ضلع کوہستان میں لڑکیوں کی تعلیم انحطاط کا شکار، فعال سکول بھی بند ہورہے ہیں
کوہستان(نامہ نگار) ضلع کوہستان کے تینوں اضلاع میں خواتین کے بند سکول فعال کرنا درکنار مگر فعال سکول بھی بند ہونے لگے ،تینوں اضلاع (لوئرکوہستان، کولئی پالس کوہستان،اپر کوہستان) سے ملحقہ علاقوں کی ڈومیسائل ہولڈر بھرتی شدہ فی میل ٹیچرزسیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر این او سی لیکر بھرتی شدہ سکولوں سے اپنے قریبی سکولوں کو رفو چکر ہونے لگیں ،جس سے بچیوں کی پڑھائی شدید متاثر، تعلیمی رجحان کو شدید دھچکہ پہنچنے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی تعلیم پہلی ترجیح کا شیرازہ بھی بکھرنے لگا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق تینوں اضلاع میں کل دو ہائی سکول ہیں جن میں چودہ ٹیچرز پڑھارہی تھیں جن میں سے دو ٹیچرز کو موجودہ ڈی ای او نے این او سی جاری کرکے اُن کا تبادلہ اپنے آبائی علاقوں میں کردیا ہے، ذرائع کے مطابق دونوں ٹیچرز گورنمنٹ گرلز ہائی سکول داسو کالونی میں تعینات تھیں۔ اب یہ تعداد کم ہوکر بارہ رہ جائے گی جن میں بھی کئی ٹیچرز بسااوقات غیر حاضر رہتی ہیں۔ ان دو ہائی سکولوں پڑھنے والی سینکڑوں بچیاں دور دراز علاقوں سے بھی آتی ہیں اور حصول علم کی پیاس بجھانے پہنچ بھی جاتی توٹیچرز کی عدم موجودگی اور پڑھائی کی معیار پوری نہ دیکھ کر مایوس گھروں کو لوٹ جاتی ہیں ۔ اسی طرح تینوں اضلاع کے ٹوٹل 16 مڈل سکولوں میں اڑتالیس کے قریب ٹیچر بھرتی ہیں مگر اُن میں سے بھی کئی غیر حاضر رہتی ہیں ان سولہ سکولوں میں تین سکول نان فنکشنل بتائے جارہے ہیں جن میں جھامبرا، اور سیال کے مڈل سکول شامل ہیں ۔ اسی طرح تینوں اضلاع کے مجموعی 263 پرائمری سکولوں میں بھی شاز و نادر وہ سکول فعال بتائے جارہے ہیں تینوں اضلاع کے ہیڈکوارٹرز اور شاہراہ قراقرم کے قریب ہیں ۔ذرائع کے مطابق مانیٹرنگ اور متعلقہ اے ایس ڈی ای اوز کی نشاندہی کے باوجود بھی کوئی کاروائی نہیں ہوتی ۔پرائمری سکولوں میں سینکڑوں آسامیاں خالی ہیں اور چار سو سے زائد ٹیچرز بھرتی ہیں جو اپنے فرائض منصبی سے بسااوقات غیر حاضر دکھائی دیتی ہیں ۔ یوں محکمہ ایجوکیشن (زنانہ) کوہستان کی مکمل لاپرواہی سے خواتین کی تعلیم کی صورتحال پہلے ہی مخدوش تو تھی ہی مگر اس صورتحال کو بد سے بد تر بنانے کے لئے این او سی کے نام پہ نئے دھندے اور ٹیچرز کی مسلسل غیر حاضریوں نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ان ملحقہ علاقوں کے ٹیچرز نے کوہستان کو اپنے لئے روزگار کا ذریعہ تو بنالیا جو بھرتی ہوکر آسانی سے این او سی لیکر اپنے علاقوں میں تو چلی جاتی ہیں مگر یہاں خالی ہونے والی سیٹ کئی عرصے خالی ہی رہتی ہے اور پھر باہر سے کوئی بھرتی ہوجاتی ہے اور پھر چلی جاتی ہےیہ سلسلہ کئی دہائیوں سے چلا آرہاہے جس سے مقامی سطح پر تعلیمی رجحان کو شدید دھچکا پہنچ رہاہے ۔ ایک جانب صوبائی حکومت کی جانب سے تعلیم پہلی ترجیح کا نعرہ اور دوسری جانب کوہستان جیسے وسیع و عریض پسماندہ علاقے کی نازک ترین تعلیمی صورتحال جس پر کوئی ایکشن نہیں لیتا اور نتیجتا یہاں کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا جارہے، یہاں کے مکینوں کو اُمید ہے پی ٹی آئی کی یہ نئی حکومت اپنے وعدے کے مطابق اس مسلئے پر ضرور ایکشن لے گی ۔ اس ساری صورتحال پر ڈی ای او(زنانہ و مردانہ ) کوہستان خورشید احمد سے تو رابطہ نہ ہوسکا مگر اے ڈی او(زنانہ) عبدالرحمن نے این او سی جاری ہونے کے معاملے کو درست قراردیا مگر بوگس بھرتیوں کے تاثر کو رد کردیا اور کہا کہ جو ٹیچرز غیر حاضر پائی جاتی ہیں اُن کے خلاف محکمانہ کاروائی کی جاتی ہے ۔