جوتے – قسط دوم
(ایک ایرانی فلم ’ بچہ ہائے آسمان ‘سے ماخوذ)
7
ایک بجے کے قریب سعید نے سکول کا بستہ اٹھایا اور گلیوں کو بازار کے ساتھ ملانے والے چوک میں آکھڑا ہوا۔ وہ کرن کے آنے سے بہت پہلے یہاں آگیا تھا۔ وہ کچھ دیر بستہ کمر پر لادے کھڑا رہا۔ تھک گیا تو ایک دکان کے چبوترے کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔ پھر، بیگ چبوترے پر رکھا اور چبوترے کے کونے پر بیٹھ گیا۔ چبوترے پر بیٹھا تو اسے سکھ محسوس ہوا۔ وہ آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے لگا۔ وہ ان کے جوتے دیکھ رہا تھا۔ اسے سکون سا محسوس ہوا۔ اس لیے کہ اکثر لوگوں کے جوتے اس کے جوتے کی طرح ٹوٹے ہوئے اور میلے کچیلے تھے۔ کچھ لوگ تو ننگے پاؤں تھے اور انھوں نے جوتے ہاتھوں میں اٹھا رکھے تھے۔ اس کا ذہن پھر کرن کے گم ہونے والے جوتوں کی طرف چلا گیا۔ وہ ان کے گم ہونے کی مختلف وجوہات پر غور کرنے لگا۔ آخر اس نے نتیجہ نکالا کہ ہونہ ہو، جوتے سبزی کی دکان کے نیچے بہتے نالے میں گر گئے ہیں۔ اسے یاد آیا کہ نالے کا بہاؤ خاصا تیز تھا اور یقینا، جوتے تھیلے سمیت ہی نالے میں بہہ گئے ہوں گے۔ پھر اسے خیال آیا کہ نالے میں تنکے وغیرہ ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ جوتے نالے میں اٹکے کوڑے کرکٹ میں پھنس گئے ہوں۔ اسے یہ خیال خاصا درست لگا اور اس کا دل چاہا کہ وہ فوراً اٹھے اور جا کر پورے نالے کی پڑتال کرے۔ مگر اسے سبزی کی دکان کے سامنے سے گزرنے کا خیال آیا اور چپکا بیٹھا رہا۔
اتنے میں اسے کرن نظر آئی۔ وہ بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ اس نے سعید کے پاس آکر، خاموشی سے جوتے اتارے اور پاؤں سے دھکیل کر انھیں سعید کے قریب کر دیا۔ سعید کو کرن کے اس طرح آہستہ آہستہ چلنے اور دیر سے پہنچنے پر غصہ آرہا تھا۔ مگر اس نے کچھ کہنے کی بجائے، کرن کو پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھا۔ کرن بھی اسے دیکھ رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں بھرے ہوئے آنسو بس ڈھلکنے ہی والے تھے۔ سعید کو ایک دم دھکا سالگا مگر اسے سکول جانے کی جلدی تھی۔ اس نے جوتے پہنے اور دوڑ لگا دی۔
سعید کو اندازہ تھا کہ وہ سکول سے لیٹ ہو گیا ہے۔ اس نے گلیوں میں بڑی تیزی سے بھاگنا شروع کر دیا۔ اس کے جوتوں کی’’دھپ دھپ‘‘ گلیوں کی افسردہ خاموشی کو توڑ رہی تھی۔ یہ ’’دھپ دھپ‘‘ ایک گلی سے دوسری میں داخل ہو رہی تھی۔۔۔ ایسے ،جیسے کہ کوئی چیز بغیر کسی رکاوٹ کے بہتی چلی جا رہی ہو۔ سعید کا سکول کئی ایک گلیوں میں سے گزر کر آتا تھا۔ یہ چند کمروں پر مشتمل تھا اور اس کی اونچی چار دیواری کے ساتھ لوہے کا ایک بند دروازہ لگا ہوا تھا۔ دروازے میں داخل ہو جائیں تو ایک صحن تھا۔ اسکول میں اسمبلی شروع ہونے کے ساتھ ہی دروازہ بلند کر دیا جاتا تھا۔ البتہ اس میں لگا چھوٹا دروازہ کھلا رہتا تھا۔ لیٹ آنے والے بچے دروازے کے اندر قطار میں کھڑے رہتے تھے۔ اسمبلی ختم ہونے کے بعد، لیٹ آنے والے بچے سیدھے کمروں میں چلے جاتے تھے۔
سعید جب سکول کے دروازے پر پہنچا تو یہ بند تھا۔ اس کا دل ایک دم ڈوبا۔ اس نے چھوٹے دروازے کی طرف دیکھا، یہ بھی بند تھا۔ سعید کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے دروازے کو چھوأ۔ دروازہ کھل گیا۔ سامنے چوکیدار کھڑا تھا مگر لیٹ آنے والے بچے نہیں تھے اور نہ ہی اسمبلی ہو رہی تھی۔ سعید کے تو پسینے ہی چھوٹ گئے۔’’تم بہت لیٹ ہو گئے ہو۔۔۔آج!‘‘ چوکیدار نے کہا۔
’’میری امی بیمار ہے، اس کے لیے دوا لینے چلا گیا تھا۔۔۔‘‘ سعید نے کہا۔
’’چلو آجاؤ۔۔۔ تمھاری امی کو کیا ہوا ہے۔۔۔ ؟‘‘ سعید نے کمرہ جماعت کی طرف بھاگتے ہوئے کہا:
’’اسے خون کی الٹی آئی تھی۔۔۔!‘‘
سعید اپنی جماعت کے باہر پہنچا، اندر استاد پڑھا رہے تھے۔ اس نے کھڑکی کے ایک طرف ہو کر، بچوں کو اپنی شکل دکھائی۔ سعید کی شکل دیکھتے ہی جماعت کے اندر بیٹھے بچوں میں ایک حرکت سی ہونے لگی۔ کوئی اسے اشاروں سے باہر رکنے کا کہہ رہاتھا توکوئی اسے استاد کی مار سے ڈرا رہا تھا۔ استاد بلیک بورڈ پر حساب کا سوال حل کر رہے تھے۔ انھوں نے کچھ بات کرنے کے بعد بلیک بورڈ کی طرف منہ پھیرا تو تقریباً سب بچوں نے سعید کو اندر آنے کا اشارہ کرنا شروع کر دیا۔ سعید دبے پاؤں اندر داخل ہوا اور ڈیسکوں کی اگلی قطار میں ایک خالی جگہ پر بیٹھ گیا۔ سعید کو سکون ملا۔ اس وقت اسے محسوس ہوا کہ وہ پسینے میں بھیگا ہوا ہے۔
8
