کالمز

’’یتیمی سے اعتمادی تک‘‘ کامرانیوں کا سفر

فکرونظر: عبدالکریم کریمی

یہ پچھلے سال کی بات ہے میں اپنی دُختر نیک اختر آشا کے علاج کے سلسلے میں کراچی میں تھا اور کچھ وقت کے لیے میری سروسز بھی ہیڈ آفس سے منسلک کر دی گئی تھیں۔ ایک دن میں اپنے آفس میں بیٹھا کسی کام میں مصروف تھا۔ آفس بوائے نے آکر کہا کہ ’’سر! آپ کو ڈاکٹر عزیز اللہ نجیبؔ صاحب یاد فر ما رہے ہیں۔‘‘ استاد عزیز اللہ کا دفتر ساتھ ہی تھا۔ میں حاضر خدمت ہوا۔ استاد نے چائے منگوائی، میری بیٹی کی صحت کا پوچھا۔ پھر فرمانے لگے ’’کریمی! کل موکھی فدا علی میرے پاس آئے تھے۔ انہوں نے اپنی سرگزشت لکھی ہے۔ جس پر انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں کچھ لکھوں۔ آپ تو بہتر جانتے ہیں ہم غارِ یار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کتاب میں میرا تذکرہ زیادہ ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی من ترا قاضی بگوئم تو مرا حاجی بگو۔ اس لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ میں کچھ لکھوں۔ میرے ذہن میں آپ کا نام آیا۔ آپ تو ہم دونوں کو ایک عرصے سے جانتے ہیں۔ آپ سے بہتر کون لکھ سکتا ہے۔ آپ اگر لکھنا چاہے تو میں موکھی صاحب کو آپ کا نام دوں گا۔‘‘ میں نے کہا ’’سر! آپ اور استاد فدا علی کے لیے تعارف یا تقریظ کی کیا ضرورت ہے۔ تعارف یا تقریظ کی ضرورت تو کسی نوآموز کی کتاب کے لیے ہوتی ہے۔ پھر بھی آپ ضروری سمجھتے ہیں تو اس سے بڑی بات میرے لیے اور کیا ہوگی کہ مجھے اپنے استاد کی کتاب کا تعارف لکھنے کا موقع ملے۔ لیکن سینئر واعظین ہیں۔ استاد ان میں سے کسی سے لکھوائے تو زیادہ بہتر ہے۔‘‘ استاد عزیز اللہ کا اپنا ایک منفرد انداز ہے کہنے لگے ’’کریمی میری جان! دیکھو آپ کے سینئر واعظین………… رہنے دے۔‘‘ پھر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کے فرمایا ’’آپ سے لکھنے کو کہا ہے تو اس کی ایک وجہ ہے۔‘‘ میں نے استاد کا اس عزت افزائی پہ شکریہ ادا کیا اور اپنے دفتر آیا۔ پھر وقت کی دُھول میں زندگی گزرتی رہی۔ استاد عزیز اللہ نے استاد فدا علی کو میرا نام دیا تھا یا نہیں مجھے نہیں معلوم۔ اس کے بعد استاد فدا علی کا بھی پتہ نہیں چلا۔ ہوسکتا ہے وہ تشریف لائے ہوں اور میں سیٹ پر موجود نہ ہوں ایک دفعہ آفس بوائے نے کہا بھی تھا کہ گلگت کے موکھی فدا علی آئے تھے اور آپ کا پوچھ رہے تھے کیونکہ ان دنوں مجھے اپنی بیٹی کے علاج کے سلسلے میں ہفتے میں دو چار دفعہ آغا خان ہسپتال کا چکر لگانا پڑتا تھا۔ شاید استاد ان دنوں آیا ہو۔ بہرحال جو بھی ہوا میں پیشگی استاد سے معذرت خواہ ہوں کہ ممکن ہے میری غیر حاضری آڑے آئی ہو۔ کیونکہ بعض دفعہ دوریاں، مجبوریاں اور ساتھ میں بیماریاں بھی ہوں تو انسان کہیں کا نہیں رہ جاتا۔

