ہندور کا مشاعرہ اور بجایوٹ کی ڈھلتی شام (قسط چہارم)
گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔۔۔
ان پرمغز باتوں میں پتہ ہی نہیں چلا کہ ہم ہندور پہنچ چکے ہیں۔ اب ہم دوبارہ ہندور میں تھے۔ مقامی ہوٹل کے سبزہ زار میں شائقین کی ایک کثیر تعداد میوزیکل نائٹ سے لطف اندوز ہونے کے لیے حاضر ہوئی تھی۔ تاج صاحب ایک دفعہ پھر رونق محفل بن گئے۔ یہ داد دینے والوں کی مہربانی تھی یا تاج صاحب کے اندر کا بچہ جاگ اٹھا تھا؛ وہ ایسے ناچ رہے تھے کہ لگتا تھا یہ ان کی آخری رقص ہو۔ میوزیکل نائٹ جاری تھی۔ پھر ننھا آکاش ناچنے کیا آئے کہ محفل ہی جھوم اٹھی۔ ان کی تلوار ڈانس نے سب کو دم بخود کیا تھا۔ ہندور کی ڈھلتی رات، احباب کی صحبت اور میوزیکل نائٹ بھلا غم بھلانے کا اس سے اچھا موقع اور کیا ہوسکتا ہے۔ سو، ہم بھی آدھی رات تک تاج صاحب کے پہلو میں رہ کر ان کو داد دیتے رہے۔ آدھی شب کو شہر یار کا یہ شعر حسبِ حال لگتا تھا۔
ہے کوئی جو بتائے شب کے مسافروں کو
کتنا سفر ہوا ہے کتنا سفر رہا ہے
اس اثنا پتہ چلا کہ دکھی صاحب، نسیم صاحب اور شاکر صاحب آرام کرنے کے لیے کافی پہلے نیت شاہ کے گھر گئے ہیں۔ توصیف اور آصف بھی نیند کے ہاتھوں مجبور باہر جانے اور اندر آنے میں وقت گزار رہے تھے۔ اس لیے میں نے تاج صاحب سے گزارش کی کہ اب محفل برخاست ہونی چاہئیے کہ صبح ہمیں گلگت کی طرف بھی نکلنا تھا اس لیے تھوڑی سی نیند ضروری تھی۔ تاج صاحب توصیف اور آصف کے ساتھ کسی جاننے والے کے اصرار پہ ان کے گھر گئے جبکہ مجھے میرا ایک شاگرد علی اشرف ملا۔ وہ مجھے اپنے گھر لے جانے پر اصرار کرنے لگے۔ لیکن میں احباب کے ساتھ جانا چاہتا تھا کہ دوستوں کو اکیلے چھوڑ کر کہیں اور جانا آدابِ محفل کے تقاضے کے خلاف تھا۔ تاج صاحب میری مجبوری سمجھ گئے۔ کہنے لگے ’’کریمی! آپ اپنے شاگرد کے ساتھ جائیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، صبح پھر ہماری ملاقات ہوگی۔‘‘ پھر میں ان سے اجازت لے کر علی اشرف کے گھر گیا۔ رات کافی گزر چکی تھی۔ اس کے باوجود علی اشرف کے ساتھ ماضی کی یادوں کو تھوڑی دیر کے لیے تازہ کردیں۔
جب دو ہزار بارہ میں میری ڈیوٹی گوپس یاسین میں تھی تو ان دنوں علی اشرف سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ کئی سیشنز میں میرے شاگرد رہے ہیں۔ ہندور میں ہم نے ایک یوتھ کمیپ رکھا تھا۔ علی اشرف اس کیمپ میں پیش پیش تھے۔ وہ ان دنوں آغا خان سوشل ویلفئیر میں پروگرام آفیسر کے طور پر کام کر رہے تھے جبکہ آج کل وہ کاروبار سے منسلک ہیں۔ پاکستان میں تبدیلی آئے نہ آئے علی اشرف کی زندگی میں بڑی تبدیلیاں ہم نے دیکھیں، وہ پہلے مجرد تھے اب شادی شدہ ہی نہیں بلکہ ایک ننھی بچی کا باپ بھی بن گئے تھے ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ اُن دنوں جن کو چاہتے تھے وہ کسی اور کی زندگی میں چلی گئی جبکہ علی اشرف کسی اور کے ہوگئے۔ یہاں یہ شعر مناسب لگتا ہے کہ
میں اہل تھا کسی اور کا
میری اہلیہ کوئی اور ہے
ایسی باتوں کا تذکرہ کرکے میں علی اشرف کو مزید ستانا چاہتا تھا۔ خیر رات کافی بیت چکی تھی اس لیے سونا پڑا۔ سوئے بھی کیا کہ ہماری حالت اس شعر کی طرح تھی۔
اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی
ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی
رات دیر سے نیند کی آغوش میں جانے کی وجہ سے صبح دیر سے میری آنکھیں کھلیں۔ کھڑی کے پردے سرکا کے باہر کا نظارہ کیا تو دھوپ چاروں اور پھیل چکی تھی۔ کھڑکی کا دروازہ کھولا تو جہاں ہندور کی ہواؤں نے لب و رخسار کا طواف کیا وہاں نگاہیں ہندور روڈ کے کنارے بنے مرکزِ صحت پر پڑیں۔
