آئیے اپنی دنیا کو سمجھیںبچوں کی دنیا

چیونٹیاں ایک دوسرے کو کیسے پہچانتی ہیں؟ 

سبطِ حسن

ایک بستی میں رہنے والی سب چیونٹیوں کی بو ایک جیسی ہوتی ہے۔ اسی بو سے وہ ایک دوسرے کو پہچانتی ہیں۔ اجنبی کیڑوں یا کسی بھی دشمن کی بو ان سب سے مختلف ہو تی ہے۔ بستی میں رہنے والی محافظ چیونٹیاں فوراً ایسے کیڑوں کو پہچان لیتی ہیں اور ان پر حملہ کر دیتی ہیں۔ اس حملے میں وہ ان کو بھگا دیتی ہیں یا جان سے مار دیتی ہیں۔

چیونٹیوں کے کان نہیں ہوتے۔ وہ اپنے اردگرد ہونے والے واقعات سے باخبر رہنے کے لیے اپنے محسوس کرنے والے اعضاء سے مدد لیتی ہیں۔ ارد گرد ہونے والے واقعات سے لہریں پیدا ہوتی ہیں اور چیونٹیوں کے اعضاء ان لہروں کی مدد سے واقعات کا پتہ لگا لیتے ہیں ۔ چیونٹیوں کے اینٹینا ان کے تمام اعضاء میں سب سے زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ ان کی مدد سے وہ سن اور سونگھ سکتی ہیں۔ انھی کی مدد سے وہ کسی چیز کو محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا ذائقہ بھی معلوم کرسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چیونٹیاں ہر وقت اپنے اینٹینا کو ہلاتی رہتی ہیں۔ انھی کی مدد سے چیونٹیوں کو اپنی بستی میں رہنے والوں کے بارے میں معلوم ہوتا ہے اور وہ اپنا راستہ بھی تلاش کرتی ہیں۔

چیونٹی کی دو آنکھیں ہوتی ہیں۔ انسانی آنکھ میں تو ایک عدسہ ہوتا ہے جبکہ چیونٹی کی آنکھ میں ایک سے زیادہ عدسے ہوتے ہیں۔ ان کی بدولت ، چیونٹی حرکت کرتی ہوئی چیزوں کو آسانی سے دیکھ سکتی ہے۔

چیونٹی کی کمر بہت پتلی ہوتی ہے۔ کمر پتلی ہونے کی وجہ سے چیونٹی اپنی بستی میں آرام سے ادھر اُدھر مڑ سکتی ہے۔ چیونٹی کے جسم کے تین حصّے ہوتے ہیں: سر، دھڑ اور پچھلا حصّہ۔ سر میں آنکھیں ، اینٹینا اور جبڑا ہوتا ہے۔ دھڑ کے ساتھ چھے ٹانگیں جڑی ہوتی ہیں۔ ہر ٹانگ کے پاؤں پر دو پنجے ہوتے ہیں۔ انھی پنجوں کی مدد سے وہ درخت، دیوار، یا پتوں وغیرہ پرآسانی سے چل لیتی ہے۔ انھی پنجوں سے وہ زمین کھودتی ہے۔ چیونٹی کا جسم بہت مضبوط ہوتا ہے اور وہ اپنے جسم سے ساٹھ گنا زیادہ بھاری اشیاء اٹھا سکتی ہے۔ پچھلے حصے کے دو حصے ہوتے ہیں: ایک کمر اور ایک پیٹ۔ غذا کو ہضم کرنے والے اعضاء، جسم سے فالتو مادوں کو باہر نکالنے والے اعضاء اور انڈے دینے والے اعضاء اسی حصے میں ہوتے ہیں۔ چیونٹیوں کی کچھ اقسام میں ان کے اس حصے کے آخر میں ڈنک بھی ہوتا ہے۔

چیونٹی کی ایک قسم پتوں کو کاٹ کاٹ کر انھیں اپنی بستیوں میں جمع کرتی رہتی ہے۔ ان پتوں سے وہ اپنی خوراک تیار کرتی ہیں۔ اس خوراک کو فنگس کہا جاتا ہے۔ ایسی چیونٹیاں بہت بڑی بستیاں تعمیر کرتی ہیں اور ان میں ہزاروں کمرے ہو سکتے ہیں۔ ایسی بستیوں کی سرنگیں زمین کے نیچے بیس فٹ ( چھے میٹر) تک گہری ہو سکتی ہیں۔ ایسی بستیوں میں ہو سکتا ہے کہ ایک وقت میں دس لاکھ سے بھی زیادہ چیونٹیاں کام میں مصروف ہوں۔