میں تو اس واقعہ کو بھلا پایا تھا کہ دو دن پہلے استاد نے ایک خوبصورت کتاب مجھے تھماتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے ’’یہ میری سرگزشت کی اعزازی کاپی ہے‘‘ یقیناًمجھے حیرت میں ڈال دیا تھا۔ میں نے استاد کا شکریہ ادا کیا۔ اس اعزازی کاپی پر استاد کا لکھا ہوا یہ خوبصورت جملہ اپنے اندر معنی و مفہوم کا ایک خزانہ لیے ہوئے تھا:

’’برگ سبز است تحفۂ درویش بہت ہی عزیز و محترم الواعظ عبدالکریم کریمی کے لیے نیک تمناؤں کے ساتھ۔

خیراندیش، فدا علی ایثارؔ

دارالایثار سلطان آباد دنیور‘‘

برگ سبز است سے مجھے شیخ سعدیؒ یاد آئے تھے۔ انہوں نے بھی تو درخت کے ایک سبز پتے کے حوالے سے بڑے پتے کی بات کی تھی ؂

برگِ درختان سبز در نظر ہوشیار

ہر ورقش دفتریست معرفتِ کردگار

ہوشیار اور عاقل لوگوں کے لیے درخت کا ایک سبز پتہ بھی معرفتِ حق کو سمجھنے کے لیے دفتر کا درجہ رکھتا ہے۔ میرے پاس تو اب استاد کی زندگی کا دفتر کتاب کی صورت میں موجود تھا۔ استاد نے جب مجھے کتاب تھمایا تھا وہ چھٹی کا وقت تھا۔ اس لیے میں صرف کتاب کا تصویری حسن دیکھ سکا تھا۔ کتاب بیگ میں ڈال کے گھر کی طرف نکلا تھا۔ گھر پہنچ کے میں گویا کتاب میں کھو گیا تھا۔ شام کب رات میں ڈھل چکی تھی مجھے نہیں معلوم۔ ایک عرصے کے بعد جب نگاہیں کتاب سے اٹھیں تو رات کا پچھلا پہر تھا اور ہماری حالت اس شعر کی طرح تھی ؂

دن کٹا جس طرح کٹا لیکن
رات کٹتی نظر نہیں آتی

کتاب پر استاد ڈاکٹر عزیز دینار کے خوبصورت تبصرے کو دیکھ کر استاد فدا علی کے نظر انتخاب کو داد دئیے بنا نہیں رہ سکا۔ مجھے جس چیز نے متاثر کیا وہ کتاب کا تصویروں والا حصہ تھا۔ کسی دل جلے نے بڑا حسبِ حال شعر کہا ہے ؂؂

ایک لمحے میں کٹا ہے مدتوں کا فاصلہ
میں ابھی آیا ہوں تصویریں پرانی دیکھ کر

یہی وجہ تھی کہ ان تصویروں کو دیکھتے ہوئے آنکھیں بے اختیار نم ہوگئیں۔ عجیب اتفاق تھا استاد فدا علی کی تصویروں کو دیکھتے ہوئے دوست محترم فدا ناشادؔ کے یہ اشعار یاد آرہے تھے۔ جہاں ایک فدا اپنی تصویروں کے آئینے میں نظر نواز تھے تو وہاں دوسرے فدا اپنے شعروں میں وقت کے ہاتھوں مجبور و بے بس اپنی ہی تصویروں میں اپنے آپ کو ڈھونڈ رہے تھے، خود کو پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے اور پریشان ہو رہے تھے۔ فدا ناشادؔ اس پریشانی کے عالم میں کہتے ہیں ؂

رنگ بدلتی دُنیا میں ہم پھنسے ہوئے تقدیروں میں

اپنا دامن بچا رہے ہیں، خار سے دامن گیروں میں

وقت نے کیا کیا رنگ اُتارے، کیا کیا رنگ چڑھائے ہیں

اپنے آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں، اپنی ہی تصویروں میں

