چترال

چترال میں دو ضلعے بنائے جائیں، ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبران کا مطالبہ

چترال ( نذیرحسین شاہ نذیر) ضلع کونسل چترال کے تمام ممبران نے صوبائی حکومت سے چترال کو دو ضلع بنانے کیلئے بھر پور مطالبہ کیا ہے ۔ اور کہا ہے ۔ کہ چترال کے وسیع رقبے ، بڑھتی ہوئی آبادی ، غربت ، شکستہ سڑکوں اور انتظامی مشکلات کی وجہ سے اس کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنا ناگزیر ہو چکی ہے ۔ اس لئے وزیر اعلی خیبر پختونخوا اور صوبائی حکومت چترال کے عوام کے اس اہم مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بلا تاخیر اقدامات کرے ۔ پیر کے روز کنونیر ضلع کونسل چترال مولانا عبدا لشکور کی زیر صدارت جب اجلاس کا آغاز ہوا ۔ تو ایجنڈے کے مطابق چترال کو دو ضلع بنانے کے حوالے سے قرارداد مولانا محمودالحسن نے پیس کرتے ہوئے کہا ۔ کہ چترال 14850مربع کلومیٹر پر محیط ضلع ہے ۔ جس کے ایک سرے سے دوسرے تک پہنچنے کیلئے گاڑی میں دو دن سفر کرنا پڑتا ہے ۔ آفات کی وجہ سے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے ،آبادی سات لاکھ تک پہنچ گئی ہے ۔ لوگوں کو تعلیم ، صحت ، ملازمت اور دیگر سرکای کاموں کیلئے سینکڑوں کلومیٹر سفر کرنا پڑتا ہے ۔ اور خاص کر ضلع کے انتظامی امور کی انجام دہی میں بھی غیر معمولی تکالیف کا سامنا ہے ۔ اس لئے ان حالات کے پیش نظر تحریک انصاف کی حکومت کو عوام کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے چترال کو دو ضلع بنانا چاہیے ۔ اور ضلع کونسل چترال کے تمام ممبران اس حوالے سے ایک پیچ پر ہیں ۔

انہوں نے کہا ۔ کہ صوبے میں جتنے بھی نئے ضلعے بنائے گئے ہیں ۔ وہ مکمل طور پر سیاسی بنیادوں پر وجود میں لائے گئے ہیں ۔ جو چترال کے مقابلے میں قواعد و ضوا بط سے بہت دور ہیں ۔ انہوں نے اس حوالے سے تور غر، لوئردیر ، کوہستان وغیرہ کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے کہا ۔ کہ ان کی آبادی ، رقبہ اور مشکلات چترال کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ لیکن سیاسی مفادات کی بنیاد پر اُن کو ضلع بنایا گیا ہے ۔ اس موقع پر ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ نے کہاکہ اس سلسلے میں ہماری کوششیں جاری ہیں ۔ حالیہ دنوں میں تین سرکل ، تین تھانے اور چھ چوکیوں کا قیام اس سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔ ہم صوبائی حکومت سے بھی اس حوالے سے قریبی رابطے میں ہیں ۔ تاہم اس سلسلے میں چترال کے ایم این اے ، ایم پی ایز ،تحصیل ناظمین و ممبران ویلج ناظمین و ممبران کا گرینڈ جرگہ بلایا جائے گا ۔ اور ضلع کے قیام کیلئے متفقہ طور پر لائحہ عمل طے کیا جائے گا ۔ بحث میں صدر تحریک انصاف چترال و ممبر ڈسٹرکٹ کونسل عبداللطیف نے کہا۔ کہ وہ دو ضلعوں کے قیام کے حق میں ہیں ۔ اوراُ ن کی حکومت نے دروش کو تحصیل بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ اسی طرح تورکہو اور موڑکہو کو بھی تحصیل بنانے کی کوششیں جاری ہیں ۔

