Uncategorizedکالمز

آشا کی چوتھی سالگرہ، کچھ بے ربط خیالات

فکرونظر: عبدالکریم کریمی

ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ قدرت ہمیں جہاں آشا کی صورت میں اپنی رحمت کی بارش میں بھیگنے کا موقع دے گی وہاں نعمت کی نوازش اذین کی آمد کی صورت ہوگی۔ زندگی جب خوشیوں سے مالامال ہوتی ہے تو لامحالہ انسان ناشکری کا مرتکب ہوتا ہے۔ شاید ہم سے بھی ایسی کوئی چیز سرزد ہوئی ہو ہمیں نہیں معلوم۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ ایسے میں انسان بس ورطۂ حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ جیسے ان اشعار میں اس کی ہلکی جھلک پیش کی گئی ہے؎

مجھے تو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے

وہ بات بات پہ اپنی مثال دیتا ہے

کوئی بھی نقش بناؤں تو اس کی شکل بنے

وہ مرے فکر کیسا خیال دیتا ہے

وہ ممتحن ہے محبت کے سخت پرچے کا

ہر امتحان میں مشکل سوال دیتا ہے

میں مانگتا ہوں وفا کا صلہ فقط اس سے

جو روز و شب کو عروج و زوال دیتا ہے

مجھے جنوب کی جانب سنا کے اذنِ سفر

وہ ظلِ ابر کو سمتِ شمال دیتا ہے

بہت سہا غم دوران کریمی سن لو!

خدا کڑے سے کڑا وقت ٹال دیتا ہے

زندگی بہت دفعہ ہمیں ایسے سبق دے جاتی ہے جو کسی بھی کتاب سے نہیں ملتے۔ ایسے حالات انسان کو قدرت کے قریب کر دیتے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں سے آشا کی بیماری، پھر علاج کا ایک کٹھن مرحلہ۔ انسان کبھی کبھی بہت بے بس ہو جاتا ہے ساری امیدیں ختم ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ قدرت ایک دفعہ پھر ہم پر مہربان ہوگی اور ننھی آشا کی صحت یابی کی صورت میں ہمیں اپنے انعام سے سرفراز کردے گی۔ ربِ کائنات نے خود ہی اپنی پاک و پاکیزہ کتاب میں وعدہ فرمایا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ میں کیسے بھول سکتا ہوں اس کی ریاضتوں کا قصہ، راتوں کے پچھلے پہر جو آنسوؤں کے دریا سوسن نے بہائے تھے اور وہ ہچکیاں جو گھٹ گھٹ کر وہ لیتی تھی کہ کہیں کوئی جاگ نہ جائے۔ ہاں قدرت لوٹاتی ہے چاہے وہ بیماری سے صحت یابی کا سفر ہو یا دکھوں سے خوشیوں کا۔ یہ تو قدرت کا انصاف ہوتا ہے۔

آج آشا کی چوتھی سالگرہ مناتے ہوئے ہم اللہ پاک کے حضور سجدہ ریز ہیں کہ دکھ سکھ اور غم و خوشی تو زندگی کا حصہ ہیں۔ لیکن ان کو سیلیبریٹ کرنا شاید ہر کسی کے بس کی بات نہ ہو۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ جہاں بچوں کے برتھ ڈیز ہوں یا والدین کے۔ ہم تو ابو اور امی جان کا برتھ ڈے بھی مناتے ہیں ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ جس دور میں پیدا ہوئے تھے اس دور میں صرف پیدائش ہوتی تھی شاید تاریخ نہیں۔ اس لیے ان کو تاریخ یاد نہیں لیکن ابو کہتے ہیں کہ جس دن پاکستان بنا تھا اس دن وہ بھی اس دُنیا میں قدم رنجہ فرما چکے تھے۔ اس لیے ابو کی تاریخ ولادت یاد ہے جہاں پوری قوم سرزمین پاکستان کی آزادی کا کیک کاٹتی ہے وہاں ہم اپنے ابو جان کا کیک کاٹتے ہیں۔ امی کو تاریخ یاد نہیں بس اتنا یاد ہے کہ وہ جمعہ کے روز پیدا ہوئی ہیں اس لیے سال میں کسی بھی جمعہ کو ہم امی کا برتھ ڈے سیلیبریٹ کرتے ہیں۔ بس آپ سے بھی یہی کہنا ہے کہ آپ بھی اپنے خاندان میں ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو سیلیبریٹ کیجئیے، ان نعمتوں کا ادراک کیجئیے، رب کائنات کا شکریہ ادا کیجئیے اور ان کی رحمتوں کے لیے دامن پھیلائے کہ انہوں نے خود تو اپنے پاک کتاب میں فرمایا ہے:

وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَـرْتُـمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِنْ كَفَرْتُـمْ اِنَّ عَذَابِىْ لَشَدِيْدٌ

’’اور جب تمہارے رب نے سنا دیا تھا کہ البتہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔‘‘ (سورۂ ابراہیم آیت نمبر سات)

ننھی آشا کو چوتھی سالگرہ بہت بہت مبارک ہو۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button