کہتے ہیں وقت نہیں رُکتا، کہیں نہ کہیں ہم رُک جاتے ہیں۔ اپنی لائبریری میں یا اپنے دفتر میں سامنے ٹیبل پر دھری کتابیں اور کاغذات میں کھو کر یا کسی چھت پر لیٹے تارے گنتے ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب لمحے ہمیں قید کر لیتے ہیں۔اس لیے غالباً مستنصر حسین تارڑؔ نے کہا تھا ’’وقت نہیں گزرتا وہ وہی رہ جاتا ہے شاید ہم گزر جاتے ہیں۔‘‘ یہ تصویریں یہی کہانی بیان کرتی ہیں۔

میں نے دو نشستوں میں کتاب پڑھ لی تھی۔ ’’یتیمی سے اعتمادی تک‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے اور استاد کی مہماتی زندگی کے نشیب و فراز کے قصے پڑھتے ہوئے ایسا لگاکہ گویا استاد، ڈاکٹر محمد رفیق کے ان اشعار کے آئینے میں ہم سے مخاطب ہیں اور فرماتے ہیں ؂

رنگیں نوادرات میری زندگی میں ہیں

دو چار حادثات میری زندگی میں ہیں

حالات دِگرگوں ہیں مگر اس کے باوجود

مثبت توقعات میری زندگی میں ہیں

یہی مثبت توقعات ہی ہیں جو استاد کو کہیں ٹریکٹر پر بٹھاتی ہیں تو کہیں ٹرک پر۔ اور دونوں دفعہ ان کو اپنی تعلیم کی غرض سے یہ سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنی کتاب کے صفحہ ۳۴؍ پر انہی حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اگلے سال (۱۹۶۶ء ؁) ہم نے امتحانی فارم بذریعہ ڈاک منگوا لیے، اب فارم کے ساتھ تصویر کی ضرورت تھی۔ اس وقت ہنزہ بھر میں فوٹو گرافی کی کوئی دُکان موجود نہیں تھی۔ نتیجتاً فوٹو کھینچوانے کے لیے ہمیں گلگت تک سفر اختیار کرنا پڑا۔ گلگت تک یک طرفہ کرایہ کا کہیں سے انتظام کرلیا۔ مگر واپسی پر پیدل آنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ چنانچہ گلگت تک استاد مومن (بمبڈی) کی جیب میں یک طرفہ سفر کیا۔‘‘

واپسی کے سفر کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’فوٹو گرافر امان اللہ مرحوم سے ہم نے فوٹو کھینچوائی اور تصاویر لے کر ہنزہ واپسی کا پروگرام بنایا۔ اتفاق سے وزیر حفظ اللہ بیگ مرحوم ٹریکٹر لے کر نلتر جا رہے تھے۔ وہ نلتر سے زیر تعمیر ہاسٹل (شاہ کریم ہاسٹل) کے لیے عمارتی لکڑی کی ڈھلائی کروا رہے تھے۔ ان کے ساتھ گلگت سے نومل تک کچی روڈ پر ٹریکٹر ہی پر سفر کیا۔‘‘

اسی طرح فاضل فارسی کا امتحان دینے کے لیے ۱۹۷۰ء ؁ کے ایک سفر، جس میں اپنے دو یاروں ڈاکٹر عزیز اللہ نجیبؔ اور غلام مرتضیٰ جن کو استاد ’’یارِ دبستان‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ امتحان دینے کے لیے لاہور روانہ ہوتے ہیں۔ گلگت سے چلاس تک جیپسٹر گاڑی میں طبیعت خراب ہونے اور وہاں سے آگے کس طرح ٹرک میں بیٹھ کے پنڈی تک کا سفر کرتے ہیں وہ بجائے خود علم کی راہ میں ایک جہاد سے کم نہیں۔

