کالمز

گلگت بلتستان کے آئینی اور سیاسی حقوق کا مسلۂ 

اس وقت ہم سب کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستانی مقتدر حلقے گلگت بلتستان کے  لوگوں کو سننے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں؟ آئیے سب سے پہلے جی بی کے آئینی اور سیاسی پس منظر کو مختصراً دیکھتے ہیں۔

انگریزوں کے دور میں گلگت بلتستان بنیادی طور پر سیاسی لحاظ سے کشمیر راج کے ساتھ منسلک رہا۔ 1947 میں یہاں کے لوگوں نے اپنی مدد اپ کے تحت آزادی کی جنگ لڑی اور مختصر مدت کے لیے اپنی مقامی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ تاہم جلد ہی نومبر 1947 کے وسط میں اس ریجن کو پاکستان نے ایک پولیٹکل ایجنٹ کے حوالے کردیا جو کہ غیر مقامی شخص تھا۔ انگریزوں کے بنائے ہوئے کالے قانون فرنٹئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) نافذ کردیا گیا۔ گلگت بلتستان نام کو بھی مٹا کر اس علاقے کو ناردرن ایریاز کا نام دے دیا۔ اس قانون کے تحت جی بی کو تقریباً تین دہائیوں تک چلایا گیا۔ اس دوران کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر پاپندی عائد کی گئی۔اس وقت کے پولیٹیکل ریذیڈنٹ صوبہ سرحد کے ماتحت تھا۔ کشمیری قیادت اور پاکستان کے بیج ہوئے کراچی ایگریمنٹ کے بعد جی بی کو براہ راست پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا۔ یاد رہے کہ معاہدہ کراچی میں کسی گلگت بلتستانی کی رائے نہیں لی گئی۔

1950 میں جی بی کو کشمیر افیئرز اینڈ ناردرن ایریاز KANA کے حوالے کردیا گیا کراچی میں مقیم ایک اوسط رینک کے سول سرونٹ کو وہاں کا پولیٹیکل ریذیڈنٹ  مقرر کردیا گیا۔کانا KANA نے بہرے کے ساتھ ملکر اس طرح وہاں کے انتظامی معاملات چلانے کا اختیار حاصل کرلیا۔

1967 میں  پولیٹیکل ریذیڈنٹ کوریذیڈنٹ بناکر اسلام اباد سے پہلی بار گلگت بھیج دیا گیا۔ یہ غیر مقامی ریذیڈنٹ مختار کل بن کر وہاں  کے مقننہ انتظامی سیاسی مالی اور عدالتی معاملات چلاتے رہے۔ اس  کے ماتحت دو پولیٹیکل ایجنٹ غیر معمولی اختیارات کے ساتھ تعینات کیے گئے جو بیک وقت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، ریوینو کلٹر، کمشنر فار ایف سی آر، ائی جی پولیس، چیئرمین اف ڈسٹرکٹ کونسل اور کواپریٹیو سوسایئٹیز کے کنٹرول افیسر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔

تاریخ میں پہلی بار ستر کی دہائی میں وہاں الیکشن کروائے گئے جس کے نتیجے میں مقامی نمائیندوں پر مشتمل سولہ رکنی ناردرن ایریاز ایڈوایئزری کونسل معروض وجود میں ایا۔اس کونسل کا سربراہ پہلے ریذیڈنٹ ہی تھا پھر اسے وزیر کشمیر افیئرز اینڈ ناردرن ایریاز کے حوالے کردیا گیا۔ آزادی کے تیس سال بعد ایف سی آر جیسے کالے قانون کو ختم کردیا گیا اور تین نئے اضلاع بھی بنا دئیے گئے۔ بعد میں ایڈوایئزری کونسل کو ناردرن ایریاز کونسل بنادیا گیا تاہم اب بھی یہ کونسل اختیارات سے خالی تھا۔ جنرل ضیا الحق نے پہلی بار گلگت بلتستان کو فیڈرل ایڈوایئزری کونسل اف پاکستان میں ابزرور کی حیثیت دینے کی اجازت دی تاہم بعد میں اسے ختم کردیا گیا۔

