کالمز

مسگر پاور پراجیکٹ، ایک ناکام اور مہنگی کوشش

شرافت علی میر

گلگت بلتستان کو خدا نے جہاں خوبصورتی سے نوازا ہے وہی معدنیات سے بھی مالامال ہے گلگت بلتستان میں گلشیرز ،چشمہ ،دریا کی کمی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی اس علاقے میں 48 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہوتا ہے ۔

گلگت بلتستان میں بجلی کے جو بھی منصوبے لگے ہے ان کے لیے ایسے جگہووں کا انتخاب کیا گیا ہے جو انتہائی دشوار گزار ہے جہاں راستے بھی نہیں ہے اور ایسے جہگوں پہ سال میں تین یا چار مہینے میں کام ہوتا ہے مثال کے طور پر مسگر گوجال میں مئی سے لیکر ستمبر تک کام ہوتا ہے اور اکتوبر میں برف جمنا شروع ہوتا ہے ۔اور ایسے جہگوں پہ مشین اور سامان کو پہنچانا بھی بہت مشکل ہوتا ہے ۔

ایسے ہی ایک منصوبہ مسگر گوجال میں لگا ہے جہاں ایک ایک میگاواٹ کے تین مشین نصب کۓ گئے ہے جن میں سے ایک مشین نے دسمبر 2017 میں کام شروع کیا ہے باقی دو مشین بند ہے اس کی ایک وجہ کلک نالہ سے مین ٹینک تک پائپ لائن کا کام باقی ہے ۔

اور مزے کی بات یہ ہے کہ ادھر مسگر میں کام ادھورا ہے سخت سردی کی وجہ سے پائپ آپس میں نہیں جڑ رہے ہے اور ہمارے انجنیرز نے 17 کروڑ روپے کی لاگت سے بجلی کے لائن کا کام شروع کیا یہ لائن سنٹرل ہنزہ سے لیکر مسگر تک بچھے گا۔

سنٹرل ہنزہ کے لیے ٹرانسمیشن لائن بچانے کا کام اس وقت جاری ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ سخت سردی کی وجہ سے سیمنٹ برف کی طرح جمتا ہے اور ٹوٹتا ہے اس کا حل ٹھیکدار صاحبان نے یہ نکالا ہے کہ سمنٹ کی بجائے کمبہ لگانے کے لیے پتھر استعمال کرتے ہے لیکن اس کے باوجود کام مکمل نہیں ہوسکا ہے ۔اور ہوگا بھی تو بجلی نہیں ملے گا ۔

ہاں ایک صورت میں سنٹرل ہنزہ کو بجلی مل سکتا ہے کہ سوست اور چپورسن میں 24 کی بجائے 48 گھنٹے کا لوڈشیڈنگ کرکے بجلی 24 گھنٹے کے لیے سنٹرل ہنزہ کو دیا جائے۔

یہ کام ابھی ادھورا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار اور پی ڈبلیو۔ڈی سرکار نے ہنزہ کے لیے تھرمل جنریٹر لانے کا فیصلہ کیا۔

ہمارے وہ افسران اور انجنیرز جن کی وجہ سے اس طرح کے منصوبوں پر کروڈوں روپے خرچ ہونے کے باوجود بھی کوئی نتیجہ حاصل نہیں کرتا تو مسگر جہاں ہمارے ارباب اختیار اور پی ڈبلیو ڈی نے کروڑوں روپے خرچ کیا ہے بلکہ پانی کی طرح بہایا بری طرح ناکام ہوا۔ اس طرح کے اور کتنے منصوبے ہے جن پر کروڑوں خرچ کیے اور وہ یا تو ادھورا ہے یا ناکام ہوا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔

ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ان ٹھیکداروں کے پاس اس کے علاوہ بھی کہیں ٹھیکےہیں ایک کام مکمل نہیں ہوتا ہے اور دوسرا کام شروع کرتے ہے ۔ٹھیکہ دینے والے بھی کمال کے لوگ ہوتے ہے وہ صرف ٹھیکہ دینا جانتے ہے باقی نگرانی کرنا تو ان کے لغت میں نہیں ہے ہاں البتہ ہر سال وہ ٹھیکہ کی مدت اور رقم کا ازسرنو جائزہ ضرور لیتے ہے تاکہ ٹھیکہ دار اور ارباب اختیار کا فائدہ ہو۔

ایک جو سب سے بڑی وجہ ہے وہ یہ کہ آج تک کسی ٹھیکہ دار کو سزا نہیں ہوا ہے کسی ٹھیکدار کا لائسنس منسوخ نہیں ہوا ہے بلکہ ان کے ٹھیکہ نقصان ظاہر کرکے ان کو دوبارہ فنڈ جاری کیا جاتا ہے جس میں پی ۔ڈبلیو۔ڈی کے اعلی حکام بھی شامل ہے ایک ٹھیکہ کو کہیں

آج تک تو کسی نے ان کو نہیں پوچھا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ ٹھیکداروں کی مدد اور تعاون کے بغیر نہیں آتا ہے۔ ٹھیکدار ان کے الیکشن کے اخراجات برداشت کرتے ہے اس لیے ہمارے حکمران ان کے آگے بے بس ہے ۔

اب دیکھنا ہے کہ تبدیلی سرکار بھی ان کے نقش قدم پہ چلتا ہے یا پھر قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کوئی کاروائی کرتا ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button