کرن کو سعید کے جوتے اور وہ بھی پھٹے پرانے ،پہن کر سکول جانا بالکل اچھا نہ لگتا تھا۔ جوتے ویسے ہی اس کے پاؤں کے لحاظ سے خاصے کھلے تھے اور پھر تسمے نہ ہونے کی وجہ سے اس کے پاؤں میں آگے پیچھے ہوتے رہتے تھے۔ ایسے جوتوں میں چلنے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ انھیں سیلپر سمجھ کر، پاؤں کو گھسیٹ کر چلا جائے۔ ایک دو روز تو کرن کو خاصی مشکل رہی مگر بعد میں اس نے اپنی چال کو سلیپروں کے مطابق ڈھال لیا۔ وہ پاؤں گھسیٹ کر چلتی مگر جب اس کا دل چاہتا کہ وہ ایک ٹانگ پر کودے تو جوتے اس کے پاؤں سے اُتر جاتے۔ کرن نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ جوتے پہنے ہی نہ جائیں۔ وہ جب بازار میں داخل ہوتی تو جوتے اتار کر ہاتھ میں پکڑ لیتی اور دکانوں کے اوپر لگے سائبانوں کے نیچے چلنا شروع کر دیتی۔
صبح کی اسمبلی میں ، سب لڑکیوں کی طرح کرن بھی اپنے سینے پر ہاتھ باندھے، ساتھی لڑکیوں کے ساتھ کھڑی ہوتی۔ ایسے میں سب بچیاں سر جھکائے لیتیں اور ان کا دھیان زمین کی طرف ہوتا۔ ان کا دھیان ، اس وقت اس طرف بالکل نہ ہوتا، جو اس وقت تقریر میں کہا جا رہا ہوتا تھا۔ یہ وہ باتیں تھیں جو ہر روز کہی جاتی تھیں۔ وہ مجبوری میں کھڑی تو رہتیں مگر ان کا دھیان زمین پر نظر آنے والی نہایت معمولی سے معمولی چیز کی طرف چلا جاتا۔ کرن کا دھیان جب جوتوں پر گیا تو اسے بڑی شرم محسوس ہوئی۔ اس کے جوتے نظر آنے والے سب جوتوں میں سب سے زیادہ پھٹے اور پرانے تھے۔ کرن نے اپنے جوتے چھپانے کے لیے اپنے پاؤں قطار میں پچھلی طرف کر لیے۔ جب اسمبلی ختم ہوگئی تو کرن نے بہانے سے بیٹھ کر اپنی شلوار کے پائنچوں کو جوتوں کے اوپر کر لیا۔ جب سے اس کے جوتے گم ہوئے تھے، وہ ہر وقت دوسری بچیوں کے جوتے دیکھتی رہتی تھی۔ اسے پہلی دفعہ اندازہ ہوا کہ لڑکیاں کس قدر مختلف قسم کے جوتے پہنتی ہیں۔
ایک دن کرن نے ایک بچی کو اپنے گم ہوئے جوتوں جیسا جوتا پہنے دیکھا ۔ جب آدھی چھٹی ہوئی تو کرن اس کے ارد گرد منڈلانے لگی۔ اس نے ہر طرف سے جوتے کو دیکھا، اسے یقین ہو گیا کہ جوتے، اسی کے ہیں۔ وہ اس بچی سے پوچھنا چاہتی تھی کہ اس نے جوتے کہاں سے لیے۔ وہ ہچکچا رہی تھی۔ یہ بچی اس کی طرح چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی مگر اس کا سیکشن کوئی اور تھا۔
کرن، اس بچی کے پیچھے پیچھے سکول کی گراؤنڈ میں چلتی رہی۔ وہ بچی ایک درخت کی چھاؤں میں جا بیٹھی۔ اس نے گھی سے سنا ہوا دستر خوان کھولا۔ اس میں سے کئی تہوں میں سمیٹا ہوا ایک پراٹھا نکالا۔ اسے سیدھا کیا بلکہ اس کے بل نکالنے کے لیے اس پر ہولے سے ہاتھ مارا۔ پراٹھے کے بل نہ نکلے، تاہم بچی نے پراٹھے کو اچار کے ساتھ ، چھوٹے چھوٹے لقمے لے کر کھانا شروع کر دیا۔ وہ بہت آہستہ کھا رہی تھی اور ساتھ ہی آتی جاتی دوسری لڑکیوں کو دیکھے جا رہی تھی۔ کرن بھی ا س کے پاس آبیٹھی۔ بچی نے کرن سے پوچھا:
’’تم چوتھی جماعت میں پڑھتی ہو۔۔۔؟‘‘
’ہاں۔۔۔‘‘ کرن نے مختصر سا جواب دیا اور بچی کے جوتوں کو دیکھنا شروع کر دیا۔ اس وقت جوتے، بچی کے فراک کے نیچے چھپے ہوئے تھے اور ان کا صرف اگلا حصہ ہی نظر آرہا تھا۔
’’پراٹھا، لے لو۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘
’’کیا تم کھانا ساتھ نہیں لاتی۔۔۔؟‘‘
’’نہیں۔۔۔!‘‘
کرن نے پھر اس کے جوتوں کی طر ف دیکھا جو اب بھی بچی کے فراک میں چھپے ہوئے تھے۔ اسی دوران بچی نے اپنی ٹانگیں سیدھی کر لیں اور پراٹھے والا رومال گود میں رکھ کر پراٹھا کھانے لگی۔ جوتے، اب کرن کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ وہ انھیں مسلسل دیکھ رہی تھی۔ اس نے ایک جوتے کی ایڑھی میں اس کیل کا نشان بھی دیکھ لیا جو اس نے سعید کے ساتھ مل کر چھری سے باہر نکالا تھا۔ کرن کو پکا یقین ہو گیا کہ جوتے اسی کے ہیں۔ مگر سوال یہ تھا کہ یہ اس بچی کے پاس کیسے پہنچے؟ کرن، اس بچی سے یہ سوال پوچھنے ہی والی تھی مگر وہ چپ ہی رہی۔ اس نے بچی سے رخصت لی اور اپنے کمرے میں چلی آئی۔
چھٹی ہوئی تو کرن ، اس بچی کے پیچھے پیچھے چلتی رہی۔ سکول سے نکلتے وقت ہر طرف بچیوں کا ہجوم تھا۔ بازار میں یہ سب ٹولیوں کی صورت چلی جا رہی تھیں۔ گلیوں میں ٹولیاں اور بھی مختصر ہوتی گئیں۔ ایک دو گلیوں کے بعد، گلی میں کرن اور وہ بچی آگے پیچھے ایک ٹانگ پر کودتی بھاگی جا رہی تھیں۔ بچی نے جب کرن کو اپنے پیچھے آتے دیکھا تو وہ رک گئی۔ وہ کرن سے پوچھنے لگی:
’’آج تم ہمارے محلے میں آگئی ہو، گھر نہیں گئی۔۔۔؟‘‘
’’میر ی امی کی ایک سہیلی آگے گلی میں رہتی ہیں۔۔۔ امی کا پیغام انھیں دینا ہے۔۔۔ اس لیے۔۔۔‘‘ کرن نے کہا۔
’’ہمارا گھر ، وہ سامنے ، گلی کے آخری کونے میں ہے۔۔۔ وہ سفید دروازے والا گھر۔۔۔ آجاؤ، کھیلتے ہیں۔۔۔‘‘
بچی نے کہا۔
’’پھر کسی دن سہی۔۔۔ دیر ہو جائے گی۔۔۔ ‘‘ کرن نے کہا۔
’’ٹھیک ہے، میں چلتی ہوں۔۔۔ ‘‘ بچی نے کہا اور دوڑ لگاتی آگے بڑھ گئی۔ کرن وہیں کھڑی، اس بچی کو دیکھتی رہی۔ اس نے دیکھا کہ بچی اپنے گھر کے سامنے جارکی۔ اس نے تختی سے دروازے کھٹکھٹایا۔ دروازہ کھلا۔ ایک بزرگ باہر نکلے، وہ جھکے اور بچی کو بانہوں میں اٹھا لیا۔ اس کا ماتھا چوما اور گھر کے اندر چلے گئے۔