استاد نے زندگی اور زندگی کی تلخیوں کو نہ صرف قریب سے دیکھا ہے بلکہ محسوس بھی کیا ہے۔ یتیمی میں پل بڑھنا کتنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تو یتیم تھے۔ اس لیے یتیمی کو سنت پیغمبری کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ جب یتیمی میں انسان ہر طرف سے مایوس ہوجاتا ہے اور تھک جاتا ہے تو اس وقت نبی پاکؐ کی زندگی ہی ہے جو اس کو حوصلہ دیتی ہے بلکہ حیاتِ مبارکہ اس کے لیے مشعلِ راہ ہوتی ہے۔ پھر وہ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کے اس شعر کے مصداق زندگی کی حقیقت سے آشنا ہوکر ہر مشکل کے لیے تیار ہوتا ہے۔ بقول اقبالؒ ؂

زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دِل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی

ہمیں استاد کی زیر نظر کتاب میں یہی جذبہ کارفرما نظر آتا ہے۔ آپ اپنی کتاب میں ایک جگہ اپنی طبیعت کی ناسازی کے باوجود امام اور امام کی جماعت کی خدمت کے لیے کابل سے بدخشان کے لیے زمینی سفر اختیار کرتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سامنے صحت کی ناسازی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ دورِ حاضر میں کسی فرد کا اپنے پیشے سے اتنی مخلصانہ محبت ہمیں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ ایسی ہی بے لوث محبت کا اشارہ ہمیں ساغرؔ صدیقی کے اس شعر میں ملتا ہے ؂

ہائے آدابِ محبت کے تقاضے ساغرؔ

لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا

یہ آدابِ محبت درِ امام اور جماعت امام کے لیے ہمیشہ آپ کو بے چین کیے رکھتے ہیں۔

استاد کے مطابق اسماعیلی ایسوسی ایشن (اب طریقہ بورڈ) کا قیام یکم؍ جون ۱۹۷۲ء کو شمالی علاقہ جات (موجودہ گلگت بلتستان) میں ہوا۔ جس میں چار واعظین فدا علی ایثار، عزیز اللہ نجیب، شاہ ولی اور فدا علی سلمان شامل تھے جبکہ ان کا انچارج علامہ نصیر الدین تھے۔ مصنف کے مطابق اس وقت خالص تبلیغی جذبے کے ساتھ کام ہو رہا تھا لیکن ۱۹۷۳ء ؁ کو علامہ مرحوم کی غلطی کی وجہ سے یہ پروفیشنل ٹیم ایک کمیٹی کی زیر نگرانی کام کرنے لگی۔ استاد اپنی کتاب کے صفحہ ۹۰؍ میں رقم طراز ہیں:

’’جوں ہی برانچ کا قیام عمل میں آیا۔ اس کی حیثیت ایک پروفیشنل کمیٹی کی تھی۔ جو آئی اے پی (اسماعیلیہ ایسوسی ایشن پاکستان) مرکز کراچی کی زیر نگرانی کام کرنے والی تھی۔ مگر علامہ صاحب (نصیر الدین) نے ہنزہ، گلگت سب ڈویژن اور غذر سطح پر تین کمیٹیاں اپنے سپورٹ کے لیے تشکیل دیں اور ان کمیٹیوں کو برائے منظوری ہیڈ کوارٹر کراچی بھیجا۔ ہیڈ کوارٹر کراچی نے اس لسٹ کو آنریری سیٹ اپ میں تبدیل کرکے سرکار مولانا حاضر امامؑ کے حضور بھیج دیا۔ پروفیسر موسیٰ بیگ مرحوم نے جو علامہ صاحب کا آفس اسسٹنٹ تھا اس حوالے سے علامہ صاحب سے اختلاف کیا کہ آپ اپنی طرف سے اس طرح کی کمیٹیاں تشکیل نہ دیں۔ یہ برانچ صرف ہیڈ کوارٹر کی زیر نگرانی کام کرنے کا مجاز ہے۔ غیر پروفیشنلز پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے گی تو کل کلاں برانچ کا کام متاثر ہوگا۔ مگر علامہ صاحب کا موقف یہ تھا کہ کمیٹیوں کی ضرورت اس لیے ہے کہ وہ عملاً برانچ کو تقویت پہنچائیں گی۔ یہاں یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ ایریا کمیٹیوں کے قیام سے قبل برانچ سے متعلق تمام امور کی نگرانی علامہ صاحب خود کر رہے تھے۔ مگر اب ایریا کمیٹیوں کے قیام کے بعد یہ تمام اختیارات کمیٹیوں کو منتقل ہوگئے۔ یہاں تک کہ بحیثیت انچارج علامہ صاحب کو چٹھی لینے کے لیے درخواست چئیرمین ایریا کمیٹی کے نام دینا پڑی۔‘‘

