کالمز

ذمہ دار کون؟

تحریر: نیک بانو

میرے عزیز احباب ،رشتہ دار اور اقارب،

کچھ روز قبل سو شل میڈیا پر میری نظر ایک خبر پر رک گئی۔ خبر کچھ یوں تھی کہ ہنزہ کی سر زمین پر ایک اور خوبرو نونہال نے خود کشی کی تھی۔

یقین جانیں، اس خبر کو پڑھنے کے بعد کئی راتوں کی نیند کوسوں دور چلی گئی، اور کئی راتوں کا چین مجھ سے روٹھ گیا۔ایک ایسا بچہ جسے اللہ نے ہر نعمت سے نوازا ہو۔ایک خوبصورت گھر ،خوبصورت۔فیملی۔خوبصورت ماحول،یعنی کہ دنیا کی ہر نعمت سے مالامال ہو۔ کسی چیز کی کمی نہیں ۔پھر کیوں اس نے اس رب کی دی ہوئی اس خوبصورت زندگی کا خاتمہ کیا۔آخر کیوں؟۔

میرے پیارے روحانی بھائی، آخر کیوں آپ نے اپنی ماں کو اتنی بڑی سزا دی؟

میرے عزیز دوست و احباب ،ایک احساس ایک ذمہ داری ہے جومجھے اندر سے جھنجھوڑ رہی ہے کہ جس مقصد کے لئے رب نے ہمیں اس جہاں میں بھیجا تھا کیا اس مقصد کو ہم سب نے پایہءتکمیل تک پہنچایا ہے کہ نہیں؟ کیا ہم اس مقصد سے واقف ہیں؟ کیا ہم یہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟

میں یقینا ہراس بندے سے پوچھنا چاہونگی جو اس بچے سے منسلک ہے۔ کیا کوئی اسکادوست نہیں تھا جو بعض اوقات والدین سے بھی زیادہ قریب ہوتے ہیں؟ کیا انہوں نے جاننے کی کوشش نہیں کی کہ کوئی مسلہ تو نہیں؟ کیا اسے گائیڈ نہیں کر سکا کوئی؟کیا کوئی بھائی نہیں تھا ۔آپ نے کبھی نہں پوچھا کہ وہ کیوں اداس ہے۔؟ اس کے رشتہ دارں سے ہمسایوں سے۔اقارب سے پوچھنا چاہونگی کہ کیا اسے آپ نے کبھی اداس نہیں دیکھا؟۔ سکول کے ٹیچرز سے پوچھنا چاہونگی۔کہ کس حد تک آپ نے اسے والدین جیسا پیار دیا۔کیا کبھی آپ نے اس کے احساسات اور جذبات کو جاننے کی کوشش کی؟۔کبھی موقع دیا کہ وہ اپنی شخصیت کا اظہار کر سکے اساتذہ جو کہ نہ صرف درس و تدریس کے ذمہ دار ہیں بلکہ بچوں کی اخلاقی اور روحانی نشوونما کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔انہوں نے بچوں کی تربیت میں کوئی کوتاہی تو نہیں برتی ۔والدین سے پوچھنا چاہونگی جو کہ دنیا میں لانے کا سبب بنتے ہیں کیا انہوں نے گھر کا ماحول دوستانہ اور پیارو محبت والا بنایا جس میں بچہ بلا جھجک اپنے جذبات کا اظہار کر سکے۔کیا آپ نے کبھی اسے موقع دیا کہ وہ آپ سے اپنے احساسات کو شیر کرسکے۔ اس بچے سے جڑا ہوا ہر بندہ کہ رہا ہے۔کہ نہہیں معلوم کہ اس نے خود کشی کیوں کی۔ یاد رکھیں انسان کی شخصیت تب متاثر ہوتی ہے۔جب اسے مناسب ماحول نہ ملے اور اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دور رکھا جائے والدین کبھی کبھار بچوں کو سکول بھیج کر بے خبر ہوتے ہیں ان کا بچہ کس ماحول میں ہے ۔کن کی صحبت میں ہے۔کبھی جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ ٹیچرز کبھی یہ زحمت نہیں کرتے کہ بچے کس کی صحبت میں ہے۔۔صرف کتاب پڑھانا یا کلاس ورک،ہوم ورک دینا ایک ٹیچرکی ذمہ داری نہیں بلکہ بچے کی Holistic Development بھی اس کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ کہ نفسیاتی لحاظ سے بچہ کیسے جا رہا ہے،اخلاقی لحاظ سے بچے میں کہاں Improvement کی ضرورت ہے معاشی، معاشرتی ،سماجی ہرایریامیں بچے کی پرورش کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ بچے کی مکمل شخصیت تب بنتی ہے جب اس کی تربیت میں کوئی کمی نہ ہو۔ 15 سال سے زائد عرصہ میں نے یوتھ کی counselling کے ساتھ گزارا تب یہ بات میرے مشاہدے میں آئی کہ بچہ سوشل میڈیا میں گم ہے۔والدین اس سے بے خبر ہیں۔اور بچے جانے انجانے میں کسی بھی سماجی مسلےء کا شکار ہوجاتے ہےمذہبی عبادات اور رسومات کو فرسودہ سمجھتے ہیں اکثر ایسے بچے بھی ہیں جو مذہبی عبادت گاہ کی طرف رخ ہی نہیں کرتے۔خاص طور پر ہوسٹل میں رہائش پزیر طلبہ و طالبات اپنا قیمتی وقت سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں اور غیر ضروری سرگرمیوں میں شامل رہتے ہیں ۔اس وجہ سے وہ نہ صرف اپنی پڑھائی سے دور ہوتے ہیں بلکہ مذہب سے دور ہوتے ہوے ان رسومات کو فرسودہ سمجھتے ہیں۔ بعد میں بچے والدین اور استاد کے ڈر کی وجہ سے کسی سے شیر نہیں کرتے۔اور اندر ہی اندر وہ کھوکھلے ہوتے جاتے ہیں۔ ان تمام مسائل کے ذمہ دار وہ تمام والدین ہیں جنکو اپنے گھریلو کاموں سے فرصت نہیں اور بچوں کو ہاسٹل میں چھوڑنے کے بعد پلٹ کے انکی کارکردگی سے آگاہ نہیں رہتے۔ ہاسٹل کی انتظامیہ کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ان مستقبل کے معماروں کی تربیت میں اپنا کردار ادا کریں۔ صرف ماہانہ فیس وصول کرکے خود کو بری الذمہ نہ ٹھہرائے۔