کرن واپس مڑی اور چلنے لگی۔ وہ دو باتوں کو لے کر سخت پریشان تھی۔ ایک یہ کہ چند روز میں ہی اس کا جوتا،اس بچی کے پاس کیسے پہنچ گیا۔ دوسری یہ بات کہ اس کے ابو، اس بچی کے ابو کی طرح اسے بانہوں میں کیوں نہیں اٹھاتے اور اس کا ماتھا کیوں نہیں چومتے۔ وہ انھی سوالوں پر غور کرتی ہوئی، پاؤں گھسیٹتی ہوئی چلی جا رہی تھی۔ گلیوں سے گزرتی ، جب بازار میں آئی تو اس کو سعید کا خیال آیا۔ وہ ایک دم بھاگنے لگی۔ جوتے بار بار اس کے پاؤں سے نکل جاتے۔ وہ چاہتی تھی کہ جوتے اتار کر ہاتھوں میں پکڑ لے۔ مگر وہ سعید کے خیال سے اس قدر پریشان ہوگئی کہ وہ ایک سیکنڈ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اسے یقین تھا کہ سعید اس دن سکول نہیں جا پائے گا۔ وہ دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ جوتے اس کے پاؤں سے نکل جاتے اور وہ انھیں پھر پاؤں میں لے کر دوڑنا شروع کر دیتی۔ اس کے بھاگنے سے اس کے جوتوں سے ’’تھڑاپ تھڑاپ‘‘ کی آوازیں، مسلسل نکل رہی تھیں۔
اچانک اس کے پاؤں سے جوتا نکلا اور کھلے منہ والے نالے میں جا گرا۔ نالے میں پانی بڑی تیزی سے بہہ رہا تھا۔ کرن نے بڑی پھرتی سے اپنا دوسرا جوتا اتارا اور اسے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ اس وقت اس نے اپنے بستے کی فکر چھوڑ دی۔ وہ مسلسل اس کے ایک بازو میں لہراتا ہوا، اِدھر اُدھر ہو رہا تھا۔ اس وقت اس کی کوشش تھی کہ وہ نالے میں تیزی سے بہتے ہوئے جوتے کو کسی طرح پکڑ لے۔ وہ جھک کر جوتا پکڑنے کی کوشش کرتی مگر اس کا ہاتھ جوتے تک نہ پہنچتا۔ نالا، سڑک کے فرش سے کافی نیچے بہہ رہا تھا۔ کرن کو پانی کی سطح تک اپنا ہاتھ لانے میں کافی دیر لگتی اور اس دوران جوتا آگے جا چکا ہوتا تھا۔ اس نے بہت تیز بھاگ کر جوتے سے آگے نکل جانے کی کوشش کی تاکہ جوتے کے اس تک پہنچنے کے دوران وہ جھک کر اپنا ہاتھ پانی تک لے جائے اور اسے پکڑنے کے لیے بالکل تیار ہو۔ وہ بھاگ کر ایک دکان کے چبوترے کے آگے جا کھڑی ہوگئی اور جوتے کا چبوترے کے نیچے سے نمودار ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ وہ نظر جمائے کافی دیر کھڑی رہی مگر جوتا باہر نہ نکلا۔ وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگی اور اس نے رونا شروع کر دیا۔
ایک دکاندار ، دُور سے جوتے کے نالے میں گرنے ،کرن کے بھاگ کر اسے پکڑنے اور بار بار جھکنے کے منظر کو دیکھ رہا تھا۔ جب جوتا، چبوترے کے نیچے سے نہ نکلا تو وہ اٹھا۔ اس نے دکان کے سائبان کے ساتھ لگے بانس کو کھولا اور چبوترے کے نیچے نالے میں ڈال کر اسے ہلانے لگا۔ جوتا، چبوترے کے نیچے سے نمودار ہوا اور تیزی سے کئی ایک چبوتروں میں سے گزرتا ہوا، بہتا چلا جارہاتھا۔ کرن اس کے ساتھ ساتھ بھاگ رہی تھی اور بار بار جھک کر اسے پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔ دکاندار بھی، بانس ہاتھ میں پکڑے بھاگ رہا تھا۔ دکاندار اچانک رک گیا اور اس نے نالے کے ساتھ ساتھ آنے والے ایک خاکروب کو آوا زدی کہ وہ جوتا پکڑ لے۔ خاکروب نے نالے کی طرف دیکھا اور ٹوٹے ہوئے بانس کی چھڑی سے جوتے کو اٹھا کر باہر بازار کے فرش پر رکھ دیا۔ جوتا، نالے کی گندگی سے لتھڑا ہوا تھا اور بالکل مرے ہوئے چوہے جیسا لگ رہا تھا۔ اتنے میں دکاندار نالے سے نکالے گئے جوتے کے پاس پہنچ چکا تھا۔ اس نے چھڑی سے جوتے کو اٹھایا اور دل میں سوچا:
’’یہ بچی اس جوتے کے لیے رو رہی تھی۔۔۔؟‘‘
کرن نے اسی حالت میں جوتے کو پہنا اور اسے گھسیٹی ہوئی، چلنے لگی۔ اسے جوتے کے اندر لگی گندگی اور گارے سے شدید کوفت ہو رہی تھی۔ اس نے بازار میں لگی پانی کی ٹونٹی کے نیچے جوتے کو دھویا اور آگے بڑھ گئی۔
کرن، چوک میں پہنچی۔ وہاں سعید سخت پریشانی کی حالت میں کھڑا تھا۔ کرن اس کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ پاؤں سے جوتے نکالے اور انھیں پاؤں کی ٹھوکر لگا کر سعید کے سامنے کر دیا، اور کہنے لگی:
’’میں یہ جوتے نہیں پہنوں گی۔۔۔؟‘‘
’’تم اتنی دیر کہاں رہی، اب میں سکول کیسے جاؤں۔۔۔؟‘‘ سعید نے سخت الجھن میں کہا۔
کرن کچھ دیر خاموش کھڑی رہی اور پھر گھر کی طرف چل دی۔ سعید، اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا ۔ اسے جوتے پہنتے ہی محسوس ہوگیا تھا کہ دائیں پاؤں والا جوتا، نالے میں گرا ہے۔ سعید کہنے لگا:
’’جوتا نالے میں کیسے گر گیا۔۔۔؟‘‘
کرن بالکل خاموش چلتی جا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں غصہ اور بے زاری واضح طور پر نظر آرہی تھے۔ سعید نے اس کیآنکھوں میں جھانکا۔ وہ سمجھ گیا کہ کرن اس سے ناراض ہے۔ اس نے سوچا کہ اُس وقت سکو ل جانا، اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنا ہو گا۔۔۔ چھٹی کر لینی چاہیے۔
’’میں سکول نہیں جارہا۔۔۔ آؤ، آپوشٹاپو کھیلتے ہیں۔۔۔‘‘
’’سکول نہیں جاؤ گے تو تمھاری پٹائی ہوگیا ور جوتے کے گم ہونے کا قصہ ابو کو معلوم ہو جائے گا۔‘‘ کرن نے کہا۔
’’اس وقت دوسرا پریڈ بھی ختم ہونے والا ہو گا۔۔۔ تم بتاؤ، ہوا کیا۔۔۔؟‘‘