بڑی چیونٹیاں پتوں کو کاٹ کر انھیں بڑی حفاظت سے بستی میں لاتی ہیں۔ چھوٹی چیونٹیاں پتوں کا ملیدہ بنا دیتی ہیں۔ اس ملیدے کو وہ فنگس پر ڈال دیتی ہیں۔ اس سے جو غذا بنتی ہیں اسے ساری چیونٹیاں کھا لیتی ہیں۔ رس چوسنے والی چیونٹیاں، میٹھے رس کو خاص قسم کی چیونٹیوں میں جمع کر لیتی ہیں۔ یہ چیونٹیاں اپنے پیٹ میں اس قدر رس جمع کر لیتی ہیں کہ ان سے چلا بھی نہیں جاتا۔ وہ اپنے گھر کی چھت پر لٹکی رہتی ہیں اور جب کسی دوسری چیونٹی نے رس پینا ہو تو وہ اپنے اینٹینا سے اسے تھپتھپاتی ہے۔ اس کے بعد رس والی چیونٹی تھپتھپانے والی چیونٹی کے لیے رس باہر پھینک دیتی ہے۔

کچھ چیونٹیاں ، دوسری چیونٹیوں کے لاروے چوری کرکے اپنی بستی میں لے آتی ہیں۔ جب ان لاروں سے چیونٹیوں نکل آتی ہیں تو انھیں غلام بنا لیا جاتا ہے۔ ان غلاموں سے بستی میں کام لیا جاتا ہے۔

کیا چیونٹیاں پالتوجانور بھی پالتی ہیں؟

جس طرح ہم دودھ کے لیے گھروں میں بھینسیں پال لیتے ہیں اسی طرح چیونٹیاں بھی رس کے لیے اپنی بستیوں میں ننھے ننھے کیڑے پال لیتی ہیں۔ ان کیڑوں کو وہ بڑی حفاظت سے رکھتی ہیں۔ یہ کیڑے ان کے لیے میٹھا رس پید اکرتے ہیں جو ان کو بہت پسند ہے۔ جب کسی چیونٹی نے رس پینا ہو تو وہ ان رس دینے والے کیڑوں کو اپنے اینٹینا سے تھپتھپاتی ہیں اور وہ انھیں رس دے دیتا ہے۔

رس دینے والے کیڑے درختوں یا پودوں کا رس چوس چوس کر یہ میٹھا رس پیدا کرتے ہیں۔ اگر ایک جگہ پر رس دینے والے پودوں کی کمی ہوجائے تو ان کیڑوں کو کسی دوسری جگہ پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ان کیڑوں کی افزائش کے لیے ، چیونٹیاں ان کیڑوں کے انڈوں کو اپنی بستی میں محفوظ کر لیتی ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نوجوان ملکہ چیونٹی ، ان کیڑوں کی ماں کو اپنی نئی بستی میں اپنے ساتھ لے آئے۔

کیا خانہ بدوش چیونٹیاں ہر وقت چلتی رہتی ہیں؟

خانہ بدوش چیونٹیوں کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں ہوتی ہیں اور یہ ہر وقت چلتی رہتی ہیں۔ یہ کسی جگہ مستقل طور پر اپنی بستیاں نہیں بساتیں۔ یہ ہر وقت اپنے بچوں کو اپنے کندھوں پر اٹھائے خوراک کی تلاش میں پھرتی رہتی ہیں۔ وہ اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو کھا جاتی ہیں۔ ان کا شکار بننے والوں میں زیادہ تر کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات وہ بڑے جانوروں کا شکار بھی کر لیتی ہیں جو تیزی سے حرکت نہیں کر پاتے۔ ہر رات کو خانہ بدوش چیونٹیاں آرام کے لیے رک جاتی ہیں۔ وہ کسی درخت کے تنے یا شاخ پرایک دوسرے میں گتھی رات بسر کر لیتی ہیں۔ چیونٹیوں کے اس گچھے کے عین درمیان میں ملکہ چیونٹی اور اس کے انڈے ہوتے ہیں تا کہ وہ محفوظ رہیں۔ جب ملکہ انڈے دے رہی ہو تو پوری بستی ایک درخت پر ایک رات سے زیادہ آرام کرلیتی ہے۔ جب انڈوں سے لاروے نکل آئیں اور وہ حرکت کرنے لگیں تو پھر ہر شام یہ چیونٹیاں اپنے آرام کی جگہ تبدیل کرنا شروع کر دیتی ہیں۔

کچھ چیونٹیاں پتوں سے اپنا گھر بناتی ہیں۔ وہ اس کے لیے ریشم بنانے والے کیڑوں سے مدد لیتی ہیں۔ وہ مل کر پتے کے سروں کو گول کر کے ایک دوسرے کے ساتھ ملاکر پکڑ لیتی ہیں ۔ دوسری چیونٹیاں ریشم بنانے والے کیڑوں کو ان کے سروں پر لا کر چھوڑ دیتی ہیں۔ ریشم بنانے والے یہ کیڑے پتوں کے ان سروں کی سلائی کر کے انھیں جوڑ دیتے ہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button