کرپشن گالی ہے
سنٹینیل ماڈل ہائی سکول چترال برائے طلباء کے ٹینس گراونڈ میں ڈسکیں لگی ہوئی تھیں ۔۔مختلف سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں کے بچے پنسل دانتوں میں دبا کے اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ کب ان کو مقابلہ شروع کرنے کا حکم دیا جائے گا ۔۔ٹنس گراؤنڈ گلشن انسانیت کے پھولوں سے بھرا ہوا تھا ۔۔بظاہر اس مقابلے کا ان بچوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا ۔یہ ایسا موضوع تھا جو ان پاک اور خالص ذہنوں میں آنا ہی نہیں چاہیئے تھا ۔۔۔ان کے خالص ذہنوں میں اور پاکیزگی بھرنی تھی ۔۔ان کو ایک زندہ قوم کا زندہ فرد بنانا تھا ۔۔ان کو برائی کے ساتھ کیا تعلق تھا ۔۔ان کو بدعنوانی بے ایمانی اور کرپشن سے کیا تعلق ہو سکتا تھا ۔لیکن مقابلہ عجیب تھا ۔کہ ’’بد عنوانی ‘‘ کی لعنت کو پینٹنگ کے ذریعے برُا کہنا تھا ۔۔ان کو مقابلے کے لئے تیار کرنا تھا ۔۔ان کے اساتذہ نے ان کو تیار کرنے کے لئے ان کو سمجھایا ہوگا کہ کرپشن کیا ہے؟ ۔۔ان کو چوری، ڈکیتی ،غفلت ،بے ایمانی ،دھوکہ ،جھوٹ،فریب،منافقت ،ناجائز ذرائع سے دولت کمانااور پھر ان کے خلاف ڈرائنگ کرتے ہوئے ان سب کا گر سیکھایا جانا ۔۔اساتذہ نے بچوں کو یہ تو بتایاہوگا ۔کہ کرپشن برائی ہے ۔۔لیکن ایک نئی چیز کا تعارف ان کو کردیا جاتا ہے ۔۔ان کے ذہنوں میں بہت سارے سوالات اُٹھتے ہونگے کہ آخر یہ کیا ہے ؟یہ کیوں برا ہے؟ ۔۔بہر حال ہر ایک کی اپنی سوچ ہے۔۔ میری کم عقلی کہتی ہے کہ یہ بچوں کے کرنے کے کام نہیں ہیں کیونکہ بچے معصوم فرشتے ہوتے ہیں اس لئے یہ ہر چیز کو کھیل سمجھتے ہیں اگر اس خطر ناک چیز کو کھیل سمجھیں توآگے یہ کہیں خدا نخواستہ لت نہ بن جائے ۔۔۔مختلف سرکاری اور نجی سکولوں کے بچے اپنے پرنسپلوں اور اساتذہ کے ساتھ آئے تھے۔۔اپنی اپنی سیٹوں پہ بیٹھ گئے ۔۔فوکل پرسن اے ڈی او فاروق اعظم صاحب کی نگرانی تھی ۔۔ڈی ای او جناب احسان الحق صاحب ،ڈی ڈی او جناب نور اللہ صاحب تشریف لائے ۔۔اساتذہ کو اطلاع دینے پہ تھوڑا اعتراض تھا ۔۔ان کو تسلی دی گئی کہ ایک سکول سے صرف ایک بچہ مقابلے میں شرکت کر سکتا ہے ۔پھر مقابلہ یہاں پر ہوگا ۔۔بنابنایا کام مقابلے میں شامل نہیں ہوگا ۔۔ڈی ای او صاحب نے ہدایات دی اور باقی پروگرام ڈی ڈی صاحب کے حوالہ کرکے چلے گئے ۔۔پروگرام کا باقاعدہ آغا زہوا ۔۔فاروق صاحب نے پروگرا م کا تعارف کرایا ۔۔ قومی احتساب بیورو کے صوبائی دفتر سے جاری اطلاع کے مطابق یہ مقابلے کرانے ہیں اور پانچ بہترین سکولوں کو صوبائی سطح کے مقابلوں کے لئے بھیجنا ہے ۔۔ڈی ڈی او قاری نور اللہ صاحب نے اساتذہ اور بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔۔کہ کرپشن کو اردو میں بد عنوانی کہتے ہیں ۔۔یہ لفظ فرد اور قوم دونوں کے لئے گالی کی حیثیت رکھتا ہے ۔۔بدعنوان فرد کی قوم کے اندر حیثیت نہیں ہوتی اور بد عنوان قو م کی اقوام عالم کے اندر حیثیت نہیں ہوتی ۔۔یہ لت فرد سے شروع ہوکر قوم تک جاتی ہے اور ناسور بن جاتی ہے ۔۔یہ غیرت ،ایمان ،ایثار ،انصاف حلا ل کمائی اور فکر آخرت کو کھا جاتی ہے اور انسان درندہ بن جاتا ہے ۔۔آپ نے قرآن و احادیث کا حوالہ دے کر بدعنوانی سے بچنے کی تلقین کی ۔۔انھوں نے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ باغ انسانیت کے پھول ہیں اور قوم کا مستقبل ۔۔ان کو ہر برائی سے پاک ہونا چاہیئے ۔۔یہ مقابلہ ہر برائی سے پاک ہونے کا ایک عہد ہے ۔آج آپ پینٹنگ نہیں بلکہ ایک عہد کر رہے ہیں کہ بدعنوانی آپ کے ہاتھوں شکست کھائے گی ۔۔آپ ایک غیرت مند قوم کے غیرت مند فرد بن جائینگے ۔قاری نور اللہ صاحب نے خود ان مقابلوں کی نگرانی کی ۔۔ججزکے فرائض صدر دارالعلوم چترال جناب مولانا میرزا محمد صاحب اورمعروف صحافی ادیب شاعر ،خوش نیویس جناب محکم الدین صاحب انجام دے رہے تھے ۔۔جناب نذیر احمد صاحب ڈی ایم ہائی سکول چمرکن بچوں کی سہولت کاری کر رہے تھے ۔۔پرنسپل ہائی سکول چترال موجود تھے ۔۔نمایاں غیر سرکاری سکولوں میں پبلک سکول بروز ،آرمی پبلک سکول اورساتھ دور دور کے سرکاری سکول شامل مقابلہ تھے ۔ کل انیس سکول تھے ۔۔ججوں کے فیصلے کے مطابق ہائیر سیکنڈری سکول گرم چشمہ پہلے ،ہائیر سکنڈری سکول دروش دوسرے ،ہائی سکول ہون تیسرے ہائی سکول چمرکن پشاور کیلئے منتخب ہوئے ۔ہائیر سکول دروش کے فعال پرنسپل جناب سلیم کامل صاحب نے اپنی موجودگی سے مقابلوں کو رونق دی اور بچوں کی حوصلہ افزائی کی ۔۔بچوں کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لئے یہ مقابلے تریاق کا کام کرتے ہیں اس لئے ان کو اہمیت دینا چاہیئے ۔۔سلیم کامل جیسی لیڈر شب اور قاری نور اللہ صاحب جیسے زمہ دار آفسر ہوں تو بچوں کو شاہین بننے میں دیر نہیں لگتی ۔۔فاروق صاحب ایک فعال آفیسر ہیں ۔۔بہر حال ہم اساتذہ توقع تبدیلی کی رکھتے ہیں اور وقت کے تقاضے بھی یہی کچھ مانگتے ہیں مگر توقعات کو اُمیدوں سے آگے بڑھنا نہیں چاہیئے ۔۔۔کہیں خواب چکنا چور ہو جائیں ۔