ستم ظریفی تو دیکھئے جہاں اختیارات پروفیشنلز سے اٹھائے گئے تو وہاں اسکالرز کو بھی غیر پروفیشنلز کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا۔ غیر پروفیشنلز کے معیار کا اندازہ آپ کتاب کے صفحہ ۹۱؍ میں دیکھ سکتے ہیں۔ استاد لکھتے ہیں:

’’یہاں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ ابتدائی سطح پر گلگت بلتستان میں تین ایریا کمیٹیاں قائم ہوئیں۔ ہنزہ ایریا کمیٹی کا چیئرمین نائب صوبیدار (ر) میر ہزار مرحوم، گلگت سب ڈویژن ایریا کمیٹی کا چیئرمین ایکس حولدار امیر حیات غندلو مرحوم جبکہ ضلع غذر کے لیے ایکس حولدار احمد خان چیئرمین ایریا کمیٹی بنے ہوئے تھے۔‘‘

کمیٹیوں کی اس مداخلت سے اختیارات کی کھینچا تانی ضرور ہوئی، اسٹاف میں بھی اضافہ ہوا لیکن بدقسمتی سے اسکالرز پیدا نہیں ہوئے۔ ’’خود کردہ را علاج نیست‘‘۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس کمیٹی کو بنے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ علامہ صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اسماعیلی ایسوسی ایشن سے الگ ہوئے۔

’’آ بیل مجھے مار‘‘ کا محاورہ یہاں کافی جچتا ہے۔

استاد فدا علی اپنی کتاب میں کراچی کے اپنے پہلے سفر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جب گرمیوں کی تعطیلات ہوئیں تو وہ اور استاد عزیز اللہ کراچی کا سفر کرتے ہیں۔ جب وہ کراچی پہنچتے ہیں تو اسماعیلی ایسوسی ایشن میں انہیں باضابطہ طور پر بحیثیت واعظین ان کا تقرر نامہ دیا جاتا ہے جبکہ اس وقت کے تعلیمی بورڈ کے آنریری سیکریٹری ان کے خلاف کراچی لیٹر لکھتا ہے جس کا ذکر استاد فدا علی نے اپنی کتاب کے صفحہ ۶۶؍ میں کیا ہے:

’’ہمارے کراچی جانے کے بعد افتخار حسین مرحوم آنریری سیکریٹری تعلیمی بورڈ گلگت نے صدر آئی اے پی کے نام ایک لیٹر لکھا کہ یہ دونوں (ڈاکٹر نجیب اور راقم) شاہ کریم ہاسٹل کے ملازم ہیں۔ جو بغیر اجازت کے بھاگ کر کراچی آئے ہوئے ہیں۔ انہیں آئی اے پی میں سروس نہ دیا جائے۔ جبکہ ہمارے کراچی پہنچنے سے قبل ہی ہمارے نام لیٹر جاری ہوچکا تھا۔‘‘

واعظ دشمنی کا ایک واقعہ استاد عزیز اللہ نے بھی مجھے سنایا تھا۔ جب میں ہیڈ آفس کراچی میں ’’قندیل‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ استاد عزیز اللہ نے ’’قندیل‘‘ کے لیے اپنے ایک انٹرویو میں اس زمانے کی لیڈرشپ کی بات کرکے مجھے حیرت میں ڈالا تھا۔ استاد کا کہنا تھا ’’جب میں نے ایم اے فلسفہ میں ٹاپ کیا تو ڈیلی ’’ڈان‘‘ میں وہ خبر میری تصویر کے ساتھ شائع ہوئی۔ پھر کیا تھا۔ اس وقت کے آنریری سیکریٹری نے میری جواب طلبی کی اور کہا کہ ہم سے اجازت لیے بغیر آپ کو کس نے کہا تھا کہ امتحان میں شامل ہو جائے۔‘‘