یہیں تو کسی مہربان نے کبھی میرا بلڈ پریشر چیک کرتے ہوئے بے اختیار پوچھا تھا ’’سر! بی پی تھوڑی ہائی ہے کوئی ٹینشن تو نہیں لیتے؟‘‘ گاؤں اور دیہات میں یہی چھوٹے چھوٹے صحتی مراکز ہوا کرتے ہیں جہاں ایک آدھ کمپوڈر اور نرسز اپنی خدمات دے رہی ہوتی ہیں۔ لیکن گاؤں والے انہیں ڈاکٹر ہی سمجھتے ہیں اور پیار سے ڈاکٹر کہہ کر پکارتے بھی ہیں۔ کیونکہ جہاں صحتی سہولیات کے حوالے سے یہ صحتی مراکز ان کی کل کائنات ہوتے ہیں وہاں یہ نرسز ان کے لیے ڈاکٹر کا درجہ رکھتی ہیں کیونکہ یہ گاؤں والوں کی مشکلات اور تکالیف کو قریب سے دیکھتی ہیں اور اپنے پیشے سے بڑھ کر اپنی خدمات دیتی ہیں۔ ان کے پاس ایم بی بی ایس کی ڈگری نہیں ہوتی لیکن ان کے معصوم چہرے پر مسکراہٹ ضرور ہوتی ہے۔ گاؤں والوں کو بھی ڈگری کی فکر نہیں ہوتی ان کو ڈگری کا اچار ڈالنا ہے کیا؟ ان کو تو خوش دلی کی ضرورت ہوتی ہے جو یہ نرسیں بخوبی سرانجام دیتی ہیں۔ یہی ہمارا بھی ایک ایسی ہی دیہاتی ڈاکٹر صاحبہ سے آمنا سامنا ہوا تھا۔ بلڈ پریشر چیک کرنے لیے جب بی پی سیٹ میرے بازو سے باندھا گیا کچھ دیر بعد بی پی سیٹ کی ٹک ٹک کی آواز کے ساتھ ایک اور دکھ بھری آواز سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے غالباً سوال کیا تھا۔ ’’سر! بی پی تھوڈی ہائی ہے کوئی ٹینشن تو نہیں لیتے؟‘‘ ان کی آواز میں اتنی اپنائیت تھی اور اتنا درد تھا کہ شاید میرا سر درد کہیں پس منظر میں چلا گیا تھا۔ مجھے بجائے سوال کا جواب دینے بے اختیار ان سے پوچھنا پڑا تھا۔ ’’آپ کا نام؟‘‘ انہوں نے دھڑکتے دل، لرزتے لہجے اور اداس مسکراہٹ کے ساتھ اپنا نام بتایا تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ جس پر میں نے پچھلے سال پروین شاکر کی برسی پر تفصیل سے لکھا تھا۔ جو آپ کی بینائیوں کی نذر ہوچکا ہے۔ آج پھر ان یادوں نے گھیرا تھا۔
میں نہ جانے کب تک ماضی کی یادوں کو تازہ کرنے میں مگن رہتا علی اشرف کی آواز نے مجھے چونکا دیا تھا۔ وہ ناشتہ کا کہہ رہے تھے۔ میں ہاتھ منہ دھو کے ابھی دسترخواں پہ تھا۔ علی اشرف نے دیسی گھی میں پکائے ہوئے انڈے اور گولی (گول روٹی کو توے پہ پکا کے دیسی گھی میں بھگوکے تیار کیا جاتا ہے جس کو شینا میں گولی اور کھوار میں ریشوکی کہتے ہیں۔) دسترخواں پر سجایا تھا۔ ناشتہ بہت پرلطف تھا۔ مزہ آیا۔ علی اشرف کی ننھی بچی سے بھی ملاقات ہوئی۔ ہم نے بھابی اور علی اشرف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت چاہی۔ علی اشرف میرے ساتھ نیت شاہ کے گھر تک آئے۔ نیت شاہ کے گھر پہنچا تو احباب ابھی تک دسترخواں پہ تھے۔ میں سوچ رہا تھا میں لیٹ ہوں لیکن یہ مجھ سے بھی لیٹ جاگے تھے۔ تاج صاحب بھی ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔ تھوڑی دیر میں تاج صاحب بھی توصیف اور آصف کے ساتھ پہنچے۔ احباب بھی ناشتے سے فارغ ہوئے تو ہم نے اجازت چاہی۔ اہلِ خانہ کی پرخلوص مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم وہاں سے نکلے۔ روڑ پہ آئے تو نیت شاہ نے بشارت شفیع کے مزار جاکر فاتحہ خوانی کرنے کی درخواست کی۔ تاج صاحب، دُکھی صاحب، نسیم صاحب، یاد صاحب، عزیزم توصیف اور آصف اور راقم فاتحۃ خوانی کے لیے تیار ہوئے جب کہ شاکر صاحب وہاں سے اپنی ٹیکسی میں بیٹھ کر گلگت کی طرف نکل گئے۔ شاکر صاحب کی اس بے وقت رفاقت پر ہمییں عابد ادیب بے اختیار یاد آگئے تھے۔
سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں
ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ چھوٹ جاتے ہیں
(جاری ہے۔۔۔۔ باقی حصہ آئندہ)