’’آج میں نے اپنے جوتے دیکھے تھے۔۔۔ ان پر اس کیل کا نشان بھی تھا، جو ہم نے چھری سے کھینچا تھا۔۔۔ بالکل وہی تھے، جوتے۔۔۔ ایک بچی نے پہن رکھے تھے۔ میں اس کا گھر بھی دیکھ آئی ہوں۔۔۔حوض والی مسجد کے ساتھ والی گلی کے آخر میں وہ رہتی ہے۔۔۔ ‘‘ کرن نے بڑی تیزی سے یہ سب کہا۔
’’چلو، اس کے گھر چلتے ہیں۔۔۔ ‘‘ سعید نے فوراً فیصلہ کرتے ہوئے کہا۔
دونوں بہن بھائی کودتے ہوئے، ایک گلی سے دوسری گلی میں بھاگے چلے جا رہے تھے۔ ان گلیوں کے درمیان میں نکاس کے لیے چھوٹی چھوٹی نالیاں بنی ہوئی تھیں۔ وہ ایک نالی کے اوپر سے کودتے ہوئے کبھی نالی کے دائیں اور کبھی بائیں طرف ہو جاتے۔ اس طرح انھوں نے اِدھر اُدھر کودنے کا کھیل سا بنا لیا۔ سعید، کرن سے آگے چل رہا تھا اور ہر چوک میں پیچھے منہ موڑ کر پوچھتا کہ کس طرف مڑنا ہے۔ آخر وہ اس گلی میں مڑ گئے، جس کے آخر میں اس بچی کا گھر تھا۔ موڑ کے ساتھ ہی گلی میں پیپل کا ایک درخت تھا جس کی جڑیں گلی کے فرش اور ایک مکان کی دیوار میں پیوست تھیں۔ دونوں اس درخت کے تنے کے پیچھے چھپ گئے۔ دونوں ٹکٹکی لگا کر، مسلسل اس بچی کے گھر کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اتنے میں دروازہ کھلا، وہی بچی باہر نکلی۔ اس نے دروازے سے باہر نکلتے ہی دروازے کا ایک پٹ ہاتھ میں پکڑ لیا۔ اس کے بعد وہی شخص جو کرن نے صبح دیکھا تھا، گلے میں ایک کھانچہ ڈالے نمودار ہوا۔ کھانچے میں بچوں کو بیچنے کے لیے ٹافیاں اور بسکٹ وغیرہ رکھے تھے۔ وہ دروازے سے باہر آگیا تو دروازے میں سے ایک لمبی چھڑی نمودار ہوئی۔ بچی نے اسے پکڑ کر، اس شخص کے حوالے کر دیا۔ وہ شخص ایک دو قدم چلا اور اسی دوران بچی دروازے کو چھوڑ کر اس شخص کے برابر آگئی۔ اس نے اس شخص کو چھڑی سے پکڑ کر گلی کے درمیان میں بہتی نالی کو عبور کروایا۔ اس شخص نے اس بچی کے سر اور منہ پر ہاتھ پھیرا۔ بچی دوڑ لگا کر واپس گھر میں داخل ہوگئی۔
سعید اور کرن، درخت کے پیچھے کھڑے، یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ بچی کے گھر میں داخل ہوتے ہی، انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ دونوں کی آنکھوں میں نمی تھی۔ دونوں آہستہ آہستہ، بالکل خاموش، گلی کے ایک طر ف آگے پیچھے چلتے گھر لوٹ آئے۔
اگلے دن جب سعید سکول گیاتو سکول کا گیٹ بند ہو چکا تھا۔ وہ سکول میں داخل ہوا۔ اس نے دیکھا اسمبلی ختم ہوچکی تھی مگر گیٹ کے سامنے بچوں کی ایک بڑی تعداد مرغا بنی ہوئی تھی۔ ایک استاد کرسی پر بیٹھے تھے۔ مرغا بنے بچوں کی قطار استاد کے سامنے تھی۔ ہر بچہ مرغا بنے، حرکت کرتا ہوا، ان کے سامنے آجاتا ۔ منہ ان کی طرف پھیرتا۔ استاد اس کا کان پکڑ کر مروڑتے اور لیٹ آنے کی وجہ دریافت کرتے۔ وجہ، تسلی بخش ہوتی تو وہ بچے کو منہ دوسری طرف موڑنے کا کہتے اور اپنے پاؤں سے اس کی پشت پر زور سے دھکا دیتے۔ بچہ لڑھکتا ہودور جا گرتا۔ کپڑوں سے مٹی جھاڑتا ہوا بچہ زمین سے اٹھتا۔ شرمندگی کی دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے کمرۂ جماعت کی طرف چلا جاتا۔
سعید نے سکول میں داخل ہوتے ہی، بستہ گردن سے اتارا اور جھک کر مرغا بن گیا۔ بستہ اس کے چہرے کے پاس پڑا تھا۔ وہ بہت قریب سے اپنے بستے کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے سے گرتا پسینہ، قطرہ قطرہ بستے پر گر رہا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ حرکت کرتا، استاد کی کرسی کے قریب تر ہو تا جا رہا تھا۔ بستہ بھی اس کی حرکت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ جب اس سے آگے صرف دو بچے رہ گئے تو اس نے محسوس کیا کہ اس کا دل بہت زور زور سے دھڑک رہا ہے۔ اس کا حلق جو پہلے ہی پیاس سے خشک تھا، کانٹے کی صورت اسے تکلیف دینے لگا۔ وہ کافی دیر سے مرغا بنے اب کافی تھک گیا تھا۔ اس کی پنڈلیوں اور پاؤں میں دکھن ہو رہی تھی۔ اسے لگا، اس کی آنکھوں میں دیکھنے کی قوّت ختم ہو گئی ہے اور اندھیرا سا ہو رہا ہے۔ وہ حرکت کرتا ہوا، استاد کی کرسی کے سامنے آگیا اور اس نے اپنا منہ استاد کی طرف موڑ لیا ۔ اسے معلوم تھا کہ استاد، اب اس کا کان پکڑیں گے۔ مگر استاد نے کان پکڑنے کی بجائے، اس سے پوچھا:
’’تم کل بھی نہیں آئے اور آج آئے تو لیٹ۔۔۔؟‘‘
سعید کے کان ، اسے محسوس ہوا جیسے جل رہے ہیں۔ اسے یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اس کے کان ہی نہیں، اس کا پورا جسم ایک خونخوار شکاری کے سامنے بے بس پڑا ہو اور شکاری اسے جب چاہے، جیسے چاہے، کھا سکتا تھا۔
’’میری امی بیمار ہے، گھر میں ان کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔۔۔‘‘ سعید نے کہا۔