جبکہ واعظین کے عہدے کی اہمیت اور ان کے کام کے حوالے سے سرکار مولانا حاضر امامؑ جو باقی دُنیا کے لیے ہزہائی نس دی آغا خان ہیں، ان کا یہ فرمان کافی ہے جو استاد فدا علی کی کتاب کے صفحہ ۱۲۱؍ میں بطورِ حوالہ موجود ہے۔ جس میں مولانا حاضر امامؑ نے ۱۹۸۳ء ؁ کو واعظین ٹریننگ سے فارغ التحصیل واعظین کے نام فرمایا تھا:

"I hope the graduating Wa’ezeen will do honour to the association and the Jamat as a whole and substantially the numerous and complex problems of Northern Areas and be pillars of faith.”

یہی وجہ ہے کہ اس مقدس پیشے سے منسلک رہ کر بلکہ مخلص رہ کر استاد فدا علی نے یتیمی سے اعتمادی کا سفر طے کیا ہے۔ آپ کو ستانے والے اور آپ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کی ہڈیاں بھی شاید خاک ہوئی ہوں گی لیکن اعتمادی فدا علی ایثارؔ جس کو ایک دُنیا جانتی ہے۔ ایک ’’لے مین‘‘ اور ایک عالم میں یہی تو فرق ہوتا ہے۔

وقت وقت کی بات ہوتی ہے کہ کہاں وہ یتیم بچہ کہ ہنزہ سے گلگت اور گلگت سے واپسی کا سفر ٹریکٹر پر، کہاں چلاس سے پنڈی ٹرک کی سواری اور کہاں اب کے اعتمادی کہ وہ کبھی عالمی کانفرنسز میں شرکت کے لیے ایران و افغانستان میں ہوتے ہیں تو کبھی انسٹیٹیوٹ آف اسماعیلی اسٹیڈیز لندن کی دعوت پر دبئی اور کینیڈا کی کانفرنسز میں شریک ہوکر ان کانفرنسز کی عزت و توقیر میں اضافہ کرتے ہیں۔ کہاں وہ آنریری سیکریٹری کا غیر مہذب رویہ اور کہاں سرکار مولانا حاضر امامؑ کا موکھی فدا علی کو گلگت ائیر پورٹ پر یہ فرمانا کہ "My Exellent Mukhi!” واقعی یتیمی سے اعتمادی تک کا سفر محبتوں، کامیابیوں اور کامرانیوں کا سفر ہے۔ جس پر ہم سب کو بجا طور پر ناز ہے۔ زندگی کے فلسفے کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ حیدر علی جعفری کا کہنا ہے ؂

آئے ٹھہرے اور روانہ ہوگئے
زندگی کیا ہے، سفر کی بات ہے

لیکن استاد فدا علی نے زندگی کے اس مختصر سے سفر کو وسیلۂ ظفر بنا دیا ہے۔ وہ آئے ٹھہرے اور روانہ نہیں ہوئے بلکہ کیوں آئے، کیوں ٹھہرے، روانہ ہونے سے پہلے کیا کرنا چاہئے، زندگی کیا ہے اور زادِ سفر کیا ہونا چاہئے۔ یہ سوالات ان کی زندگی کو بندگیِ ربِ کائنات سے جوڑتے ہیں۔ پھر کامیابیاں اور کامرانیاں آپ کے سامنے سجدہ ریز رہتی ہیں۔

اللہ پاک سے دُعا ہے کہ وہ استاد کو لمبی عمر دے اور وہ اس پاکیزہ سفر میں ہمیں بھی شامل کرے۔ آمین!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button