‎  انیس سو چورانوے میں لیگل فریم ورکس آرڈر (ایل ایف او) کے تحت کونسل کو کچھ قوانین بنانے کی اجازت دی گئی تاہم چیف ایگزیکٹو کی اجازت کے بے غیر ان قوانین کو ناردرن ایریاز لیجسلیٹیو کونسل نافذ نہیں کرسکتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب بھی سارے اختیارات کشمیر افیئرز اور ناردرن ایریاز یعنی کانا کے پاس ہی تھے۔

‎تاہم اس زمانے میں محدود سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی گئی جس کے نتیجے میں پاکستان کی مین سٹریم سیاسی جماعتیں گلگت بلتستان کی سیاست میں داخل ہوگئی تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی مقامی سیاسی جماعتوں کو وہاں  سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ گلگت بلتستان اور کشمیر کے لوگ مل کر سیاسی جدوجہد کریں۔ بہرحال  سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے گلگت بلتستانیوں میں سیاسی شعور پیدا ہوتا گیا اور وہاں کے لوگوں نے اپنے جائز حقوق کا مطالبہ تیز سے تیز تر کردیا جس کے نتیجے میں 2009 میں حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کو ریفارمز کی شکل میں سیلف گورننس آرڈر 2009 کے تحت کچھ اختیارات منتقل کردیے۔ جس کے نتیجے میں گلگت بلتستان لیجسلیٹیو اسمبلی گلگت بلتستان کونسل جی بی اپیلٹ کورٹ بنا دئیے گئے۔ اور جی بی لیجسلیٹیو اسمبلی کو محدود اختیارات بھی دئیے گئے۔ 2018 میں آرڈر 2018 کے نام سے نئے ریفامز کے نام پر گلگت بلتستانیوں کو اختیارات دینے کے بجائے پہلے سے موجود محدود اختیارات بھی واپس لینے اور وزیراعظم پاکستان کو مختار کل بنانے کی کوشش کی گئی۔ مجبوراً گلگت بلتستان کے سیاسی اور سماجی کارکنوں نے گلگت بلتستان کے آئینی اور سیاسی حقوق کے لیے سپریم کورٹ اف پاکستان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے بعد سترہ جنوری 2019 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ جس کے تحت گلگت بلتستان کو متنازعہ خطہ قرار دیکر زیادہ سے زیادہ اختیارات دینے کی سفارش کی گئی۔  تاہم گلگت بلتستانیوں کی اکثریت نے اس فیصلے کو یہ کہہ مسترد کردیا ہے کہ جی بی کو متنازعہ قرار دینے  کے بعد متنازعہ علاقوں کے حقوق کا تعین نہ کرنے سے فیصلہ  ادهورا لگتا ہے اور پاکستان کے زیر انتظام مختلف  متنازعہ علاقوں سے مختلف سلوک کیا جارہا ہے۔

ایسا لگتا ہے سپریم کورٹ اف پاکستان کے سترہ جنوری 2019 کے فیصلے کے بعد گلگت بلتستانیوں کے غم و غصے میں اضافہ ہوا ہے  یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستانیوں  نے جی بی کے اندر اور جی بی سے باہر ہر جگہ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ گزشتہ اتوار کے روز سکردو کراچی لاہور اسلام اباد میں بڑی تعداد میں لوگوں نے احتجاج  کرکے سپریم کورٹ اف پاکستان کے فیصلے کو مسترد کردیا۔ دوسری طرف مختلف سیاسی اور سماجی کارکنوں نے بھر پور تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ جب کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں کی مسلسل خاموشی اور جی بی کے سیاسی اور سماجی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن سے ایک غیر یقینی کی فضا نے جنم لیا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ معاملہ اور بھی مشکل صورتحال اختیار کرسکتا ہے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ پاکستانی حکمران اور اسٹپلشمنٹ/ملٹپلشنٹ کیوں گلگت بلتستان کے لوگوں کو سننے کے لیے تیار نہیں ہیں؟ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ گلگت بلتستان کو بھی پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح برابر کے حقوق دیئے جائیں بجائے اس کے کہ پہلے سے موجود مسائل میں اور بھی اضافہ کریں! اج ہم سب کے سامنے یہ سب سے بڑا سوال ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button