بلاگز

کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے..!

 تنویر عباس

گذشتہ کئی دہائیوں سے کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں ریکارڈ حد تک اضافہ ہوا ہے. سائنسدانوں کے نزدیک  تبدیلی وجہ ایندھن کا زیادہ استعمال اور درختوں کے بےدریغ کٹائی کے نتیجے میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اضافہ ہے. سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت غیر معمولی موسمی تبدیلیوں کا سبب بنتا ہے. جس کی  مثال حالیہ ہونے والی بارشوں سے لی جاسکتی ہے. یہ بارشیں پہاڑی علاقوں میں تغیانی اورسیلاب کا سبب بنی ہیں.

گلگت بلتستان پہاڑی علاقہ ہونے کے سبب حالیہ بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب کے زد میں ہے. جس کی وجہ سے نظام زندگی بری طرح متاثر ہو کر رہ گئی ہے. سب سے زیادہ تباہ کاریاں سکردو کے علاقے گیول میں دیکھنے کو ملیں جہاں درجنوں مکانات سیلاب کے نذر ہوگئے ہیں. جس کے نتیجے میں سینکڑوں مویشی ہلاک ہو چکے ہیں. جب کہ گلتری کے علاقے میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد لاپتہ ہوگئے ہیں جن کو تا حال تلاش نہیں کیا جاسکا. جبکہ بابوسر روڑ کو بھی ابھی تک واگزار نہیں کرایا گیا.

سیلاب متاثریں مساجد اور امام بارگاہوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں. متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے. تاہم حکومت کی طرف سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے. سیلاب متاثریں بے سر و سامانی کے عالم حکومتی امداد کے منتظر ہیں.

دوسری جانب گلگت میں بھی نلتر کا بجلی گھر بھی سیلاب میں بہہ گیا ہے جس کی وجہ سے گلگت کے تمام علاقے تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں. غزر میں بھی پاسکو کی جانب سے کیے جانے والے کوٹے کی کمی کی وجہ سے آٹا نایاب ہو چکا ہے.

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی حکومتی رویہ مایوس کن ہے. تمام عوامی نمائندے عوام میں موجود نہیں ہیں بلکہ وہ متاثرین کی امداد پر نواز شریف سے وفاداریاں نبھانے کو ترجیح دے رہے ہیں.

تمام حکومتی نمائندے ٹولیوں کی شکل میں پھولوں کے ہار لے کر عدلیہ کی جانب سے برطرف کیے جانے والے سابق وزیر اعظم کے استقبال کے لیے اسلام آباد میں ابھی سے انتظار کر رہے ہیں .ان کو نواز شریف کی خوشنودی کی فکر کھائے جا رہی ہے . درجنوں کارکنوں کی آمد کی وجہ سے ان کی رہائش کو لے کر ممبران اسمبلی اور کونسل پریشان ہیں.

سننے میں آرہا ہے کہ گلگت بلتستان ہاؤس میں کارکنوں کو بٹھانے کے لیے جگہ کو لے کر اشرف سدا اور عمران وکیل کے درمیان جگڑا ہوا ہے. جس میں انہوں نے لاتوں اور مکوں کا استعمال بھی کیا. مگر صدحیف ان کو اپنے کارکنوں کو بٹھانے کےلیے جگہ کی فکر ہے مگر ان بے گھر ہونے والے سینکڑوں متاثرین کی کوئی فکر لاحق نہیں.

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button