرتا ہے ایبٹ آباد ، صوابی ، ہری پور، چارسدہ کی طرح چترال کو بھی ایک حلقے سے محروم کی گیا ہے دیگر اضلاع میں صرف 3لاکھ یا 4لاکھ کی آبادی حلقہ نیابت سے محروم ہوگئی ہے چترال میں آبادی کے ساتھ ساتھ وسیع وعریض علاقہ بھی حلقہ نیابت سے محروم ہوا ہے ضلع چترال صوبے کا سب سے بڑا ضلع ہے اس کا رقبہ 14850مربع کلومیٹر ہے جنوب سے شمال تک ضلع کے رہائشی دیہات کی لمبائی 470 کلومیٹر ہے صوبائی اسمبلی کے حلقے کا ایک ممبر 190کلومیٹر اور دوسرا ممبر 280کلومیٹر علاقے کی نمائندگی کرتا ہے ایک ممبر کے حلقے میں 2 لاکھ 45ہزار اور دوسرے ممبر کے حلقے میں 2لاکھ سے اوپر کی آبادی ہے پہاڑی ضلع میں آبادی کے ساتھ ساتھ علاقہ بھی قابل غور ہوتا ہے خصوصی توجہ کا متقاضی ہوتا ہے نیز یہ حساس علاقہ ہے جس کی 600کلومیٹر سرحد افغانستان کیساتھ لگتی ہے 400کلومیٹر سرحد گلگت بلتستان کے ساتھ لگتی ہے کوئی بھی قوم یا قومی حکومت اسطرح کی حساسیت کے حامل علاقے میں بے چینی کو طول دینے کا متحمل یا روادار نہیں ہوسکتی حساس معاملات میں آرمی کی مداخلت کے بغیر مسئلہ کبھی حل نہیں ہوا لوگوں کی اکثریت کا مشورہ یہی ہے کہ آرمی چیف سے اس معاملے میں مداخلت کی اپیل کی جائے ہمارے لئے اس امر میں کس قدر شرمندگی کا سامان ہے کہ ہمارے آئینی ادارے تنازعات پیداکرتے ہیں تنازعات کو حل کرنے کی صلاحیت اور استعداد نہیں رکھتے ہماری حکومت میں کوئی بھی ایسی کھڑکی دستیاب نہیں جو تنازعات کے حل میں عوام کی مدد کر سکے صدر مملکت ، وزیر اعظم ، وزیر قانون ، وزیر اعلیٰ ، گورنر ، چیف جسٹس ، چیف الیکشن کمشنر سب بے بس ہیں کسی بھی دفتر سے ، کسی بھی شخصیت کی طرف سے امید افزا بات سننے کو نہیں ملتی کوئی ایسی شخصیت نظر نہیں آتی جو خیبر پختونخوا کے 5حلقوں میں ایک کروڑ سے زیادہ کی آبادی کو درپیش حلقہ نیابت کا مسئلہ خوش اسلوبی سے حل کرسکے الیکشن کمیشن تنازعات پیداکرتی ہے حل نہیں کرتی 2002ء سے 2013ء تک جن حلقہ بندیوں کو بنیاد پر انتخابات ہوئے ان میں کوئی نقص نہیں تھا کوئی مسئلہ نہیں تھا الیکشن کمیشن کو خواہ مخواہ نئی حلقہ بندیوں کا شوشہ پیدا کرکے عوام میں بے چینی پھیلانے کی کیا ضرورت تھی ؟باٹم لائن یہی ہے کہ ملک میں اس طرح کے تنازعات کو حل کرنے کے لئے آرمی چیف سے بہتر کوئی نظر نہیں آتا آرمی چیف اگر اس مسئلے میں سول حکومت کی مدد کرے تو 2018ء کے انتخابات 2002ء کی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر منعقد کرائے جاسکتے ہیں چترال ، چارسدہ ، ہری پور، ایبٹ آباد اور صوابی جیسے حساس اضلاع کے عوام کی بے چینی دور کی جاسکتی ہے ؂

ہم اہلِ قفس تنہا بھی نہیں ہر روز نسیم صبحِ وطن

یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button