’’تم جھوٹ بولتے ہو۔۔۔‘‘ استاد نے کہا اور سعید کے کان پکڑ کر انھیں خوب مروڑا۔ سعید کو سکون سا ملا کہ آخر جو ہونا تھا وہ ہو ہی گیا مگر ساتھ ہی ایک زور دار تھپڑ پڑا تو اسے بڑی ذلت محسوس ہوئی ۔ اسے غصہ بھی آیا جیسے وہ اس کا حقدار نہیں تھا۔ اتنے میں ایک اور تھپڑ پڑا۔ یہ منہ کی دوسری طرف تھا اور سعید لڑکھڑا کر زمین پر جاگرا۔ وہ زمین سے اٹھا مگر وہ دوبارہ مرغا نہیں بنا۔ اس کی آنکھیں انگارے کی طرح سرخ تھیں۔ ان میں ذلّت نہ سہہ پانے کے باعث آنسو امڈ آئے تھے مگر ان میں سب سے نمایاں سرکشی اور نفرت کی جھلک تھی۔
’’آنکھیں نیچی کرو۔۔۔!‘‘ استاد، سعید پر دھاڑے۔
سعید نے اپنی آواز بلند کرتے ہوئے کہا:
’’میری امی بیمار ہے، اسے خون کی الٹی آئی تھی۔۔۔!!‘‘
’’میں تمھارے سب بہانے سمجھتا ہوں۔۔۔‘‘ استاد نے کرسی سے کھڑا ہو کر کہا اور ایک اور تھپڑ سعید کے منہ پر جڑ دیا۔ سعید کو اس تھپڑ کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ اپنی جگہ پر تھوڑا سا لرزا تو ضرور ، مگر اس کی آنکھوں میں نفرت اور غصہ اب اپنی انتہا کو چھو گیا تھا۔ اس نے چیخنے کے انداز میں کہا:
’’میری ماں بیمار ہے۔۔۔ اسے خون کی الٹی آئی تھی۔۔۔ وہ مر جائے گی۔۔۔‘‘
وہ مسلسل چیخ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جیسے بند ٹوٹتے ہی اس کے چہرے کو شرابور کر رہی تھیں۔ وہ مسلسل اپنی قمیص کے بازو سے ناک صاف کر رہا تھا اور چلا رہا تھا۔
’’میر ی امی مر جائے گی۔۔۔خون۔۔۔ الٹی۔۔۔‘‘
جب یہ سب کہتے کہتے اس کی آواز میں دراڑیں پڑنے لگیں تو اس نے بہت بلند آواز میں رونا شروع کر دیا۔
سعید کی چیخ و پکار اس قدر بلند تھی کہ یہ پورے سکول میں گونجی۔ چند بچے جو مرغا بنے ہوئے تھے، سیدھے کھڑے ہو کر پھٹی پھٹی نگاہوں سے سعید کو دیکھ رہے تھے۔ سب کی آنکھوں میں نمی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ آگے بڑھ کر سعید کو دلاسہ دیں۔ اسے گلے لگا لیں مگر استاد کے خوف سے وہیں کھڑے اسے دیکھتے رہے۔ ان کے دلوں کی شکستگی، ان کے چہروں پر بالکل صاف پڑھی جا سکتی تھی۔ استاد، سعید کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے چہرے سے محسوس ہو رہاتھا کہ جیسے وہ کوئی جادو کا کھیل دیکھ رہے ہوں۔ یہ کھیل کھیلتے کھیلتے سعید ایک مرغے سے سچ مچ کا انسان بن گیا ہو۔ وہ سعید کے پاس آئے اور اس کا بازو پکڑنے کی کوشش کی۔ سعید نے ان کا بازو جھٹک دیا اور پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ اب وہ رو رہا تھا مگر اس میں وہ پہلی سی بے بسی اور بے قراری نہ تھی۔ اسی دوران سکول کے ہیڈ ماسٹر سعید کے پاس آکر کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے استاد کو آنکھوں آنکھوں میں اشارہ کیا اور سعید کو ساتھ لے کر اپنے دفتر میں لے گئے۔ سعید کو کرسی پر بٹھایا۔ خود جگ سے پانی گلاس میں ڈال کر اس کے سامنے رکھا۔ اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ پیار کے احساس سے سعید کی آنکھوں سے پھر آنسو بہنے لگے۔ ہیڈ ماسٹر نے پوچھا:
’’تمھاری امی دوائی کھاتی ہیں، کیا؟‘‘
’’ابو کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں۔۔۔ پہلے دو تین بجے گھر آجاتے تھے۔۔۔ اب رات گئے لوٹتے ہیں۔۔۔‘‘ سعید نے ہچکی لیتے ہوئے کہا۔
’’وہ کوئی کام کرتے ہوں گے۔۔۔ محنت سے ہی گھر چلتے ہیں۔۔۔ تم اسمبلی کے ختم ہونے تک آجایا کرو۔۔۔ تمھاری پڑھائی کا حرج نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
’’جی۔۔۔‘‘ سعید نے لمبی سانس چھوڑتے ہوئے کہا۔
10
جوتے بدل بدل کر کرن اور سعید سکول جاتے رہے۔ کچھ دنوں میں یہ سب کرنا، انھیں کھیل سا لگنے لگا۔ ایک دن سعید، سکول کی اسمبلی کے ختم ہونے کے کافی دیر بعد سکول پہنچا۔ وہ دوڑتا ہوا اپنے کمرہ جماعت میں داخل ہوا۔ وہاں کوئی بھی لڑکا موجود نہ تھا۔ اس نے کمرے کی کھڑکی کے اس پار بچوں کو بھاگتے ہوئے دیکھا۔ سکول کے پی ٹی ماسٹر، ہاتھ میں ایک میٹر پکڑے ہر بچے کو دوڑا کر اس کی رفتار معلوم کر رہے تھے۔ ابھی تک انھوں نے صرف دو بچوں کو شہر کے تمام اسکولوں کے درمیان دوڑ کے مقابلے کے لیے چنا تھا۔ سعید بھی قطار میں پیچھے کھڑا ہو گیا۔ وہ ایک دیوار کے ساتھ کھڑا تھا اور اس پر ایک پوسٹر لگا ہوا تھا۔ سعید اس پوسٹر کو پڑھنے لگا۔ اس کی نظر جوگر کے خوبصورت جوڑے پر جاٹکی۔ اس کے ساتھ لکھا تھا کہ دوم آنے والے کو جوگر انعام میں ملیں گے۔ سعید کا دل ایک دم اچھلا۔ اس نے اس کے اوپر دیکھا۔ ایک کپ کی تصویر تھی اور اس کے ساتھ لکھا تھا کہ اول آنے والے کو کپ ملے گا۔ جوگروں کے نیچے کتابوں کی تصویر تھی اور یہ انعام سوم آنے والے کو ملنا تھا۔ سعید نے سوچا کہ اگر وہ دوئم آجائے تو اسے نئے جوگر مل سکتے ہیں۔ اس نے ارادہ کیا کہ وہ دوڑ میں حصہ ضرور لے گا۔
پی ٹی ماسٹر کافی دیر بچوں کو دوڑاتے رہے اور انھوں نے پانچ بچوں کو منتخب کر لیا۔ اس کے بعد انھوں نے قطار میں کھڑے دس بارہ بچوں سے کہا:
’’تم لوگ، اب اپنی اپنی جماعتوں میں چلے جاؤ۔ میں نے صرف پانچ بچوں کو دوڑ کے مقابلے کے لیے چننا تھا، سو وہ کام ہو گیا۔۔۔!‘‘