اب بھی ہمارے پاس وقت ہے کل کو پچھتانے کی بجائے اگر ہم آج ہی صحیح اقدامات اٹھائے تو ہم اپنی آنےوالی نسلوں کو معاشرے کا ایک اہم فرد بنا سکتے ہیں۔ گاﺅں سطح پہ تعلیم یافتہ لوگ کمیٹیز بناےء اور ان بچوں کیcounselling کریں۔ایسے activities Healthy رکھے جس میں بچے شامل ہوسکے۔والدین کے لئے ایسے sessions رکھیں جو بچوں کی تربیت کے حوالے سے ہو۔ ان کواسلامی تعلیمات سے آگا کریں اللہ پر بھروسہ کرنا سکھائے کیونکہ خود کشی کی مختلف وجوہات میں مثلا گھرےیلوجھگڑے،قرضے،پسند کی شادی کا نہ ہونا،اور امتحان میں ناکامی،غیرضروری سرگرمیوں میں شامل ہونا۔جنسی اور نشہ جیسی مہلک سرگرمیاں،ذہنی دباو کا شکار ہونا وغیرہ ان تمام کو مدنظر رکھتے ہوے ہمیں ان بچوں کو گائیڈ کرنے کی ضر ورت ہے) سورہ النساء ارشاد ربانی ہے کہ اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاو مگر یہ کہ کوئی سودا تمھاری باہمی رضامندی کا ہو اور اپنی جانیں قتل نہ کرو بے شک اللہ تعالی تم پر مہربان ہےاور جو ظلم اور ذیادتی سے ایسا کرے گا تو عنقریب ہم اسے آگ میں داخل کریں گےاور یہ اللہ کے لئے آسان ہے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button