شعر و ادبکالمز

ہندور کا مشاعرہ اور بجایوٹ کی ڈھلتی شام (قسط اول)

فکرونظر: عبدالکریم کریمی

یہ جولائی کے آخری ہفتے کی بات ہے۔ جب ہم حلقہ اربابِ ذوق کے احباب کے ساتھ مدینہ مارکیٹ گلگت سے دو گاڑیوں میں ہندور یاسین کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ اس دن روانگی سے پہلے جب میں مدینہ مارکیٹ پہنچا تو اشتیاق یاد، عزیزم آصف اور توصیف حسن کے ساتھ چہرے پر خوبصورت داڑھی سجائے ایک انتہائی باوقار انسان آکے مجھ سے بغلگیر ہوئے تھے۔ سلام دعا کے بعد پہلا سوال ہوا تھا ’’سر! ابھی آپ کی بیٹی کیسی ہے؟‘‘ یہ یونس سروش صاحب تھے جن سے میں آج پہلی بار بالمشافہ مل رہا تھا۔ سروش صاحب اس سے پہلے صرف میرے فیس بک فرینڈ تھے۔ وہ میرے پوسٹس پر بڑے ادبی پیرائے میں کمنٹس کرتا رہتا تھا پھر جب میں اپنی بیٹی کے علاج کے سلسلے میں کراچی میں تھا تو سروش صاحب کا شمار بھی ان دوستوں میں تھا جو فیس بک پہ اکثر مجھ سے میری بیٹی کی صحت کے حوالے سے پل پل کی خبریں لیتے تھے۔ آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ سروش صاحب کا تعلق گلگت سے ہی ہے اور محکمہ ایجوکیشن میں ایک اہم عہدے پر کام کرتے ہیں اور ادب و شاعری سے شغف رکھتے ہیں۔ ہاں عبدالبشیر بشر صاحب سے بھی ملے۔ بشر صاحب کے خلوص کا اندازہ آپ اس بات سے لگائے کہ جب میں آغا خان ہسپتال کراچی میں تھا میری بیٹی ایڈمٹ تھی۔ موصوف یہ خبر سن کے ہسپتال تشریف لائے تھے حالانکہ اس سے پہلے ہماری ملاقات نہیں ہوئی تھی بس ادبی تحریروں کے ذریعے ایک غائبانہ تعارف تھا۔ ہسپتال آکے انہوں نے تیمارداری کی اور میری ہمت بندھائی تھی جو کہ ان کا بڑاپن تھا۔ بشر صاحب کا تعلق گل زمینِ استور سے ہے اور اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کی وجہ سے ایک عرصے تک شہر قائد کے مکین رہے ہیں۔ ادب، شاعری اور صحافت سے دلی لگاؤ ہے۔ خصوصاً گلگت بلتستان کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ پھولوں کی طرح ہوتے ہیں جو اپنی خوشبو سے پورے معاشرے کو معطر کر دیتے ہیں۔ سروش صاحب اور بشر صاحب سے مل کر مجھے ایسا محسوس ہوا۔