سعید کو دھچکا سا لگا۔ اسے لگا جیسے کسی نے اس سے، اس کے نئے جوگر چھین لیے ہوں۔
’’۔۔۔ میں بھی دوڑ میں حصہ لینا چاہتا ہوں۔۔۔ آپ مجھے بھی دوڑا کر دیکھ لیں۔۔۔‘‘سعید نے کہا۔
’’تم تو ویسے ہی بہت کمزور ہو، اتنی لمبی دوڑ کیسے دوڑ پاؤ گے۔۔۔؟ پورا ایک میل ، بہت تیزی سے بھاگنا ہوگا۔۔۔!‘‘ پی ٹی ماسٹر نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’میں بھاگ سکتا ہوں۔۔۔ آپ مجھے دوڑا کر تو دیکھیں۔۔۔!‘‘ سعید نے التجا کے لہجے میں بات کی۔
’’اب بحث نہ کرو، ہم نے پانچ بچوں کو لینا تھا، سو لے لیا۔۔۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے بھی یہی حکم دیا ہے۔۔۔ تم اب جاؤ۔۔۔‘‘
’’آپ مجھے دوڑا کر تو دیکھیں، اگر میں اچھا نہ دوڑ سکا تو آپ مجھے دوڑ میں نہ شامل کرنا۔۔۔‘‘ سعید نے پھر التجا کی۔
’’تمھیں کہاناں۔۔۔ اب اور بچے ٹیم میں شامل نہیں کرنے۔۔۔ تم بحث نہ کرو اور اب جماعت میں چلے جاؤ۔۔۔ چلو، شاباش۔۔۔!!‘‘ پی ٹی ماسٹر نے زور دے کر کہا۔سعید کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ کہنے لگا:
’’جناب میں دوم آؤں گا۔۔۔ آپ مجھے دوڑا کر تو دیکھیں۔۔۔‘‘
’’چلو پھر، سامنے صحن میں چلتے ہیں۔۔۔‘‘ پی ٹی ماسٹر سعید کو لے کر سکول کے دروازے کے سامنے والے صحن میں لے آئے۔ انھوں نے سعید کو سمجھایا کہ جب وہ وسل ماریں تو اسے دوڑنا شروع کر دینا چاہیے۔ پورے زور سے دوڑنا ہو گا۔ جب وہ دوسری وسل بجائیں تو وہ رک جائے۔
پی ٹی ماسٹر نے وسل بجائی۔ سعید نے پوری طاقت سے دوڑنا شروع کر دیا۔ پی ٹی ماسٹر بار بار میٹر کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ سعید کی دوڑنے کی رفتار پر حیران رہ گئے۔۔۔ سعید نے صحن کے دو تین چکر لگا لیے تو انھوں نے دوسری وسل بجائی۔ سعید نے دوڑنا بندکر دیا اور پھولی ہوئی سانس کے ساتھ پی ٹی ماسٹر کے پاس آکھڑا ہوا۔ وہ حیرت زدہ آنکھوں سے پی ٹی ماسٹر کو دیکھ رہا تھا۔ پی ٹی ماسٹر سعید کی طرف جھکے اور اس کے دونوں شانوں کو پکڑ کر کہنے لگے:
’’بھائی، تم نے کما ل کر دیا۔۔۔ تم دوڑ میں دوئم نہیں، اوّل آؤگے۔۔۔ اب تم ہر روز دوڑنے کی مشق کیا کرو۔۔۔‘‘
’’جی، وہ تو میں پہلے ہی سے ہر روز کرتا ہوں۔۔۔‘‘ سعید نے بڑی خوشی سے کہا۔
11
دوڑ کا مقابلہ شہر کے ایک پارک میں منعقد ہوا۔ اس پارک میں کئی سال پہلے اینٹوں کی روشیں، فوارے، بتیاں اور بچوں کے لیے جھولے لگائے گئے تھے۔ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث یہ سب چیزیں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔ ان ٹوٹی ہوئی چیزوں کی موجودگی، سرسبز گھاس اور ہرے بھرے درختوں کی قدرتی خوبصورتی کی بھدا بنا رہی تھی۔ فوارے ٹوٹ چکے تھے اور ان کے حوضوں میں مٹی اور گندگی کی ایک موٹی تہہ بچھ چکی تھی۔ بتیاں، لوہے کے لمبے پائپوں پر لگائی گئی تھیں جو چند روز جلنے کے بعد ٹوٹ گئیں اور یہ اپنی تاروں سمیت پائیوں پر لٹکنے لگیں۔ بعد میں بچوں نے نشانہ لگانے کی مشق کے دوران ان کا خاتمہ کر دیا۔ اب پائپ ٹیڑھے ہو چکے تھے اور زیادہ تر غائب تھے۔ اینٹوں کی روشیں ٹوٹ پھوٹ کر غیر ہموار پتھریلا راستہ بن چکی تھیں اور ان پر چلنا ممکن نہ تھا۔ لوگ ان پر چلنے کی بجائے گھاس پر چلتے تھے اور اس طرح گھاس پر پگڈنڈیوں کی بھول بھلیاں بن گئی تھیں۔ بچوں کے جھولوں میں اکثرکے چھوٹے بڑے آثار موجود تھے البتہ سلائیڈ جو سیمنٹ کی بنی ہوئی تھی، اپنی جگہ پر موجود تھی۔ سلائیڈ کے آگے، جہاں بچے سلائیڈ کرتے ہوئے اترتے تھے، ایک گہرا کھڈابن چکا تھا۔
یہ پارک خاصا بڑا اور ہرا بھرا تھا۔ اس کے ہرا بھرا ہونے میں کسی انسانی کوشش کا ایسا عمل دخل نہ تھا۔ پارک کے پاس ایک راجباہ تھی، جس میں سے نہر کا پانی گزرتا تھا۔ اس کے کنارے سلامت نہ ہونے کے باعث پانی بہہ کر پارک میں چلا جاتا تھا اور اس طرح یہاں لگے پودوں اور درختوں وغیرہ کو پانی ملتا رہتا تھا۔ پارک کی ٹوٹی پھوٹی چار دیواری کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اگر دو چکر لگائیں تو قریباً ایک میل کا فاصلہ بنتا تھا۔ دوڑ والے دن اس راستے کے ساتھ ساتھ رسیاں لگا دی گئیں، جن پر رنگ برنگی جھنڈیاں لگی ہوئی تھیں۔ پارک کے دروازے کے اوپر ایک لمبا بینر لگا ہوا تھا، جس پر اس دوڑ کے انعقاد کی تاریخ اور انعامات کی تفصیل تھی۔ بینر کے نیچے رسیوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے پتھر بندھے تھے تاکہ بینر سیدھا رہے۔
سعید، ساتھی دوڑنے والوں اور چند استادوں کے ساتھ صبح سات بجے پارک میں پہنچ گیا۔ اس دن سکول میں چھٹی تھی۔ آہستہ آہستہ مختلف سکولوں کے بچے، اپنے اپنے سکول کا بینر اٹھائے، ٹولیوں کی صورت میں پارک میں جمع ہونے لگے۔ پارک کے دروازے کے ساتھ ایک بڑا میز رکھا تھا۔ اس پر گہرے سبز رنگ کا اونی سا کپڑا بچھا تھا اور اس پر انعامات سجے ہوئے تھے۔ اسی جگہ پر ایک بڑا شامیانہ لگا ہوا تھا۔ شامیانے کے نیچے بہت سی کرسیاں بچھی تھیں۔ میز کے اوپر شامیانے پر ایک بڑا بینر لگا ہوا تھا اور اس پر لکھا تھا۔
