چترال کو تجربہ گاہ بنادیا گیاہے، صوبائی سیٹ کے خاتمے اور لینڈ سیٹلمنٹ کے نام پر زندگی اجیرن کرنے کے خلاف مشترکہ جدوجہد کریںگے، آل پارٹیز کانفرنس
چترال ( نمایندہ ایکسپریس ) آل پارٹیز چترال نے چترال کی صوبائی سیٹ کے خاتمے اور لینڈ سٹلمنٹ کے نام پر چترال کے لوگوں کی زندگی تنگ کرنے کے خلاف مشترکہ طور پر عدالتی جدوجہد کرنے اور ہر ممکن اقدامات اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جبکہ انتظامیہ کے آفیسران کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ اور عوام سے اُن کے رویے کو انتہائی نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا ہے ۔ کہ کسی کو بھی وائسرائے بننے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ ضلع کونسل چترال میں ضلع نائب ناظم و جنرل سیکرٹری جمیعت العلماء اسلام چترال مولانا عبدالشکور کی زیر صدارت ایک غیر معمولی اجلاس ہوا ۔ جس میں ایم این اے شہزادہ افتخار الدین ، مولانا جمشید احمد ، خان حیات اللہ خان جماعت اسلامی ،سید احمد خان فضل رحیم ایڈوکیٹ ، صفت زرین مسلم لیگ ن ، شہزادہ خالد پرویز ، قاضی فیصل پاکستان پیپلز پارٹی ، امین الرحمن پاکستان تحریک انصاف ، میر عباد الرحمن ، ایم آئی خان سرحدی ایڈوکیٹ عوامی نیشنل پارٹی ، قاری وزیر احمد ، مولانا حسین احمد ، مولانا محمود الحسن جے یو آئی و دیگر نے شرکت کی ۔ اجلاس میں اس امر کا اظہار کیا گیا ۔ کہ چترال کی صوبائی سیٹ کا خاتمے نے چترال کو بہت بڑے مسئلے سے دوچار کر دیا ہے ۔ جس کی وجہ سے چترالی قوم میں انتہائی تشویش پائی جاتی ہے ۔ سیٹ کا خاتمہ چترال کے ساتھ ظلم و زیادتی کے مترادف ہے ۔ بہت سے ایسے اضلاع موجود ہیں جن کی آبادی انتہائی کم ہونے کے باوجود سیٹیں بحال رکھی گئی ہیں ۔ اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا ۔ کہ سیٹ کی بحالی کیلئے ہر قسم کی قربانی دی جائے گی ۔ جبکہ فوری طور پر پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پیٹیشن دائر کی جائے گی ۔ جس کی پیروی تمام پارٹیوں کے قائدین اور اُن کے نمایندگان کریں گے ۔ اجلاس میں لینڈ سٹلمنٹ کے نام پر چترال کے لوگوں کو ہراسان کرکے اُن کے شاملات اور سیلاب سے متاثرہ زمینات کو سٹیٹ پراپرٹی قرار دینے کی کوشش کی سختی سے مذمت کی گئی ۔ اور کہا گیا ۔ کہ یہ چترال کے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کرنے کی سازش ہے ۔ چترال کا 98فیصد رقبہ پہاڑوں پر مشتمل ہے ، جن پر لوگوں کی زندگی کا دارومدار ہے ۔ اور سیلاب کی وجہ سے بے گھر لوگ انہی پہاڑوں پر مکانات تعمیر کرکے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ غیر آباد زمینوں کو آباد کیا جائے گا ۔ جن کی ہمارے آباو اجداد نے انتہائی مشکل حالات میں حفاظت کی۔ انہوں نے کہا ،کہ لوگوں کی زندگی مزید تنگ کرنے نہیں دی جائے گی ۔ اور تمام پارٹی متحد ہو کر اس کے خلاف میدان میں آئیں گے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ 1975کا نوٹفیکیشن تمام بُرائیوں کی جڑ ہے ۔ جس کی غلط توجیہ کرکے چترال کے لوگوں کو پریشان کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ لینڈ سٹلمنٹ کے غلط طریقہ کار اور1975کے نوٹیفیکیشن کے خلاف بھی پشاور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی جائے گی ۔ اجلاس میں چترال کی ضلعی انتظامیہ کے آفیسران کے رویوں کی بھی مذمت کی گئی ۔ اور کہا گیا ۔ کہ سرکاری آفیسران حکمران نہیں ملازم ہیں ، لیکن انہوں نے خود کو وائسرائے بنا یا ہوا ہے ۔ ا نہوں نے کہا ۔ کہ کھلی کچہری منعقد کرنا عوامی نمایندگان کا کام ہے ۔ تاکہ عوامی خدمات میں سرکاری آفیسران کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی ہو سکے ، لیکن یہاں معاملہ بالکل اُلٹ ہے ۔ انتظامیہ کے آفیسران کُھلی کچہری کے نام پر درجنوں گاڑیوں اور سکیورٹی فورس پر مشتمل قافلہ لے کرخود کو بادشاہ بنائے پھرتے ہیں ۔ اور عوامی نمایندگان کے خلاف عوام کو اُکسانے کیلئے پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے ایم این اے شہزادہ افتخارالدین نے کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس سے ٹرائیکا سے خود کو دور رکھنے کی اپیل کی ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ کھلی کچہری منعقدکرنے والے انتظامیہ کے آفیسران بتائیں کہ اب تک عوام کے کتنے مسائل کئے گئے ہیں۔ اجلاس میں اس امر کا بھی اظہار کیا گیا ۔ کہ پلاسٹک شاپنگ بیگ پر صوبے کے دوسرے اضلاع میں پابندی نہیں ۔ اس لئے سودا سلف گھروں تک پہنچانے کیلئے ان کا استعمال مجبوری اور ضروری ہے ۔ اس لئے دکانداروں کو بے جا تنگ نہ کیا جائے ۔ اجلاس میں کہا گیا ۔ کہ چترال کو تجربہ گاہ بنایا گیا ہے ،جس پر ہر قانون سب سے پہلے آزمایا جاتا ہے ۔ اور یہ ہماری امن پسندی اور شرافت کاصلہ ہے ۔ جو ہمیں دی جارہی ہے ۔