نو بجے کے قریب ہمارا قافلہ دو گاڑیوں میں ہندور کی طرف روانہ ہوا تھا۔ پہلی گاڑی میں امین ضیا صاحب، عباس نسیم صاحب، اشتیاق یاد صاحب، عبدالبشیر بشر صاحب، یونس سروش صاحب، عزیزم آصف علی آصف اور توصیف حسن کے ساتھ راقم سوار تھے جبکہ دوسری گاڑی میں جو کہ نظیم دیا صاحب چلا رہے تھے جس میں عبدالخالق تاج صاحب اور جمشید دُکھی صاحب تھے۔ ہاں روانگی سے پہلے ہم نے سلیمی صاحب کو کافی کال کرنے کی کوشش کی لیکن جواب ندارد۔ مجھ سے پہلے یاد صاحب نے بھی کئی بار فون کرنے کی کوشش کی تھی مگر سلیمی صاحب کا فون مسلسل بند جا رہا تھا۔ نہیں معلوم وہ کیوں نہیں آئے حالانکہ کچھ دن پہلے میں نے ان ہی کے اصرار پر ہندور جانے کے لیے ہاں کر دی تھی۔ خیر ان کی کمی محسوس ہوئی۔ باوجود بڑا مزیدار سفر رہا۔ آس پاس کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہمارا سفر جاری تھا۔ غذر میں گندم کی فصل پک چکی تھی کہیں کہیں کٹائی کے بعد گندم کی فصل کھیتوں میں بکھری نظر آئی تو کہیں پر زور و شور سے تھریشنگ ہو رہی تھی۔ راستے میں ادب کم سیاست زیادہ زیر بحث رہی۔ کیونکہ نئے نئے انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا تھا پی ٹی آئی کو کامیابی ملی تھی جس پر احباب گفتگو کر رہے تھے کسی کا کہنا تھا کہ نیا پاکستان نئے خوابوں کی تعبیر ہوگا تو کسی کا خیال تھا کہ عمران خان الہ دین کے چراغ کی طرح انقلابی تبدیلی لائیں گے تو کوئی کہہ رہا تھا کہ یہ سب سیاسی شبدے بازیاں ہیں ہونا کچھ نہیں بس اپنی اپنی دکان چمکانے والی بات ہے۔ میرا کہنا تھا کہ پارٹی جو بھی آئے بس اللہ کرے پاکستان حقیقی معنوں میں ترقی کرے۔ خیر! گیارہ بجے کے قریب ہم گوہر آباد پہنچے تھے۔

گوہر آباد میں چائے کے لیے دونوں گاڑیوں نے بریک لگائی تھی۔ قدرتی مناظر سے لفط اندوز ہوتے ہوئے دریائے غذر کے پہلو میں استادہ گوہر آباد ہوٹل میں چائے پینے کا اپنا مزہ ہے۔ وہاں حفیظ شاکر صاحب سے بھی ملاقات ہوئی وہ گاڑی میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکسی لے کے آئے تھے۔ یہاں سے جب سفر کا دوبارہ آغاز ہوا تو دکھی صاحب ہماری گاڑی میں آئے اور مجھے اور عبدالبشیر بشر صاحب کو تاج صاحب کے ساتھ نظیم دیا صاحب کی گاڑی میں بیٹھنا پڑا۔ یہاں سے آگے کا سفر تاج صاحب کی رندانہ گفتگو اور چٹکلوں کے ساتھ بڑا خوشگوار رہا۔ بشر صاحب گلگت بلتستان کے آئینی مسلے پر بات کر رہے تھے ان کا خیال تھا کہ ہمیں اور کچھ نہیں چاہئیے بس اسٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ اس کی بحالی سے ہمیں اپنی زمینوں پر حق حاصل ہوگا ورنہ اگر ہم صرف پانچویں صوبے کا رٹ لگائیں تو اس سے کیا ہوگا زیادہ سے زیادہ دو چار بندوں کو جھنڈے اور گاڑیاں ملیں گی عوام وہی در در کی ٹھوکریں کھائیں گے۔ تاج صاحب کشمیریوں کے حق میں تھے کہہ رہے تھے ہمیں کشمیر کے ساتھ الحاق کرنا چاہئیے۔ دیا صاحب میری طرح ملنگ آدمی ہیں۔ انڈین پرانے گانوں کی ہلکی میوزک میں خود ناچ رہے تھے یا گاڑی کو غذر روڈ پر نچا رہے تھے یہ فیصلہ کرنا کافی مشکل تھا۔ دیا صاحب کا کہنا تھا کہ وہ اسی کی دھائی میں ان علاقوں میں بحیثیت مدرس کام کر چکے ہیں۔ اب ذرا بادل چٹھنے لگے۔ پرانے انڈین گانوں میں شاید دیا صاحب اپنا خوبصورت ماضی ڈھونڈ رہے تھے جو ان وادیوں میں کہیں کھو گیا تھا۔ خیر مذاق مستی میں ہمارا قافلہ تین بجے سہ پہر ہندور پہنچا۔

(جاری ہے۔۔۔۔ باقی حصہ آئندہ)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button