’’سالانہ بین المدارس مقابلہ دوڑ‘‘
سکولوں سے آنے والی تمام ٹولیاں کرسیوں کے آگے اپنے اپنے بینروں کے پیچھے کھڑی ہوتی گئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ، پارک بینروں، بچوں ، استادوں اور بچوں کے رشتے داروں سے بھر گیا۔ پارک میں سپیکر کی آواز گونجنے لگی۔ اس پر بار بار ہدایات نشر ہو رہی تھیں۔ کبھی اعلان ہوتا کہ انتظامیہ آنے والوں کو خوش آمدید کہتی ہے۔ کبھی دوڑ میں جیتنے والوں کو ملنے والے انعامات کا اعلان کیا جاتا۔ کبھی قدرے ناراضگی ظاہر کی جاتی کہ والدین اور بچے جھنڈیوں سے بنے دوڑ کے راستے پر نہجائیں۔ آخر اعلان ہوا کہ تمام بچے جو دوڑ میں حصہ لینا چاہتے ہیں، پارک کے دروازے کے پاس جمع ہو جائیں۔
دوڑ میں حصہ لینے والے بچوں کے نام اور سکولوں کے نام لکھنے کے بعد بچوں کو ایک قطار میں کھڑا ہونے کا کہا گیا۔ بچوں میں سے کچھ تو بہت پُرجوش تھے۔ کچھ گھبرائے سے اور کچھ اتنے بڑے ہجوم میں اپنے آپ کو گھرا ہوا دیکھ کر گم سم سے ہوگئے تھے۔ کچھ بچے لوگوں میں اپنے آپ کو محسوس کرتے ہوئے خاصے خوش تھے اور ضرورت سے زیادہ شرارتی ہوگئے تھے۔ وہ مسلسل ایک دوسرے سے چھیڑ خانی کر رہے تھے۔
ایک سرخ و سفید، لمبے تڑنگے بزرگ جنھوں نے سفید قمیص اور سفید پتلون پہن رکھی تھی، گلے میں وسل لٹکائے بچوں کے سامنے آکھڑے ہوئے۔ سب لوگ انھیں خان صاحب، کہہ کر پکار رہے تھے۔ خان صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ انھوں نے بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیا تھا اور دوڑ میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ سونے کا تمغہ ہی جیتتے مگر چونکہ انگریز ، دیسی لوگوں کو کسی قیمت پر پہلا انعام نہیں دینا چاہتے تھے، انھیں کسی سازش کے تحت تیسری پوزیشن پر لایا گیا۔ خان صاحب کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ وہ اپنی جوانی میں پچیس تیس میل دور ایک بڑے شہر تک آرام سے دوڑ کر چلے جاتے اور پھر واپس بھی چلے آتے تھے۔ خان صاحب نے وسل بجائی۔ ساتھ ہی سپیکر پر اعلان ہوا کہ دوڑنے والے بچوں کے علاوہ کوئی بھی شخص دوڑ کے راستے میں نہ آئے۔ بچوں کو چونے کی ایک لائن کے پیچھے کھڑا ہونے کا کہا گیا۔ اس کا اعلان بھی سپیکر پر ہوا۔
بچے لائن کے پیچھے کھڑے تو ہوگئے مگر وہ خان صاحب کے دوڑ شروع کرنے کے لیے وسل بجنے سے پہلے ہی لائن سے آگے آ جاتے۔ بچوں کو پھر لائن سے پیچھے کھڑا ہونے کی تلقین کی گئی۔ سپیکر پر بار بار اعلان ہونے لگا۔ بچے چند سیکنڈ کے لیے چونے کی لائن کے پیچھے کھڑے ہوتے مگر پھر بے قراری میں آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگتے اور کچھ تو دوڑنا بھی شروع کر دیتے۔ خان صاحب آہستہ آہستہ غصے میں آرہے تھے اور اس کا اندازہ ان کے چہرے سے بخوبی ہو رہا تھا۔ ایک بچہ جو دیگر بچوں کے مقابلے میں زیادہ صحت مند اور توانا ڈیل ڈول والا تھا، بار بار لائن سے آگے آنے کی پہل کر رہا تھا۔ خان صاحب اس بچے کے پاس آئے اور آنکھیں نکال کر اسے خوب ڈانٹا۔ اسے دوڑ سے باہر کر دینے کی دھمکی بھی دی۔ اس ڈانٹ ڈپٹ کے بعد، خان صاحب خاصے مطمئن نظر آرہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ا ن کی ڈانٹ کا بچوں پر خاطر خواہ اثر ہو گا۔ انھوں نے بلند آواز میں کہا۔۔۔ ’’ریڈی۔۔۔!!‘‘ مگر وسل بجنے سے پہلے ہی بچے ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے، لائن سے آگے آگئے۔ خان صاحب نے اب لائن کی کوئی پرواہ نہ کی اور ایک لمبا وسل بجا دیا۔ بچے دوڑنے لگے۔
سعید، دوڑ والے دن، صبح سے ہی گھبرایا سا تھا۔ اس نے کرن کو دوڑ کے بارے میں بتایا اور یہ بھی کہا کہ وہ دوئم پوزیشن جیت کر نئے جوگر حاصل کر لے گا۔ وسل بجتے ہی ، اس کی گھبراہٹ اور بے چینی ختم ہوگئی۔ اسے محسوس ہوا جیسے اس میں چھپی کوئی طاقت ایک دم جاگ گئی ہو۔ اس کے جوتے ٹوٹے ہوئے تھے اور اس نے تسموں کی جگہ پٹ سن کی رسی ڈال کر انھیں اپنے پاؤں کے گرد کس لیا تھا۔ اس سے اسے دوڑنے میں آسانی محسوس ہورہی تھی تاہم اس کے پاؤں میں مسلسل کنکر چبھتے جارہے تھے۔ اس نے کنکروں کے چبھنے کی دکھن کا خیال چھوڑ دیا اور پوری قوّت دوڑنے پر صرف کر دی۔ دوڑ شروع ہوتے ہی، چھ سات بچے سعید سے آگے تھے۔ سعید کے پیچھے لڑکوں کا ایک ہجوم دوڑ رہا تھا۔ بچوں کے استاد اور رشتے دار رسیوں کے ساتھ ساتھ دوڑ کر بچوں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے اور ایسا کرتے ہوئے دوڑ کے راستے میں داخل ہو رہے تھے۔ سپیکر پر مسلسل اعلان ہو رہا تھا کہ لوگ دوڑ کے راستے سے دوررہیں۔ ایک ماں، کچھ زیادہ ہی جوش میں تھی۔ وہ چیخ چیخ کر اپنے بچے کا حوصلہ بڑھا رہی تھی اور مسلسل، دوڑ کے راستے میں بھاگتی چلی جا رہی تھی۔ ابھی دوڑ کو شروع ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ دوڑ کے راستے پر لگی رسی ٹوٹ گئی۔ بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے لوگ دوڑ کے راستے میں آگے بڑھنا شروع ہوگئے اور بچوں کے لیے دوڑنے کا راستہ تنگ سے تنگ ہوتا گیا۔ سپیکر پر اعلان ہونے لگا۔ اب تک اعلانات میں جس احترام سے بات کہی جا رہی تھی، ایک دم ختم ہو گیا۔ اب سپیکر پر لوگوں کو شرم دلا کر راستے سے الگ ہونے کا کہا جا رہا تھا۔ کچھ لوگوں نے ہاتھ پکڑ کر لوگوں کو دوڑ کے راستے سے دُور رکھنے کی کوشش کی۔ مگر ہجوم جب آگے جھک کر، گردن اٹھا کر اپنے بچوں کو دیکھنے کی کوشش کرتا تو لوگوں کا دباؤ، آگے کی طرف بڑھ جاتا۔ آگے ہاتھ پکڑے لوگوں پر دباؤ بڑھتا تو ان کے پاؤں اکھڑنے لگتے ۔ ان کے ہاتھ چھوٹ جاتے اور لوگ پانی کے ریلے کی مانند بہہ نکلتے۔ کچھ بچوں اور بڑوں کو شغل مل گیا تھا کہ وہ جان بوجھ کر آگے کی طرف دباؤبڑھاتے اور اگلی صفوں میں کھڑے لوگ گر پڑتے یا گرتے گرتے دوڑ والے راستے میں جا سنبھلتے۔
پہلے چکر کے ختم ہونے پر سعید تیسرے نمبر پر تھا۔ اس نے کوشش کر کے تیز بھاگنا شروع کر دیا۔ اس وقت اس کے ساتھ کئی بچے دوڑ رہے تھے۔ یہ بچے ابھی پہلے چکر میں ہی تھے مگر دیکھنے میں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ سب سے آگے ہوں۔ آہستہ آہستہ سعید سب سے آگے اوّل نمبر پر دوڑنے لگا۔ اس وقت وہ دوسرے چکر کے قریباً آدھے فاصلے میں تھا۔ اسے یک دم نئے جوتوں کا خیال آیا۔ اس نے اپنی رفتار کم کرنا شروع کر دی۔ اسی دوران ایک بچہ بڑی تیزی سے بڑھتا ہوا، سعید کے برابر آگیا۔ اس نے سعید کی ٹانگ پر ہلکی سی ٹھوکر لگائی۔ سعید لڑکھڑا کر گرا مگر فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کے ٹخنوں پر چوٹ لگی ہے مگر وہ طیش میں، اس لڑکے کو دوڑ میں پیچھے رکھنے کے لیے، بڑی تیزی سے بھاگنے لگا۔ وہ سر پٹ دوڑ رہا تھا کہ اس نے سرخ فیتے کو اپنے جسم سے ٹکراتا ہوا محسوس کیا۔ سامنے اسے پی ٹی ماسٹر کا چہرہ نظر آیا۔ پی ٹی ماسٹر نے گویا اسے اپنے بازوؤں میں دبوچ لیا۔ سعید کو فضا میں بلند کر دیا۔ ایک شور برپا ہو گیا۔ کوئی شخص، سعید کے سر پر ہاتھ پھیر رہا تھا تو کوئی اس کی کمر پر شاباش دے رہا تھا۔ سعید کے ایک استاد، ایک کیمرا لائے ہوئے تھے۔ انھوں نے سعید کو درمیان میں کھڑا کیا اور اس کے ایک طرف خان صاحب اور دوسری طرف پی ٹی ماسٹر کو کھڑا کر کے تصویر اتاری۔
انعام دینے کی تقریب شروع ہوئی۔ سعید، دوسرے دو بچوں کے ساتھ ، بڑی میز کے ایک طرف کھڑا تھا۔ وہ مسلسل میز پر رکھے جوگروں کو دیکھ رہا تھا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ دوڑ میں ہار گیا ہو۔ اعلان ہوا کہ سعید، دوڑ میں اول آیا ہے اور اسے انعام میں کپ دیا جائے گا۔ سعید اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ وہ جوگروں کو دیکھ رہا تھا کہ اس کے پی ٹی ماسٹر نے آگے بڑھ کر سعید کے کندھے کو ٹھونکا اور سرگوشی میں کہا:
’’جاؤ، اپنا کپ لے لو۔۔۔‘‘
سعید اپنے آپ کو گھسیٹتا ہوا آگے بڑھا۔ مہمان خصوصی نے سعید کے سر پر ہاتھ پھیرا، کمر پر تھپکی دی اور اسے کپ تھما دیا۔ تالیوں کا ایک شور بلند ہوا۔ سعید کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے اس شور میں مڑ کر پھر جوگروں کی طرف دیکھا۔ آنسو بھری آنکھوں سے دیکھنے سے جوگر بطخ کا ننھا سا بچہ نظر آرہے تھے۔
12
اس رات سعید کا بدن ٹوٹا ہوا تھا۔ اس کے پاؤں چھالوں اور پھر ان کے پھس جانے سے بنے زخموں سے بھرے ہوئے تھے۔ وہ بانس کی سیڑھی پر نہ چڑھ سکا اور نیچے کمرے میں دری پر ہی سو گیا۔ اس نے ایک خواب دیکھا:
’’وہ ایک پارک میں کھیلنے کے لیے جاتا ہے۔ وہاں ایک چبوترے پر خوبصورت جوگر دیکھتا ہے۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھتا ہے کہ شاید کوئی انھیں اِدھر رکھ کر بھول گیا ہو۔ اس کا دل کہتا ہے کہ یہ جوگر اس کے لیے ہیں اور کوئی اس کے لیے اِدھر چھوڑ گیا ہے۔ وہ جوگر اٹھا لیتا ہے اور بڑی تیزی سے بھاگنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے پاؤں میں پتھر چبھتے ہیں، ان میں سے خون بہنے لگتا ہے۔ وہ بھاگتا چلا جاتا ہے۔ آخر اپنے گھر کے ارد گرد گلیوں میں آ پہنچتا ہے۔ اسے دل میں خوشی محسوس ہوتی ہے کہ اب وہ گھر پہنچ جائے گا اور کرن کو نئے جوگر دکھائے گا۔ وہ دوڑتا رہتا ہے۔۔۔ ایک گلی سے دوسری، دوسری سے تیسری۔۔۔ اسے ایک جگہ پر وہی فوت ہونے والا ماشکی نظر آتا ہے۔۔۔
ماشکی سفید کفن میں لپٹا ہوا ہے مگر اس کی آنکھیں ہل رہی ہیں۔ وہ سعید کو دیکھتی ہیں۔ سعید دوڑتا چلا جاتا ہے۔۔۔ ایک گلی سے دوسری گلی۔۔۔ اسے گھر کا راستہ سجھائی نہیں دیتا۔۔۔ وہ سخت گھبرا جاتا ہے۔۔۔‘‘
اسی گھبراہٹ میں اس کی آنکھ کھلتی ہے۔ وہ پسینے سے شرابور ہوتا ہے۔ کرن، اس کے جوتے پہنے سکول جانے کے لیے تیار کھڑی ہوتی ہے۔