جبکہ دیگر ممبران مولانا عبد الرحمن ، رحمت الہی ، رحمت ولی ،غلام مصطفی ، مولانا انعام الحق ، شیر محمد ارندو ، شیر محمد شیشیکوہ ، عبدالقیوم ، محمد یعقوب وغیرہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا ۔ کہ دو ضلع کا قیام انتہائی ضروری ہے ۔ باقی چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں ۔ دوسرے ایجنڈے میں اس امر کا مطالبہ کیا گیا ۔ کہ ضلع کونسل کے پانچ لاکھ سے کم لاگت کے ترقیاتی منصوبے ٹھیکہ داری کی بجائے پراجیکٹ لیڈر ی سسٹم کے تحت کئے جائیں ۔ کیونکہ ٹھیکہ داری نظام میں کم رقم دفتری سسٹم کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے ۔ اس بحث میں عبداللطیف نے کہا ۔ کہ پراجیکٹ لیڈر پہلے بد نام ہوئے ہیں ۔ اور حکومت کا بڑا فنڈ اس سسٹم کے تحت بندر بانٹ کی گئی ۔ اس لئے صوبائی حکومت ٹھیکہ داری نظام پر زور دے رہا ہے ۔

ضلع ناظم نے کہا ۔ کہ اس سلسلے میں ناظمین چیف منسٹر سے ملاقات کی ہے ۔ تاہم اُس کے کوئی اچھے نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں ۔ اجلاس میں ممبران کے اعزازیہ کے بارے میں بھی بات کی گئی ۔ اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا ۔ کہ ویلج سطح پر ناظمین کو اعزازیہ دیا جاتا ہے ۔ جبکہ ضلع کے ممبران جو دور دور سے اجلاس کیلئے آتے ہیں ۔ اُن کیلئے کوئی اعزازیہ کا انتظام موجودہ بلدیاتی نظام میں نہیں رکھا گیا ۔ قبل ازین جب کنونئیر نے اجلاس کا آغاز کیا ۔ تو ممبر ڈسٹرکٹ کونسل عبد اللطیف نے اجلاس میں چھ خواتین ممبران کے مسلسل بائیکاٹ کا سوال اُٹھاتے ہوئے کہا ۔ کہ یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے ۔ کہ تین سال ہونے کو ہیں ۔ ہم خواتین ممبران کے مسئلے کی طرف سنجیدہ توجہ نہیں دیتے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے ۔ کہ اُن کا مسئلہ صنفی امتیاز کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔ اور اخبارت کے ذریعے بیرونی دنیا تک پھیل گیا ہے ۔ جو کہ ہمارے لئے انتہائی شرم کا باعث ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ہم اگر اپنی خواتین ممبران کا مسئلہ حل کرکے اُن کو مطمئن نہیں کر سکتے ۔ تو چترال کی ترقی کیلئے کیا کر سکتے ہیں ۔ اس لئے اس پر توجہ دی جائے ۔

اس حوالے سے مولانا محمودالحسن ، عبدالوہاب ، شیر محمد ، محمد حسین نے مخا لفت جبکہ غلام مصطفی ایڈوکیٹ ، محمد یعقوب ، شیر عزیز بیگ اور مولانا عبدالرحمن نے حق میں دلائل دیتے ہوئے بحث میں حصہ لیا ۔ ضلع ناظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔ کہ خواتین کو پانچ فیصد بجٹ دیا گیا ہے ۔ جبکہ اُن کے مقابلے میں کسان اور یوتھ ممبران کو نہیں دیا گیا ہے ۔ پھر بھی کونسل کا تقدس ہم سب کیلئے لازمی ہے ۔ اس لئے خواتین ممبران سے بات کرنے کیلئے معزز ارکان عبداللطیف تحریک انصاف ، مولانا محمودالحسن جے یو آئی اور شیر عزیز بیگ پاکستان پیپلز پارٹی کا نام لیتا ہوں ۔ کہ وہ انفرادی یا اجتماعی طور پر خواتین ممبران سے بات کریں ۔ اور مسئلے کو حل کی طرف لے آئیں ۔ اس پر کنونئییر نے ضلع ناظم کے فیصلے کی توثیق کی ۔ اور کمیٹی تشکیل پائی ۔ واضح رہے ۔ کہ ضلع کونسل کی خواتین ممبران گذشتہ چار اجلاسوں سے بائیکاٹ پر ہیں ۔ اور اُن کا یہ موقف ہے ۔ کہ فنڈ کی تقسیم میں اُن کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے ۔ اور حالیہ دنوں میں انہوں نے صوبائی اسمبلی پشاور کے سامنے اس حوالے سے بھوک ہڑتال کرنے کی دھمکی دی تھی ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button