چترال(گل حماد فاروقی) چترال پولوگراؤنڈ کے قریب موسیٰ محمد علی شاہ کے گھر میں رات کو اچانک آگ لگنے سےکروڑوں کا نقصان ہو گیا۔
اس نمائندے سے باتیں کرتے ہوئے مظہر علی شاہ نے بتایا کہ آگ صرف ایک کمرے میں لگا تھا اور ہم نے ریسکو ون ون ٹو ٹو کو بلایا مگر ان کے پاس لمبا پائپ نہیں تھا۔ جب دوسرا فائر بریگیڈ آیا تو اس میں پانی نہیں تھا ا س کے بعد ایک اور فائر بریگیڈ کو بلایا گیا تو ان کے پاس نیوزل نہیں تھا اور وہ صرف مکان کے چھت پر پانی پھینکتا تھا جبکہ یہ ٹین والا مکان ہے اور آگ دیار کی لکڑی سے بنے ہوئے عمارت میں ٹین کے نیچے لگا تھا۔
مظہر علی نے بتایا کہ اگرفائر بریگیڈ بروقت کام کرتا تو آگ پورے مکان میں نہیں پھیلتا اور اسے جلدی بجایا جاسکتا تھا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ریسکیو1122 میں سفارشی بنیادوں پر غیر مقامی لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے اور وہ باقاعدہ تربیت یافتہ بھی نہیں لگتے کیونکہ تربیت یافتہ عملہ آگ کو چاروں طرف سے قابو کرکے اسے آگے پھیلنے سے روکتے ہیں۔ مگر وہ آگ پر قابو نہیں کرسکے۔
انہوں نے وزیر اعلی خیبر پختون خواہ سے مطالبہ کیا کہ اس عملہ کے خلاف قانونی کاروائی کرے تاکہ آئندہ یہ بروقت آگ پر قابوپا کر لوگوں کو کروڑں روپے کےنقصان سے بچایا جاسکے۔
آگ لگنے سے ایک ہاسٹل، زنانہ دستکاری سنٹر، کمپیوٹر لیب اور کمپیوٹر سنٹر، انصاف کارڈ کا دفتر اور دیگر کئی دفاتر بھی جل گئے۔
مظہر علی شاہ کے مطابق آگ صرف ایک کمرے میں لگا تھا اور اگر ریسکیو 1122 بروقت کاروائی کرتے تو یہ بیس کمروں پر مشتمل مکان جلنے سے بچ جاتا۔
انہوں نے صوبائی اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کی ساتھ مالی مدد کرے تاکہ اس مکان کو دوبارہ تعمیر کرسکے نیز جن اداروں کے سلائی مشین، کمپیوٹر وغیرہ جل چکے ہیں ان کے ساتھ بھی حکومت مالی مدد کرے۔
اس سلسلے میں جب ریسکیو 1122 کے ذمہ دار افسر محمد کاشف سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا آگ کسی ہیٹر وغیرہ کی وجہ سے لگاتھا اور مقامی لوگ ہمیں کام نہیں کرنے دیتے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارے عملہ نے نہایت مشکل سے کام کیا اور آگ بجھایا ۔
مظہر علی شاہ نے اپنے موقف کے تائید میں کہا کہ ہمارے پاس ویڈیو اور گواہان بھی موجود ہیں جس سے ریسکیو والوں کی غفلت اور نااہلی صاف ظاہر ہوتا ہے۔