کالمز

داسخرم کے تعلیمی مسائل 

شرافت حسین استوری
وادی داسخرم ضلع استور کی حسین ترین وادیوں میں شمار کیا جاتا ہے جو کہ دیوسائی نیشنل پارک اور دنیا کی حسین ترین وادیاں منی مرگ اور دومیل کے لیے بیس کیمپ کی حثییت رکھتی ہے۔ وادی داسخرم کم و بیش آٹھ سے نو گاوں پر مشتمل ہے اور پانچ سو گھرانے موجود ہیں اور آبادی تقریبا چار ہزار نفوس پر مشتمل ہے. وادی داسخرم جو کہ تاریخی اعتبار کے ساتھ ساتھ دفاعی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل علاقہ ہے جہاں سے پرانے وقتوں میں گلگت کے لوگ کشمیر سے تجارت کرتے تھے اور کشمیر کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی لوگ اسی راستے سے جاتے تھے۔
جوں ہی شاہراہ قراقرم کے بنتے  اس علاقےسے لوگوں نے تجارت اور سفر کرنا چھوڈ دیا اور اسی طرح اس راستے کی اہمیت میں کمی ہونے لگی۔ اور وقت کےساتھ ساتھ اس علاقے  کی محرومیاں بڑھنے لگی اور ہر آنے والی حکومت نے بھی اسکو نظر انداز کرکے  پتھر کے دور میں دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا۔
انسانی تاریخ طبقاتی کشمکش سے عبارت ہے۔ ہر دور میں حکمران طبقات نے محکوم عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے ہیں۔ کئی ہزار سال سے انسانوں کی اکثریت سسک سسک کر زندگی گزار رہی ہے۔ لیکن ظلم و ستم اور بربادیوں کے ہر دور کے بعد انقلابی ادوار آتے ہیں۔ جب مظلوم لوگ ظالموں کے سامنے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا حساب لیتے ہیں اور اپنی گزشتہ نسلوں کے دکھ اور دردکا انتقام لیتے ہیں۔ یہ دور افتادہ وادی ہمیشہ سے محرمیوں اور محکمیوں کا شکار رہی ہے۔ ہر آنے والے کھٹپتلیوں نے اس علاقے پر توجہ نہ دی اور یونہی یہ علاقہ آج کل مسائلستان بن چکا ہے. لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہر دور میں آنے والی سیاسی کٹھ پتلیوں نے بھی اس علاقے کے مستقبل کے معماروں سے کھل کر کھیلا اور سیاسی نمائندوں کا آلہ کار بننے والے یہاں کے سوشل ایکٹیوسٹ بھی اس گریٹ گیم کا حصہ ہیں۔
آج کےاس پر آشوب اور  ترقی یافتہ دور میں تعلیم کی ضرورت بڑی اہمیت کی حامل ہے اور ترقی یافتہ قومیں اپنی نوجوان نسل کو اس زیور سے آراستہ کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہیں.کیونکہ آجکا دور ایٹمی ترقی کادور ہے، سائنس اور صنعتی ترقی کادور ہے مگر سکولوں میں بنیادی عصری تعلیم، انجینیرنگ، میڈیکل، وکالت اور مختلف جدید تعلیم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضا ہے .
 تعلیم کے حصول کے لیے قابل اساتذہ اور دوستانہ ماحول بھی لازمی ہے جو بچوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں. استاد وہ نہیں جو محض چند کتابیں پڑھاکر اور کچھ کلاسز لیے کر اپنے فرائض سے مبرا ہو گیا بلک استاد وہ ہے جو طلبا و طالبات کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے اور انہیں شعور اور ادراک و علم و آگہی نیز فکرو نظر کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔
تعلیمی مسائل کی بات کریں تو شائد کسی غیر ترقی یافتہ ملک میں بھی ایسی حالت نہیں ہو گی جو حالت داسخرم کے سکولوں میں ہے۔ سکولوں میں فرنیچر کی کمی وجہ سے طلبا فرش پر بیھٹنے پر مجبور ہوجاتے ہیں  فری ایجوکیشن اور تعلیم کے حوالے سے بڑے بڑے دعوے  کرنے والوں نے نہ اس علاقے کے طلبا کو نہ کتابیں دیا نہ وہاں جاکر سکولز کی حالت زار کو  دیکھا۔ خصوصا اس وادی میں سردی اور برف باری زیادہ ہونے کی وجہ سے طلبا اور اساتذہ سب کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے
داسخرم کا ایک گاوں ککن ہے جہاں پر سکول کی بلڈنگ 60 سال پرانی اور دو کمروں پر مشتمل ہے اور وہاں پر پانچویں کلاس تک پڑھایا جاتا ہے اور ایک کمرے میں تیں تین کلاسز کو بٹھا کر پڑھایا جاتا ہے اور یوں یہاں پر ہر سال کتنے ڈاکٹرز انجنیرز، پالسیز میکرز اور وکلا کا مستقبل خطرے میں پڑھ جاتا ہے ۔ بلڈنگ نہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں پر اساتزہ کی کمی وادی داسخرم میں ہمیشہ سے رہی ہے جو کہ ایک دو گاوں پر کمیونٹی ٹیچرز بھی کام چلا لیتے ہین اور بعض سکولوں میں دو دو اساتذہ  چھے چھے کلاسز کا پڑھا لیتے ہیں ۔ وزیر تعلیم ابراہیم ثنائی کے بار بار کے اعلانات بھی اس گاوں میں سکول بنانے کے کام نہیں آئے۔ ریاست کی زمہ داری ہوتی ہے وہ ریاست کے باشندوں کو وہ تمام سہولیات مہیا کریں لیکن یہاںالٹی گنگا بہتی ہے یا اس علاقے کی قسمت خراب ہے سمجھ میں نہیں آتی…!
وادی داسخرم میں ایک ہائی سکول جہاں پر  10 سال بعد  کلاسز شروع ہوئی وہاں پر مڈل سکول میں پہلے سے اساتذہ کی کمی تھی اور نئے اساتذہ بھرتی کیے بغیر  انہی اساتذہ کو نویں کلاس کی زمہ داری بھی سونپی گئ، نہ کوئی سائنس ٹیچر نہ کچھ ۔۔۔سیاسی کٹھ پتلیوں نے پوآئنٹ اسکورنگ کے لیے کلاسز کا اجرا کیا لیکن ایک سال سے اوپر ہو گیا مگر محکمہ تعلیم کی طرف سے وہاں پر نئے اساتذہ تعینات نہیں ہوئے ۔۔!
اساتذہ کی کمی داسخرم کے سکولوں میں ایک بہت بڑا مسلہ ہے جو کہ کھریم سے لے کر شیرقعلہ گاوں تک ہر سکولوں میں اساتذہ کی کمی ہے اور اساتذہ دن میں ایک ہی ٹایم دو دو کلاسز کو پڑھاتے ہیں اور اس کے ساتھ سائنس ٹیچرز کی کمی وجہ سے بہت سارے طلبا میٹرک سے آگے پڑھ نہیں سکتے.
کسی بھی ملک و قوم کی ترقی میں اس معاشرے کی عورتوں کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے اگر وہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں تو، ترقی یافتہ ملکوں کی مثال مثال ہمارے سامنے ہے جس قدر تعلیم عام ہوگی اس قدر وہ معاشرہ ترقی کرے گا  داسخرم میں طالبات  کے لیے  نہ کوئی مڈل سکول ہے  نہ کوئی ہائی اسکول ۔۔!  کوئی سکول نہیں ہونے کی وجہ سے فیمیل تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں
 ہم اہلیان داسخرم وزیر اعلی گلگت بلتستان سے گزارش کرتے ہیں وہ ضلع استور کے اس دور افتادہ گاوں میں جتنے بھی تعلیمی مسائل انکو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں جن میں اساتذہ کی کمی اور خصوصا  سائنس اساتذہ کی کمی کو پورا کریں، گورنمنٹ نے کب سے فری بکس کا ڈھونگ رچایا ہویا ہے لیکن آج تک کبھی یہاں کے غریب طلبا کو مفت کتابیں نہیں دیا گیا، ککن میں سکول کی عمارت جتنی جلدی ہو سکے تعمیر کیا جائے…! وزِیر اعلی گلگت بلتستان، وزیر تعلیم، چیف سیکرٹری اور سیکرٹری ایجوکیشن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے تمام وسائل بھروئے کار لاتے ہوئے ہمارے ان مسائل کا حل نکال

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button